انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تبجیل الرسول برکت اندوزی صحابیات ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک سے برکت اندوز ہوتی رہتی تھیں اس لیے جوبچہ پیدا ہوتا، صحابیات سب سے پہلے اس کوآپ کی خدمت میں حاضر کرتیں آپ بچے کے سرپرہاتھ پھیرتے، اپنے منہ میں کھجور ڈال کراس کی منہ میں ڈالتے اور اس کے لیے برکت کی دعا فرماتے۔ (مسلم،كِتَاب الْفَضَائِلِ،بَاب قُرْبِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام مِنْ النَّاسِ وَتَبَرُّكِهِمْ بِهِ) محافظتِ یادگارِ رسول صحابیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگاروں کوجان سے زیادہ عزیز رکھتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آپ کا یک جبہ محفوظ تھا جب ان کا انتقال ہوا توحضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اس کولے لیا اورمحفوظ رکھا؛ چنانچہ جب کوئی شخص آپ کے خاندان میں بیمار ہوتا تھا توشفا حاصل کرنے کے لیے اس کودھوکر اس کا پانی پلاتی تھیں۔ (مسنداحمد بن حنبل:۶/۳۴۸) جن کپڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کومحفوظ رکھاتھا؛ چنانچہ ایک دن انہوں نے ایک صحابی کوایک یمنی تہ بند اور ایک کمل دکھاکر کہا کہ خدا قسم! آپ نے انہی کپڑوں میں داعیِ اجل کولبیک کہا تھا۔ (ابوداؤد، كِتَاب اللِّبَاسِ،بَاب فِي لُبْسِ الصُّوفِ وَالشَّعَرِ) ایک بار ایک صحابیہ نے آپ کی دعوت کی آپ نے کھانے کے بعد جس مشکیزہ سے پانی پیا اس کوانہوں نے محفوظ رکھا جب کوئی شخص بیمار ہوتا یابرکت حاصل کرنے کا موقع آتا تووہ اس سے پانی پیتی اور پلاتی تھیں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت اُم نیاز رضی اللہ عنہا) جب آپ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لاتے تھے توان کی والدہ آپ کے پسینے کونچوڑ کرایک شیشی میں بھرلیتی تھیں اور اس کومحفوظ رکھتی تھیں۔ (بخاری،كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ، بَاب مَنْ زَارَ قَوْمًا فَقَالَ عِنْدَهُمْ) غزوۂ خیبر میں آپ نے ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا کوخود دستِ مبارک سے ایک ہارپہنایا تھا، وہ اس کی اتنی قدر کرتی تھیں کہ عمربھر اس کوگلے سے جدا نہیں کیا اور جب انتقال کرنے لگیں تووصیت کی کہ ان کی ساتھ وہ بھی دفن کردیا جائے۔ (مسندابن حنبل:۶/۳۸۰) ایک دن آپ حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کے مکان پرتشریف لائے، گھر میں ایک مشکیزہ لٹک رہا تھا آپ نے اس کا دہانہ اپنے منہ سے لگایا اور پانی پیا، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے مشکیزے کے دہانے کوکاٹ کراپنے پاس بطورِ یادگار کے رکھ لیا۔ (ابوداؤد، كِتَاب اللِّبَاسِ،بَاب فِي لُبْسِ الصُّوفِ وَالشَّعَرِ) آپ حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کبھی کبھی قیلولہ فرماتے تھے اس غرض سے انہوں نے آپ کے لیے ایک بستر اور ایک خاص تہ بند بنوالیا تھا جس کوپہن کرآپ استراحت فرماتے تھے یہ یادگاریں ایک مدت تک آپ کے خاندان میں محفوظ رہیں، اخیر میں مروان نے ان سے لے لیا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرۂ حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا) ادب رسول صحابیات رضی اللہ عنھن آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تودربارِ نبوت کے ادب وعظمت کے لحاظ سے تمام کپڑے زیب تن کرلیتیں، ایک صحابیہ فرماتی ہیں: جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (ابوداؤد،كِتَاب الطَّلَاقِ،بَاب فِي عِدَّةِ الْحَامِلِ،حدیث نمبر:۱۹۶۲، شاملہ، موقع الإسلام۔ اسدالغابہ، تذکرۂ حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا) ترجمہ:جب شام ہوئی تو میں نے تمام کپڑے پہن لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اگرنادانستگی کی حالت میں بھی کوئی کلمہ آپ کی شان کے خلاف منہ سے نکل جاتاتواس کی معافی چاہتیں، ایک صحابیہ کا بچہ مرگیا اور وہ اس پررورہی تھی، آپ کا گذرہوا توفرمایا: خدا سے ڈرو! اور صبر کرو! بولیں تمھیں میری مصیبت کی کیا پرواہ ہے؟ آپ چلے گئے تولوگوں نے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، دوڑی ہوئی آئیں اور عرض کی کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں پہچانا۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب الصَّبْرِ عِنْدَ الصَّدْمَةِ) حمایت رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابیات رضی اللہ عنھن اپنے دلوں میں نہایت شدت کے ساتھ آپ کی حمایت کی آرزورکھتی تھیں، حضرت طلیب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور اپنی ماں ارویٰ بنت عبدالمطلب کواس کی خبردی توبولیں کہ تم نے جس شخص کی حمایت کی وہ اس کا سب سے بڑا مستحق تھا اگرمردوں کی طرح ہم بھی استطاعت رکھتے تو آپ کی حفاظت کرتے اور آپ کی طرف سے لڑتے۔ (استیعاب، تذکرۂ حضرت طیب بن عمیر رضی اللہ عنہا) خدمت رسول صحابیات رضی اللہ عنھن، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کواپنا سب سے بڑا شرف خیال کرتی تھیں حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ تھیں؛ انہوں نے اس استقلال کے ساتھ آپ کی خدمت کی کہ ان کوخادمۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب حاصل ہوا۔ (ابوداؤد،كِتَاب الطِّبِّ،بَاب فِي الْحِجَامَةِ) سفینہ رضی اللہ عنہا، حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کی لونڈی تھی انہوں نے اس کواس شرط پرآزاد کرنا چاہا کہ وہ اپنی عمرآپ کی خدمت گذاری میں صرف کرے، اس نے کہا: اگرآپ یہ شرط نہ بھی کرتیں تب بھی میں تادم اخیر آپ کی خدمت سے علیحدہ نہ ہوتی۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْعِتْقِ،بَاب فِي الْعِتْقِ عَلَى الشَّرْطِ) ہیبت رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرعظمت روحانیت سے صحابیات رضی اللہ عنھن اس قدر مرعوب ہوجاتی تھیں کہ جسم پررعشہ پڑجاتا تھا ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومسجد میں اکڑوبیٹھے ہوئے دیکھا ان پرآپ کے اس خشوع وخضوع کی حالت کا یہ اثرپڑا کہ کانپ اُٹھیں۔ (شمائل ترمذی، باب ماجاء فی حلیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نعتِ رسول صحابیات رضی اللہ عنھن کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں تک آپ کی مدح میں رطب اللسان رہتی تھیں، آپ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تولڑکیاں دف بجا بجا کر یہ شعر گاتی پھرتی تھیں ؎ نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ ہم خاندانِ بنونجار کی لڑکیاں ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کتنے اچھے پڑوسی ہیں پردہ نشین عورتی یہ اشعار پڑھتی تھیں ؎ طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مَن ثَنيَّاتِ الوَدَاعِ ترجمہ: ثَنيَّاتِ الوَدَاعِ کی گھاٹیوں سے ہم پرچودھویں رات کا چاند طلوع ہوا۔ وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَیٰ لِلّٰهِ دَاعِی ترجمہ:جب تک دُعا کرنے والے دُعا کریں، ہم پرخدا کا شکر واجب ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب رخصت ہوکرآئیں توچھوکریاں دَف بجاجبا کرواقعاتِ بدر کے متعلق اشعار گاتی تھیں اُن میں سے ایک نے یہ مصرعہ گایا ؎ وَفِينَا نَبِىٌّ يَعْلَمُ مَافِى غَدِ۔ ترجمہ:ہم میں ایک پیغمبر ہے جوکل کی بات جانتا ہے۔ توآپ نے رُوک دیا اور کہا کہ وہی گاؤ جوپہلے گارہی تھیں۔ (بخاری،كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب ضَرْبِ الدُّفِّ فِي النِّكَاحِ وَالْوَلِيمَةِ) پابندی احکام رسول صحابیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی نہایت شدت کے ساتھ پابندی کرتی تھیں آپ نے شوہر کے علاوہ اور اعزہ کے ماتم کے لیے صرف تین دن مقرر فرمائے تھے، صحابیات رضی اللہ عنھن نے اس کی اس شدت کے ساتھ پابندی کی کہ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہوا توچوتھے دن کچھ عورتیں ان سے ملنے آئیں انہو ں نے ان سب کے سامنے خوشبو لگائی اور کہا کہ مجھے خوشبو کی ضرورت نہ تھی؛ لیکن میں نے آپﷺ سے سنا ہے کہ کسی مسلمان عورت کوشوہر کے سوا تین دن سے زیادہ کسی کا ماتم کرنا جائز نہیں، اس لیے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی، جب حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد نے انتقال کیا توانہوں نے تین روز کے بعد تیل لگایا خوشبو ملی اور کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہ تھی، صرف آپﷺ کے حکم کی تعمیل مقصود تھی۔ (ابوداؤد،كِتَاب الطَّلَاقِ،بَاب إِحْدَادِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا) ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک سائل آیا؛ انہوں نے روٹی کا ایک ٹکڑا دیدیا پھر اس کے بعد ایک خوش لباس شخص آیا توانہوں نے اس کوبٹھاکرخوب کھانا کھلایا لوگوں نے اس تفریق وامتیاز پراعتراض کیا توبولیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَنْزلُوْا النَّاسَ عَلَى قَدْرِ مَنَازِلِهِمْ۔ ترجمہ:لوگوں کوان کے درجہ پررکھو۔ ایک بار آپ مسجد سے نکل رہے تھے دیکھا کہ راستے میں مرد عورت مل جل کرچل رہے ہیں، عورتوں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا پیچھے رہو تم وسط راہ سے نہیں گذرسکتیں، اس کے بعد عورتوں کا یہ حال ہوگیا کہ گلی کے کنارے سے اس طرح لگ کے چلتی تھیں کہ ان کے کپڑے دیواروں سے الجھ جاتے تھے۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب فِي مَشْيِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الطَّرِيقِ) رضامندی رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابیات رضی اللہ عنھن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کی ہمیشہ فکر رہتی تھی، اس لیے اگرآپ کبھی ناراض ہوجاتے تھے توہرممکن تدبیر سے آپ کے رضامند کرنے کی کوشش کرتی تھیں آپ جب حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے توتمام بی بیاں ساتھ تھیں سوءِ اتفاق سے راستہ میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ تھک کربیٹھ گیا وہ رونے لگیں آپ کوخبر ہوئی توخود تشریف لائے اور دستِ مبارک سے ان کے آنسو پونچھے آپ جس قدر اُن کورونے سے منع فرماتے تھے اسی قدر وہ اور زیادہ روتی تھیں، جب کسی طرح چپ نہ ہوئیں توآپ نے اُن کی سرزنش فرمائی اور تمام لوگوں کومنزل کرنے کا حکم دیا اور خود بھی اپنا خیمہ نصب کروایا، اب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کوخیال ہوا کہ آپ ان سے ناراض ہوگئے اس لیے آپ کی رضامندی کی تدبیریں اختیار کیں اس غرض سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہا کہ آپ کومعلوم ہے کہ میں اپنی باری کا دن کسی چیز کے معاوضہ میں نہیں دے سکتی لیکن اگرآپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومجھ سے راضی کردیں تومیں اپنی باری کا دن آپ کودیتی ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آمادگی ظاہر کی اور ایک ڈوپٹہ اوڑھا جوزعفرانی رنگ میں رنگا ہوا تھا؛ پھراس پرپانی کے چھینٹے دیئے کہ خوشبو خوب پھیلے اس کے بعد آپ کی خدمت میں گئیں اور خیمہ کا پردہ اُٹھایا توآپ نے فرمایا: عائشہ! یہ تمہاری باری کا دن نہیں ہے، بولیں: ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ۔ (المائدۃ:۵۴) ترجمہ: یہ خدا کا فضل ہے، جس کوچاہتا ہے، دیتا ہے۔ تفویض الی الرسول عورت کے لیے نکاح کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے؛ لیکن صحابیات رضی اللہ عنھن نے اپنے آپ کوبالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا تھا، اس لیے آپ جس سے چاہتے تھے ان کا نکاح کردیتے تھے اور وہ بخوشی اس کوقبول کرلیتی تھیں، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ تھیں جن سے ایک طرف توحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جونہایت دولتمند صحابی تھے نکاح کرنا چاہتے تھے، دوسری طرف آپ نے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے متعلق ان سے گفتگو کی تھی؛ لیکن حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے آپ کواپنی قسمت کا مالک بنادیا اور کہا کہ میرا معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے، جس سے چاہئے نکاح کردیجئے۔ (نسائی، كِتَاب النِّكَاحِ،الْخِطْبَةُ فِي النِّكَاحِ) حبیب رضی اللہ عنہ ایک ظریف الطبع صحابی تھے جوراستوں میں بھی ظرافت اور مذاق کی باتیں کرتے تھے اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہ اُن کوعموماً ناپسند کرتے تھے، ایک بار آپ نے ان کے لیے ایک انصاری لڑکی سے پیغامِ نکاح دیا انہوں نے کہا کہ اس کی ماں سے مشورہ کرلوں، ماں نے حبیب کا نام سنا توانکار کیا؛ لیکن لڑکی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نامنظور نہیں کی جاسکتی، مجھے آپ کے حوالے کردو خدا مجھے ضائع نہ کرے گا۔ (مسند:۴/۲۳۲) ضیافتِ رسول اگرخوش قسمتی سے صحابیات رضی اللہ عنھن کوکبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کا موقع ملتا تونہایت عزت، محبت اور ادب کے ساتھ اس فرض کوبجالاتیں ایک بار آپ حضرت اُم حرام رضی اللہ عنہا کے مکان پرتشریف لے گئے توانہوں نے دعوت کی آپ نے قبول فرمائی اور وہیں قیلولہ فرمایا۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْجِهَادِ،باب فی رکوب البحر فی الغزو) ایک بار ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کی دعوت کی دعوت کھاکر آپ روانہ ہوئے توان کی بی بی نے پردے سے سرنکال کرکہا کہ یارسول اللہ مجھ پراور میرے شوہر پردرود بھیجتے جائیے، آپ نے فرمایا: خدا تم پراور تمہارے شوہر پررحمت نازل فرمائے۔ (مسنداحمد بن حنبل:۳/۳۹۸) بعض صحابیات رضی اللہ عنھن خود کوئی نئی چیز پکاکر آپ کی خدمت میں پیش کرتی تھیں ایک بار حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے آٹا چھانا اور اس کی روٹیاں تیار کرکے آپ کی خدمت میں پیش کیں آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ بولیں ہمارے ملک میں اس کا رواج ہے میں نے چاہا کہ آپ کے لیے بھی اسی قسم کی روٹیاں تیار کروں؛ لیکن آپ نے کمالِ زہد وتقشف سے فرمایا آٹے میں چوکر ملاکر پھرگوندھو۔ (سنن ابنِ ماجہ، کتاب الاطعمہ) محبت رسول صحابیات کے دل آپﷺ کی محبت سے لبریز تھے اور وہ اس کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتی تھیں، حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا ایک صحابیہ تھیں وہ جب آپ کا ذکر کرتیں توفرطِ محبت سے آپ کی واپسی اور سلامتی کے لیے نذریں مانتی تھیں، ایک بار آپ کسی غزوہ سے واپس آئے تو ایک صحابیہؓ نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ میں نذر مانی تھی کہاگر خدا آپﷺ کو صحیح وسالم واپس لائے تو آپﷺ کےسامنے دف بجابجاکر گاؤں۔ (ترمذی،كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) شوقِ صحبتِ رسول صحابیات کے دل میں آپ کی صحبت سے مستفیض ہونے کا نہایت شوق رہتا تھا، حضرت قیلہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئیں توبچوں کوان کے چچا نے لے لیا، اب وہ تمام دنیوی جھگڑوں سے آزاد تھیں اس لیے ایک صحابی کے ساتھ خدمتِ مبارک میں حاضرہوئیں اور آپ کی تعلیمات وتلقینات سے عمر بھرفائدہ اُٹھایا۔ (طبقات ابنِ سعد، تذکرۂ حضرت قیلہ رضی اللہ عنہا)