انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** روایتِ حدیث کے وقت کسی اور طرف توجہ نہ کرے حدیث شریف پڑھتے پڑھاتے سنتے سناتے وقت کسی کی طرف توجہ بھی نہ کرے اور درمیان قرأت حدیث یاسماع حدیث میں کسی کی بات کا جواب نہ دے، حضرت امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے "بَاب مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَمُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ" یعنی اگر کوئی تم سے اس حال میں کوئی مسئلہ دریافت کرے کہ تم حدیث نبویﷺ میں مشغول ہوتوتم پر لازم ہے کہ پہلے حدیث کا اتمام کرو؛ پھراس سائل کا جواب دو؛ یہی ادب حدیث ہے؛ اس لیے کہ اگرتم نے حدیث کودرمیان میں چھوڑا اور دوسرے کی بات کاجواب دیا توتمہارے عمل نے یہ ثابت کیا کہ تم حدیثِ نبوی پر کسی اور کی بات مقدم سمجھ رہے ہو، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ ایک دفعہ ایک مجلس میں حدیث بیان کررہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا قیامت کب آئے گی؟ آنحضرتؐ اپنی پہلی بات میں ہی مصروف رہے، جب آپ اپنی حدیث پوری کرچکے تودریافت فرمایا: سائل کہاں ہے؟ اس اعرابی نے کہا یارسول اللہ میں یہاں ہوں، فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں توقیامت کا انتظار کرو، اس نے پوچھا امانتوں کا ضائع ہونا کیسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: "إِذَاوُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ"۔ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَمُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ،حدیث نمبر:۵۷، شاملہ، موقع الاسلام) جب کام ان لوگوں کے سپرد ہونے لگے جواس کے اہل نہیں توقیامت کا انتظار کرو۔ حضورﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہوا کہ حدیث کونامکمل چھوڑ کر دوسرے کی طرف متوجہ ہونا ادب حدیث کے خلاف ہے، یہ حدیث اس بحث میں بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ حدیث کا ادب خود دربارِ رسالت میں کتنا تھا، حضرت امام مالکؒ کا عمل اس بارے میں کیا تھا، اسے حضرت ابوقتادہؒ سے سنیئے: امام مالکؒ ہمارے سامنے حدیث بیان کررہے تھے توان کوبچھو نے سولہ مرتبہ ڈنک مارا اور امام مالکؒ کارنگ متغیر ہوگیا چہرہ زرد پڑگیا؛ مگرحدیث کودرمیان میں قطع نہیں فرمایا، جب بیان حدیث سے فارغ ہوگئے اور جب سب لوگ روانہ ہوگئے تو میں نے اُن سے عرض کیا اے ابوعبداللہ (امام مالکؒ کی کنیت) میں نے آج آپ کا عجیب حال پایا؟ امام مالکؒ نے فرمایا کہ آج حدیث پڑھاتے وقت بچھو نے سولہ جگہ ڈنک مارا مجھے اس سے تکلیف ہورہی تھی؛ لیکن میں حدیث کے اجلال وتعظیم کی بناء پر صبر کرتا رہا۔ (مدارج النبوۃ:۱/۵۴۲)