انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شمالی سرحدی اندلس کے عیسائیوں کی بغاوت ادھر شمالی سرحد پریہ ہنگامہ برپا تھا ادھر شمال ومشرق کی جانب عیسائیوں نے بغاوت وسرکشی کی تیاریاں بڑے زور وشور سے شروع کردی تھیں؛چنانچہ ۲۳۰ھ میں اہل برشلونہ نے اسلامی حدود میں لوٹ مار شروع کردی اور وہاں کی اسلامی فوج کو قتل کرکے جنوب ومشرق کی جانب پیش قدمی کی ،سلطان عبدالرحمن نے اپنے مشہور سپہ سالار عبدالکریم بن عبدالواحدبن مغیث کو۲۳۱ھ میں برشلونہ کی جانب روانہ کیا ،عبدالکریم نے برشلونہ اوراس کے نواح کے باغیوں کوقرار واقعی سزادےکر ریاست گاتھک مارچ کو تہ وبالا کرڈالامگر پھر اقرار اطاعت لےکریہ ریاست اس کے والی کو سپرد کردی اور فرانس کی حدود میں داخل ہوکر فرانس کے شہر جرندہ تک برابر تاخت وتاراج کرتاچلاگیا ،اسلامی فوج ملک فرانس میں زیادہ دیر تک نہیں رہی بلکہ فرانسیسیوں کو اپنی طاقت وصولت دکھاکر واپس چلی آئی۔ عیسائیوں اور بنو امیہ کے دشمنوں کو اب تک اپنی ہر ایک تدبیر اور ہر ایک سازش میں بظاہر ناکامی ہی حاصل ہوتی رہی تھی اب جب کہ تمام ہنگامہ فروع ہوگئے اور تمام باغی تھک کر بیٹھ رہے توفرانس اور اندلس کی شمالی سرحدی ریاستوں کے عیسائیوں نے مل کر ایک مجلس مشورت منعقد کی اور ایک عرصۂ دراز تک دربار قرطبہ کی سرحدات کی طرف توجہ کرنے سے باز رکھنے کاذمہ جلیقیہ کےپادریوں نےلیاکہ اس عرصہ میں عیسائی طاقتیں متحدہ طور پر فوجی تیاریاں کرسکیں،نئے قلعے بناسکیں،شمالی عاملوں کو اپنے ساتھ ملاسکیں اور حکومت اسلامیہ پر ایک ایسی ضرب لگانے کے لیے تیار ہوجائیں کہ اس کا نام ونشان باقی نہ رہے پھر وہی گاتھک سلطنت کا زمانہ واپس آجائے،اس کوشش کوخالص مذہبی عبادت قراردیاگیا،پادریان جلیقیہ نےایک نہایت پرجوش پادری کو قرطبہ میں اس لیے مامور کیا کہ وہ خاص دارلسلطنت قرطبہ اور دوسرے شہروں میں پادریوں اور عیسائیوں کو دین عیسوی کی خدمت کے لیے قربان ہونے اورجان دینے پر آمادہ کرے،اندلس میں مسلمانوں کی طرف سے عیسائیوں کو ہر قسم کی مذہبی پابندی حاصل تھی،وہ اپنے گرجوں میں گھنٹے بجاتے اور اطمینان سے عبدات بجالاتے تھے ،مذپبی معاملات اورمقدمات کوعام طور پر عیسائی جج فیصلہ کرتے اورگرجوں کے مصارف شاہی خزانے سے عطاہوتے تھے ،مسلمان عیسائیوں کے تہواروں میں شریک ہوتے اور تجارت وزراعت وغیرہ میں دونوں قومیں بلا امتیاز یکساں حقوق رکھتی تھیں ،کوئی ایسی وجہ پیدا ہی نہیں ہوسکتی تھی کہ عیسائیوں میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی جوش پیدا کیاجاسکے ان لوگوں کو مسلمانوں کے اصلی اخلاق کا معائنہ کرنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کیونکہ ان اطراف میں زیادہ تر وہی لوگ سمڈ کر جمع ہوگئے تھے جو گاتھک سلطنت کےارکان اور مسلمانوں کی آمد کو اپنی ذلت کا موجب جانتے تھے یہیں پادریوں کے وعظ وتقریر کے ذریعے مخالفت کے شعلے بلند ہوتے رہتے تھے اور مسلمان بھی اس نواح میں بار بار حملہ آور ہوتے اور قتل وغارت کے ہنگامے برپا کرنے کا موقع پاتے رہتے تھے۔