انوار اسلام |
س کتاب ک |
متفرقات مساجد ،قبرستان اور اوقافی ادارے وغیرہ کے کچھ نئے مسائل مساجد میں سونا اور رہنا آج کل بڑے شہروں میں مساجد کوبعض لوگ مسافر خانے کے طور پراستعمال کرنے لگے ہیں یہ معتکف کے علاوہ کے لیے مکروہ اور مسجد کے احترام کے منافی ہے؛ اس لیے کہ یہ مسجدوں کے مقصود کے خلاف ہے، دوسرے سونے کی صورت میں اکثر اوقات فضول گفتگو کی نوبت آتی ہے جومساجد میں نہیں ہونی چاہیے؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس قسم کی دنیوی گفتگو کے لیے مسجد سے متصل ایک چبوترا بنادیا تھا، جس کا نام بطیحا تھا، تیسرے اس طرح مسجد میں بلاضرورت اور بار بار خروجِ ریح کی نوبت آئیگی اور مسجد میں بالقصد خروجِ ریح کوفقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے، چوتھے اس طرح مساجد میں جنابت کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس کے علاوہ اس سے مسجد کا احترام اور اس کی توقیر دل میں کم ہوجاتی ہے، ہاں! اگردینی ضرورت کی بناء پرسونا پڑے تومضائقہ نہیں؛ جیسا کہ تبلیغی اور دینی اجتماعات اور اسفار میں اس کی نوبت آتی ہے اور اس کی نظیر اعتکاف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض وفود کومسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مہمان بنانا اور ٹھہرانا ہے، تبلیغی مقصد کے تحت مسجد میں رہیں، تب بھی بہتر بات ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے اعتکاف کی نیت کرلی جائے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۰) مسجدوں میں اُجرت لے کرتعلیم دینا آج کل عام طور پرشہروں کی مساجد میں صباحی اور مسائی تعلیم کا نظم ہے؛ بلکہ بعض مدارس میں مسجدوں ہی کوبطورِ درسگاہ استعمال کیا جاتا ہے اور ان تمام صورتوں میں معلمین اجرت لےکر تعلیم دیتے ہیں، ابتداً اجرت لینا نائز سمجھا جاتاتھا؛ اب تعلیم کی مصلحت کے پیشِ نظر اس کی اجازت دی گئی ہے اور اسی پرفتویٰ ہے؛ اسی طرح مساجد میں اُجرت لےکر تعلیم دینے کوفقہاء نادرست قرار دیتے ہیں؛ اس لئے کہ مسجدیں عبادت وتذکیر کی جگہ ہیں نہ کہ کسب معاش کی؛ مگرہمارے زمانے کے حالات کا تقاضا ہے کہ اس کی اجازت دیجائے، اس لئے کہ عموماً مسائل کے فقدان، دوسری جگہ کی عدم دستیابی اور مجبوری کی وجہ سے ہوتا ہے؛ اب اگراس معاملے میں شدت برتی جائے تویہ سخت نقصان کی بات ہوگی اور شرعی مصلحت کے خلاف بھی کہ عصری درسگاہوں کے طلبا جواس طرح صبح وشام تھوڑے وقت میں دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرلیتے ہیں وہ اس سے بھی محروم ہوجائیں اور ایسے جزوقتی یاہمہ وقتی مدارس کا بند ہونا اس علاقہ کے لوگوں کے لیے تعلیم سے محرومی کا سبب بنے گا، بہرحال ان حالات اور ضرورتوں کی بنیاد پرمسجد میں تعلیم دینے کی اجازت دیجائیگی؛ جیسا کہ بعض کتب فقہ سے بھی یہی مستفاد ہے، ہاں! اگرکوئی دوسری جگہ موجود ہوتو وہیں تعلیم دینا چاہیے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۰) مسجد کے نیچے دکانوں کی تعمیر آج کل اکثرمسجدوں کے نیچے دکانات اور ملگیاں تعمیر کردی جاتی ہیں، جن سے حاصل ہونے والے آمدنی سے مسجد کے اخراجات کی تکمیل کی جاتی ہے، فقہی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت جائز ہے، ایسی صورت میں یہ نچلی منزل، مسجد نہیں بلکہ ایک ایسی عمارت کے درجے میں ہوگی جسے مصالح مسجد کے لیے وقف کردیا گیا ہےاور بالائی چھت سے مسجد کا شمار ہوگا۔ مسجد میں دینی اداروں اور کاموں کے لیے اعلان میں کوئی مضائقہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پرجنگی مہمات میں مالی اعانت کے لیے مسجد نبوی میں اعلان فرمایا ہے، کسی کوذاتی اور شخصی ضرورتوں کے لیے اعلان نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں کسی گم شدہ چیز کے لیے اعلان کے متعلق سخت برہمی کا اظہار فرمایا، جس کا تعلق انسان کی شخصی ضرورت سے ہوتا ہے، ایک بار ایک مفلوک الحال صحابی رضی اللہ عنہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعانت کرنا چاہتے تھے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اعلان نہیں فرمایا اور یہ تدبیر اختیار کی کہ برسرِمجمع وہ خود کھڑے ہوکر نماز ادا کریں؛ تاکہ لوگ ان کودیکھیں اور مدد کی طرف متوجہ ہوں؛ یہی حکم کتابوں اور کیلنڈروں کے اعلان کا ہونا چاہیے کہ اگر کسی دینی ادارہ یادارالاشاعت نے ان کوشائع کیا اور ان تک بھی اس کا نفع پہنچتا ہے تومساجد میں ان کا اعلان کیا جاسکتا ہےاور اگرشخصی طور پر کتابیں شائع کی گئیں اور اس کے نفع ونقصان کا تعلق خود اس شخص سے ہے تواب اس کا اعلان درست نہ ہوگا۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۳) مسجد کوحفاظت کی خاطر تالالگانا جائز ہے آج کل کے حالات کے لحاظ سے حفاظت کی خاطر مسجد کوتالا لگادینا جائز ہے۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۴۰) مسجد کی دیوار پراشتہار لگانا مسجد کے دروازوں اور دیواروں پراشتہار چپکانا دووجہ سے نائز ہے ایک یہ کہ مسجد کی دیوار کا استعمال ذاتی مقاصد کے لیے حرام ہے؛ چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ مسجد کے ہمسایہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ مسجد کی دیور پراپنے مکان کا شہتیر یاکڑی رکھے، دوسری وجہ یہ ہے کہ مساجد کی تعظیم اور صفائی کا حکم دیا گیا ہے اور مسجد کی دیوار پراشتہار لگانا اس کی بے ادبی بھی ہے اور اس کوگندا کرنا بھی، کیا کوئی شخص گورنر کے دروازے پراشتہار لگانے کی جرأت کرسکے گا؟ اور کیا اپنے مکان کے درودیوار پرمختلف النوع اشتہار لگائے جانے کوپسند کریگا؟ کیا مسلمانو ں کی نظر میں اللہ کے گھر کی عظمت اپنے گھر کے برابر بھی نہیں رہی؟ افسوس ہے کہ مسجد کے درودیوار پراشتہار لگانے کی وبا عام ہورہی ہے نہ تواشتہار لگانے والوں کوخانۂ خدا کا احترام مانع ہوتا ہے اور نہ علمائے کرام ہی اس پرمتنبہ فرماتے ہیں۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۴۵) مساجد میں کیلنڈر (تقویم) آج کل بعض ایسی تقویمیں شائع کی جاتی ہیں جن میں اوقاتِ نماز، دینی مضامین، احادیث اور آیات کے ٹکڑے درج کیے جاتے ہیں اور اس کی طباعت میں اقتصادی سہولت کے لیے تجارتی اشتہار بھی درج کردیئے جاتے ہیں جن کی مقدار دوسرے مضامین کے مقابلہ میں بہت کم ہوتی ہے؛ ایسے کیلنڈروں کا مسجدوں میں آویزاں کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ ان کیلنڈروں کا اصل مقصود دعوت واشاعتِ دین ہے، اشتہارات کی حیثیت ذیلی ہوتی ہے، اس لیے ان کا اعتبار نہ ہوگا۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۴) مساجد کے لیے غیرمسلموں کا چندہ (۱)غیرمسلموں سے دینی کاموں میں چندہ قبول کرنے سے حتی الوسع احتیاط برتنا چاہیے (۲)اگرکسی مصلحت یاضرورت کی بناء پران کے تعاون سے استفادہ کرنا ہی پڑے توضروری ہے کہ وہ اس کواپنے عقیدہ کے مطابق کارِ ثواب تصور کرتا ہو (۳)یہ اندیشہ نہ ہو کہ آئندہ وہ اپنی عبادت گاہ یامشرکانہ تیوہار ورسوم کے لیے تعاون طلب کریں گے (۴)حکومت کے تعاون کی نوعیت علاحدہ ہے، اس لیے کہ جمہوری ملکوں میں حکومت تنہا کافروں کی نہیں ہوتی؛ بلکہ اس میں مسلمان اور غیرمسلم سب شریک ہوتے ہیں، اس لیے اس کی حیثیت قومی حقوق کی ہے نہ کہ تبرع اور عطا کی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۵) ایک مسجد کا قرآن دوسری مسجد میں شہروں میں آج کل یہ مسئلہ کثرت سے پیش آرہا ہے کہ بعض اہم مساجد میں لوگ بڑی تعداد میں قرآن مجید اور اس کے پارے لاکر رکھتے ہیں جوضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں، جب کہ دوسری مسجدوں بالخصوص گاؤں، دیہات اور قصبات کی مساجد میں ان کی ضروری ہوتی ہے، دین کے مجموعی مزاج اور فقہی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات میں ان مسجدوں سے دوسری ضرورت مند مسجدوں میں پاروں کی منتقلی میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۳) قبرستان کی اراضی میں مساجد وغیرہ کی تعمیر قدیم مسلمان شہروں میں موقوفہ وسیع قبرستان کثرت سے پائے جاتےہیں دوسری طرف مسلمانوں کودینی وملیّ ضرورتوں کے لیے اراضی مطلوب ہوتی ہیں، بعض اوقات خود مساجد کی تعمیر یاتوسیع کی ضرورت ہوتی ہے اور قبرستان کے علاوہ کوئی موزوں جگہ میسر نہیں ہوتی، ایسی صورت میں قبرستان کا ایسا قدیم حصہ جس میں دفن کئے گے مردوں کے مٹی بن جانے کا غالب گمان ہو، علماء وارباب افتاء کے مشورہ سے ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۷) ویران قبرستان پرمساجد یافلاحی مقصد سے عمارت کی تعمیر اگرقبرستان بہت قدیم ہو اور گمانِ غالب ہو کہ دفن ہونے والے اجسام بوسیدہ اور مٹی ہوگئے ہوں گے؛ نیزاگرقبرستان کی حاجت باقی نہ رہی ہوتوایسی صورتوں میں اس پرفلاحی مقاصد کے لیے بلڈنگ یامسجد کی تعمیر وتوسیع جائز ودرست ہے؛ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: وَلَوْبَلَى الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ۔ (فتاویٰ ہندیہ:۱/۱۶۷) ترجمہ: اگرمردہ بوسیدہ ہوجائے اور خاک میں مل جائے تواس قبر میں دوسروں کودفن کرنا درست ہے، اس جگہ کھیتی کرنا اور عمارت تعمیر کرنا جائز ہے۔ اسی سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگرقبرستان زیراستعمال ہو؛ لیکن اسکے تحفظ اور ضروریات کی تکمیل کے لیے قبرستان کے مفادات کے تحفظ کے لے یہ عمل بھی درست ہوگا۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۸) اوقافی جائیداد کی خریدوفروخت فی زمانہ اوقاف کی بہت سی جائیداد نہایت کم نفع آور بن گئی ہیں، کرایہ دار عمارتوں پرقابض ہوتے ہیں اور کرایہ ادا نہیں کرتے ہیں، یانہایت ناواجبی کرایہ دیتے ہیں، راقم الحروف کے علم میں ہے کہ اوقاف کی بعض ایسی عمارتیں، جن کا موجودہ حالات میں اقل ترین کرایہ ہزار دوہزار ہونا چاہیے، محض پچاس ساٹھ روپئے ادا کیا جاتا ہے، قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایسی عمارتوں کی بازیابی اور کرایہ داروں کا تخلیہ اکثر اوقات جوئے شیر لانے سے کم مشکل نہیں ہوتا؛ البتہ بعض اوقات یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ اسی کرایہ دار یاکسی اور صاحب رسوخ آدمی سے عمارت فروخت کردی جائے، اس طرح ایک خطیر رقم حاصل ہوجاتی ہے، جس سے آمدنی کے دوسرے وسائل پیدا کئے جاسکتے ہیں؛ راقم الحروف کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں وقف کے مفادات کی حفاظت اس کی افادیت میں اضافہ اور دینی مصالح کے تحت اس طرح کا عمل کرنا جائز ہے اور جوجائیداد کسی وجہ سے اپنا نفع کھوچکی ہو، اس کوتبدیل کرکے اس کی آمدنی سے دوسرے نفع آور ذرائع کے حصول میں کوئی قباحت نہیں کہ یہ واقف کے منشا کی تکمیل اور وقف کے مقاصد میں تعاون ہے، فقہاء نے بنیادی طور پروقف کے احکام میں اسی کوملحوظ رکھا ہے کہ اس کوزیادہ سے زیادہ نافع اور مفید بنایا جائے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۵۸)