انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
احتیاط الظہر کی حقیقت كيا ہے؟ احتیاط کا مطلب یہ ہے کہ اداء عبادت میں شبہ فساد سے احتراز کیا جائے، اس کی اصل حدیث سے ثابت ہے: فَمَن اتَّقى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرأ لِدِينِهِ وعِرْضِهِ وَقَالَ لِسَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالَی عَنْہَا إِحْتَجَبِیْ مِنْ ابْنِ زَمْعَۃَ لِمَارَاٰیْ مِنْ شُبْہِہِ بِعُتْبَۃَ بِنْ أَبِیْ وَقَاصِ۔ بوقتِ شبہ فساد تکرار عبادت کی نظائر فقہ میں موجود ہیں: کَالْجَمْعِ بَیْنَ الْوُضُوْءِ وَالتَّیَمُّمِ عِنْدَ وُجُوْدِ الْمَاءِ الْمَشْکُوْکِ وَالْبِنَاءِ عَلَی الْأقُلْ عِنْدَ الشَّکِّ فِیْ تَعْدَادِ الرَّکَعْاتِ مَعْ أَنَّ فِیْہِ إِحْتِمَالَ تَکْرَارِ الرَّکْعَۃِ وَالْجَہْرِ فِیْ الثَّالِثَۃِ وَمِنْہُ مَاصَرْحُوْا بِہِ مِنْ نُدْبِ إِعَادَۃَ الصَّلوٰۃِ عِنْدَ تَوَھَّمُ الْفَسَادِ۔ پس احتیاط الظہر کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں صحتِ جمعہ میں کسی وجہ سے شبہ ہو وہاں نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً ظہر کی نماز بھی ادا کرلی جائے؛ تاکہ اداء فرض کا یقین ہوجائے اور شبہ فساد باقی نہ رہے، صحتِ جمعہ میں شبہہ کی مندرجہ ذیل وجوہ بیان کی گئی ہیں: (۱)کچھ غیر معروف لوگوں کا کہنا ہےکہ عند الحنفیہ صحتِ جمعہ کے لیے وجودِ سلطان شرط ہے، اس لیے وہ جہاں سلطان نہ ہو وہاں احتیاط الظہر کا حکم دیتے ہیں، ان کا یہ خیال صحیح نہیں؛ اس لیے کہ وجودِ سلطان کی شرط صرف رفع نزاع کے لیے ہے اور جماعتِ مسلمین کی طرف سے امامِ جمعہ کی تعیین اس مقصد کی تحصیل کے لیے کافی ہے؛ نیز اگروجودِ سلطان کوصحتِ جمعہ کی شرط قرار دیا جائے تواس کے عدم سے عدمِ صحت متیقن ہوگی؛ اس صورت میں اداء جمعہ اور پھراحتیاط الظہر کا کیا مطلب؟ صرف اداءِ ظہر ہی کا فتویٰ دینا چاہیے۔ (۲)مذہبِ حنفی میں ایک روایت مرجوحہ یہ ہے کہ ایک شہر میں متعدد مقامات پرنمازِ جمعہ صحیح نہیں، جونماز یقیناً سب سے پہلے ہوئی صرف وہی صحیح ہوگی، بعد میں ہونے والی اور بیک وقت دوجگہ ہونے والی اور تقدم وتأخر میں اشتباہ کی حالت میں پڑھی ہوئی نماز میں صحیح نہیں، بحروشامیہ وغیرہ میں قنیہ سے منقول ہے کہ اس روایتِ مرجوحہ کی بناپراہلِ مرونے احتیاط الظہر کی ابتدا کی۔ فقہاءِ احناف کا اس میں اختلاف ہے، بعض نے اہلِ مرو کی تائید میں احتیاط الظہر کا قول کیا اور بعض ترکِ ظہر میں احتیاط کے قائل ہیں؛ مگریہ اختلاف مفسدہ عارضہ سے قطع نظر پرمبنی ہے، فسادِ عقیدہ کی صورت میں احتیاط الظہر کے ترک پرسب متفق ہیں: قَالَ إِبْنِ نُجَیْمٍ رَحْمَہُ اللہُ تَعَالَی أَفْتَيْت مِرَارًا بِعَدَمِ صَلَاتِهَا خَوْفًا عَلَى اعْتِقَادِ الْجَهَلَةِ بِأَنَّهَا الْفَرْضُ، وَأَنَّ الْجُمُعَةَ لَيْسَتْ بِفَرْضٍ۔ (البحرالرائق:۲/۱۲۹) بندہ کے خیال میں فساد عقیدہ سے قطع نظر بھی اس صورت میں احتیاط الظہر کا قول غیرمعقول ہے؛ کیونکہ تعداد جمعہ کی وجہ سے شبۂ فساد سے بچنے کی معقول صورت یہ ہے کہ ایک شہر میں ایک ہی مقام پراداء جمعہ کا اہتمام کیا جائے، یہ عجیب احتیاط ہے کہ جمعہ جیسے اہم شعارِ اسلام کوازالۂ شبہ پرقدرت کے باوجود مشتبہ ہی چھوڑ دیا جائے، اور اس کا تدارک ظہر سے کیا جائے؛ اگرعلماءِ احناف کی نظر میں شبہ کی یہ وجہ قابل التفات ہے تواس کا تدارک احتیاط الظہر کی بجاے اتحادِ جمعہ سے کریں۔ (۳)جس مقام کی مصریت مشتبہ ہو اس میں احتیاط الظہر کا حکم محیط وکافی سے منقول ہے: وَنَقَلَ الْمَقْدِسِيَّ عَنْ الْمُحِيطِ: كُلُّ مَوْضِعٍ وَقَعَ الشَّكُّ فِي كَوْنِهِ مِصْرًا يَنْبَغِي لَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا بَعْدَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا بِنِيَّةِ الظُّهْرِ احْتِيَاطًا حَتَّى إنَّهُ لَوْلَمْ تَقَعْ الْجُمُعَةُ مَوْقِعَهَا يَخْرُجُونَ عَنْ عُهْدَةِ فَرْضِ الْوَقْتِ بِأَدَاءِ الظُّهْرِ، وَمِثْلُهُ فِي الْكَافِي ۔ (ردالمحتار:۱/۷۵۶) خلاصہ کلام: صرف ایسے موضع میں جس کے مصر ہونے میں تردد ہو صرف خواص کومخفی طور پراحتیاط الظہر پڑھنے کی اجازت ہے، عوام کوبہرِخال منع کرنا لازم ہے، یہ حکم اس صورت میں ہے کہ ایسے مقام میں جمعہ قائم ہوچکا ہو؛ اگرقائم نہیں ہوا توجاری کرنا جائز نہیں لِعَدْمِ تَیَقُّنَ شَرْطِ الصِّحَّۃِ، فتاویٰ رشیدیہ میں ایک عالم عبدالوہاب کی تحریر درج ہے کہ احتیاط الظہر کی بدعت ایک عباسی معتزلی بادشاہ نے جاری کی تھی، اس ظالم نے حکم دیا تھا کہ جواحتیاط الظہر نہ پڑھے اس کوتعزیر لگائی جائے۔ (احسن الفتاویٰ:۴/۱۳۹، زکریا بکڈپو، دیوبند)