انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حجۃ الوداع(ذیقعدہ۱۰ہجری) ذیقعدہ ۱۰ ہجری میں آنحضرت ﷺ نے خود حج کا ارادہ فرمایا، یہ خبر تیزی کے ساتھ ہر طرف پھیل گئی اور شمع نبوت کے پروانے دور دور کے علاقوں سے آکر حضور ﷺ کے ساتھ جانے کے لئے جمع ہوگئے ، تاریخ نے اس یاد گار حج کو چار ناموں سے موسوم کیا ہے ، حجۃ البلاغ ، حجۃ الاسلام ، حجۃ الوداع، اور حجۃ الاتمام و الکمال ، اسے حجتہ الوداع کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ حضور ﷺنے صاف صاف فرمایادیا تھا: " مجھ سے مناسک حج سیکھ لو ، میں آئندہ سال شاید حج نہ کرسکوں ، دوسری وجہ یہ ہے کہ آپﷺ لوگوں سے رخصت ہوگئے یا انہیں رخصت کر دیا ، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے کوئی حج نہیں کیا اور (۹۱) دن بعد سفر آخرت فرمایا، حجتہ البلاغ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس خطاب میں قولاً اور مناسک میں فعلاً شریعت عوام الناس تک پہنچا دی گئی اور انھوں نے بہ یک زبان اس کی شہادت دی، اس حج کو حجتہ الاسلام اس لئے کہا گیا کہ اسلام کے تمام دائمی قوانین کی تشریح فرما دی، حج فرض ہونے کے بعد یہ آپﷺ کا پہلا اور آخری حج تھا ، حجتہ الاتمام والکمال اس لئے کہا گیا کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے تکمیل دین کی آیت نازل فرمائی، حضرت عبدا للہؓ بن عباس اسے حجتہ الوداع کی بہ نسبت حجتہ الاسلام کہنا زیادہ پسند کرتے تھے، آپﷺ کے ارادۂ حج کی اطلاع پر بے شمار لوگ مدینہ میں جمع ہوگئے ، بعض مقامات پر چیچک کی وباء نے لوگوں کو شرکت سے محروم رکھا، کچھ قبائل کے لوگ راستہ میں شامل ہوگئے اور یمن کے لوگوں نے مکہ آکر شمولیت اختیار کرلی، حجتہ الوداع میں شرکاء کی تعداد کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں یعنی (۹۰) ہزار ‘ ایک لاکھ چودہ ہزار اور ایک لاکھ چوبیس ہزار، زرقانی نے ایک لاکھ تیس ہزار لکھی ہے؛ لیکن عام طور پر ایک لاکھ چودہ ہزار کہا جاتا ہے ،