انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت وضاح بن عبداللہ الواسطیؒ نام ونسب وضاح نام، ابو عوانہ کنیت تھی، والد کا نام عبداللہ تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۳) وطن اورپیدائش ان کا اصل وطن واسطہ تھا،پھر قبۃ الاسلام بصرہ منتقل ہوگئے تھے،جس کی خاک سے صلحاء اوراخیارِ امت کی پوری ایک نسل آسمانِ شہرت پر نیرِ تاباں بن کر ضوفشاں ہوئی،ابو عوانہ واسطہ کے مردم خیز خطہ میں پہلی صدی کے اواخر یا دوسری صدی کے اوائل میں پیدا ہوئے،ابن حبان نے کتاب الثقات میں ابو عوانہ کا سنہ ولادت ۱۲۲ ھ قرار دیا ہے،لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ ابو عوانہ نے بالاتفاق ابن سیرین کے دیدار کا شرف حاصل کیا تھا، جن کی وفات ۱۱۰ھ میں ہوئی،علامہ ابن کثیر کے بیان کی روشنی میں،ابو عوانہ کم وبیش ۹۵ھ میں عالم وجود میں آئے؛چنانچہ ۱۷۶ھ کے واقعات میں رقمطراز ہیں: الوضاح بن عبداللہ قوفی فی ھذہ السنۃ وقد جاوز الثمانین (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۷۱) وضاح بن عبداللہ کا اسی سال انتقال ہوا،ان کی عمر۸۰ سے متجاوز ہوچکی تھی۔ غلامی ابو عوانہ کو جرجان کی کسی جنگ میں گرفتار ہوکر قیدِ غلامی کی زندگی بھی گذارنی پڑی، عطا بن یزید نے ان کو اپنے بیٹے یزید کے ساتھ رکھنے کے لیے خرید لیا تھا، عطا کی وفات کے بعد ایک عرصہ تک یزید بن عطا،الیشکری الواسطی کے غلام رہے (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۱)اسی نسبت ولاء کی بنا پر ابو عوانہ بھی یشکری اورواسطی کی نسبتوں سے مشہور ہیں۔ آزادی کا دلچسپ واقعہ قید غلامی سے ان کی رہائی کا واقعہ بہت دلچسپ ہے جس کے سرسری مطالعہ ہی سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس سلسلہ میں دفعۃً جو کچھ پیش آیا،یہ سب منجانب اللہ تھا۔ ابن عائشہ کا بیان ہے کہ ابو عوانہ واسطہ کے یزید بن عطا نامی ایک شخص کے غلام تھے،ان کے مالک نے پارچہ فروشی کا کام ان کے سپرد کیا تھا، ایک دن ان کے پاس ایک سائل آیا اوردستِ سوال دراز کیا،ابو عوانہ نے اس کو دو یا تین درہم مرحمت فرمائے ،سائل نے اظہارِ تشکر کے بعد کہا "اے ابو عوانہ بخدا میں تمہیں ضرور کوئی فائدہ پہنچاؤں گا، ؛چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد عرفہ کے دن وہی سائل مجمع عام میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرنے لگا کہ اے لوگو! یزید بن عطا کے لئے دُعائے خیر کرو؛ کیونکہ اس نے آج ابو عوانہ کو آزاد کرکے تقرب الہیٰ حاصل کرلیا ہے۔ جب لوگ حج کی ادائیگی کے بعد واپس آئے اوریزید بن عطا کی فرودگاہ کے پاس سے گزرنے لگے تو جوق درجوق آکر انہیں ابو عوانہ کی آزادی پر ہدیہ تشکر وتبریک پیش کرنے لگے، ابن عطاء حیران کہ یہ کیا قصہ ہے،پھر جب مبارکباد کا یہ سلسلہ بہت بڑھا تو یزید بن عطاء نے کہا: من یقدر علیٰ ردّ ھٰؤلاءِ وھو حرّ لوجہ اللہ (المعارف لابن قتیبہ:۲۲۰) اتنے لوگوں کی بات رد کرنیکی کس میں مجال ہے وہ (ابو عوانہ) خدا کے لیے آزاد ہے۔ اس واقعہ کے آغاز میں محققین کا بہت معمولی سا اختلاف ہے،یعنی بعض لے یومِ عرفہ کو مزدلفہ میں ابو عوانہ کی آزادی کا ڈرامائی اعلان کرنے والا ایک سائل کو بتایا ہے اوربعض نے ابو عوانہ کے ایک مخلص دوست کو جس نے مکافات حسن سلوک کے طور پر اپنے محسن کی آزادی کے لیے یہ کار گر اورمؤثر تدبیر اختیار کی،لیکن اس کے علاوہ پورے واقعہ اوراس کے نتیجہ پر سب کا اتفاق ہے،سائل والی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ امیت ابو عوانہ لکھنے پڑھنے سے قطعی ناواقف تھے،یحیی بن معین کہتے ہیں کہ وہ لکھنے پڑھنے میں ایک شخص سے مدد حاصل کرتے تھے۔ کان ابو عوانۃ امیَّا یستعین بالنسان یکتب لہ وکان یقرأ الحدیث (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۱،الاعلام :۳/۱۳۵) ابو عوانہ امی تھے وہ ایک شخص سے مدد لیتے تھے،جو ان کے لیے لکھتا تھا اوروہ (ابو عوانہ) حدیث پڑھتے تھے۔ لیکن ان کے شاگرد رشید عفان بن مسلم کا بیان ہے کہ ابو عوانہ پڑھنا جانتے تھے مگر لکھنے سے ناواقف تھے، اس لیے ہمیں حدیثیں املاء کرایا کرتے تھے۔ (طبقات ابن سعد:۶/۴۳) فضل وکمال اپنی امیت کے باوجود ابو عوانہ کا شمار وقت کے ممتاز حفاظِ حدیث اورائمہ اعلام میں کیا جاتا ہے،وہ علمی اعتبار سے زمرۂ اتباع تابعین میں بلند مقام رکھتے تھے،علامہ یافعی "احد الحفاظ الاعلام" خیر الدین زرکلی "من حفاظ الحدیث الثقات" اورحافظ ذہبی "الحافظ احد الثقات"کے الفاظ سے ان کے علم وفضل کو سراہتے ہیں (مراۃ الجنان:۱/۳۶۹ والاعلام:۳/۱۱۳۵،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۳۱۳)ابو حاتم کا بیان ہے کہ ابو عوانہ حماد بن سلمہ سے بھی بڑے حافظ حدیث تھے (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۱۸) یحییٰ بن معین سے دریافت کیا گیا کہ اہل بصرہ میں زائدہ کا ہم پایہ کون تھا ؟فرمایا ابو عوانہ! (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:۱/۳۱۴) حدیث حدیث میں انہوں نے بکثرت ائمہ وشیوخ سے کمال حاصل کیا،جن میں معاویہ بن قرہ،اشعث بن ابی الشعثاء زیادہ بن علاقہ،سلیمان الاعمش ،منصور بن المعتمر، مغیرہ ،منصور بن زازان ،یعلی بن عطاء،ابی اسحاق الشیبانی،عبدالعزیز بن صہیب ،طارق بن عبدالرحمن،زید بن جبیر،سعید بن مسروق،سماک بن حرب، سہیل بن ابی صالح، عمرو بن دینار، فراس بن یحییٰ،ابن المنکدر،قتادہ،بیان بن بشر اوراسماعیل السدی کے نام لائق ذکر ہیں۔ خود ان کے حلقہ درس سے جو کا ملین فن فارغ ہوکر نکلے ان کی تعداد بھی بہت ہے جن میں نمایاں نام یہ ملتے ہیں ،شعبہ،اسماعیل بن علیہ،فضل بن مسادر، عبدالرحمن بن مہدی،ابوہشام المخزومی، یحییٰ بن حماد، سعید بن منصور،مسدد،قتیبہ بن سعید،یحییٰ بن یحیی النیساپوری،محمد بن محبوب،ہشیم بن سہل التستری ،ابوداؤد ،وکیع،ابونعیم ،ابوالولید ،خالد بن خداش وغیرہم۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۰وتہذیب التہذیب:۱۱/۱۱۷) جرح وتعدیل امی ہونے کی بنا پر ابو عوانہ علمائے جرح وتعدیل کا خصوصی نشانہ بنے، ان کی ثقاہت وعدالت کے بارے میں بڑی متضاد رائیں ملتی ہیں،لیکن اکثر علماء کا خیال یہ ہے کہ جو احادیث انہوں نے املا کرا کے بین الدفتین محفوظ کرا دی ہیں ان میں ابو عوانہ کا پایۂ ثقاہت وعدالت نہایت بلند ہے،لیکن چونکہ ان کے حافظہ پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا ،اس لیے کتاب کے علاوہ جو روایتیں وہ بیان کریں وہ غیر مقبول قرار دی جائیں گی۔ ابو زرعہ کہتے ہیں: ثقۃ اذا احدث من کتابہ جب وہ کتاب سے روایت کریں تو ثقہ ہیں ابو حاتم کا بیان ہے: کتبہ صحیحۃ واذا حدث من حفظہ غلط کثیرا وھو صدوق ثقۃ (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۰،وتہذیب التہذیب:۱۱/۱۱۸) ان کی کتابیں صحیح ہیں اور جب وہ حافظہ سے روایت کریں تو بہت غلط ہوتا ہے اور وہ صدوق وثقہ تھے۔ امام احمدؒ کا قول ہے: اذا حدث ابو عوانۃ من کتابہ فھو اثبت واذا حدث من غیر کتابہ ربما وھم جب ابو عوانہ اپنی کتاب سے روایت کریں تو وہ ثقہ ترین ہیں اورجب کتاب کے علاوہ روایت کریں تو اکثر وہم ہو جاتا ہے۔ عفان جنہیں ابو عوانہ سے خصوصی تلمذ حاصل تھا کہتے ہیں کہ ابو عوانہ حدیث کو اتنی شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتے تھے،کہ ہمارے نزدیک وہ ہشام بن عروہ کی احادیث سے زیادہ صحیح ہوتی تھیں؛کیونکہ وہ احادیث کو بہت مختصر کردیتے تھے (تاریخ بغداد:۱۳/۴۶۳) ابن عبدالبر کا یہ بیان ابو عوانہ کی ثقاہت کے سلسلہ میں سب سے زیادہ واضح ہے کہ: اجمعوا علیٰ انہ ثقۃ ثبت فیما حدث من کتابہ واذاحدث من حفظہ ربما غلط (تہذیب التہذیب:۱۱/۱۲۰) جب ابو عوانہ کتاب سے روایت کریں تو بالاتفاق وہ ثقہ ترین ہیں اورجب حافظہ سے روایت بیان کریں تو اکثر غلط ہوتا ہے۔ وفات ماہ ربیع الاول ۱۷۶ھ میں بمقام بصرہ ابو عوانہ کا انتقال ہوا (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۶۹)ابن قتیبہ نے سنِ وفات ۱۷۰ ھ بیان کیا ہے (المعارف لابن قیتبہ:۲۲۰) وفات کے وقت ۸۰ سال سے زائد عمر ہوچکی تھی۔ (البدایہ والنہایہ لا کثیر:۱۰/۱۱۷۱)