انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بچھونےاور بستر ریشم کے بستر: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ۔ (الرحمن:۵۴) ترجمہ: (اور) وہ لوگ (جنگ میں) تکیہ لگائے ایسے فرشوں (بچھونے اور بستروں) پربیٹھے ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے (اور قاعدہ ہے کہ اوپر کا کپڑا بہ نسبت استر کے زیادہ نفیس ہوتا ہے؛ پس جب استر استبرق (موٹے ریشم) کا ہوگا تواوپر کا کیسا کچھ ہوگا)۔ فائدہ: آیت سے معلوم ہوا کہ جنت کے بچھونے کی شکل یہ ہوگی کہ اس کا نچلا حصہ موٹے ریشم کا ہوگا اور اوپر کا حصہ اس سے زیادہ نفیس اور زینت میں زیادہ بڑھ کرہوگا۔ (حادی الارواح:۲۶۹۔ حاکم:۲/۴۷۵) بچھونوں کی بلندی اور درمیان کے فاصلے: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ (الواقعۃ:۳۴) (ترجمہ:اور بلند وبالا بچھونے ہوں گے) کی تفسیر میں ارشاد فرمایا: ارْتِفَاعُهَا كَمَابَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَمَسِيرَةُ مَابَيْنَهُمَا خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ۔ (ترمذی، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْوَاقِعَةِ،حدیث نمبر:۳۲۱۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ان بچھونوں کی بلندی آسمان وزمین کے درمیانی فاصلہ جتنی ہوگی اور ان میں کے دوبچھونوں کے درمیان کا فاصلہ پانچ سوسال کے برابر ہوگا۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان حدیث میں رشدین بن سعد راوی ہے جومنکر کی روایت کرتا ہے اگریہ روایت معتبر ہوتواس کا معنی یہ ہوگا کہ جنتیوں کے درجات اتنے بلند ہوں گے اور بچھونے ان کے اوپر ہوں گے اور اگریہ روایت معتبر نہ ہوتوحضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول یہ دوسری روایت زیادہ محفوظ ہوگی جس میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہردوبچھونوں کے درمیان آسمان وزمین کے فاصلہ کے برابر فاصلے ہوں گے۔ (حادی الارواح:۲۶۹۔ مسنداحمد:۳/۷۵) یایہ کہ یہ بچھونے جنت کے درجات میں ہوں گے اور درجہ کے درمیان آسمان وزمین کے برابر کا فاصلہ ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۱۰۰۔ البدورالسافرہ:۱۹۷۱۔ بحوالہ ترمذی شریف:۲۵۴۰) میرے ناقص خیال میں مذکورہ حدیث کا یہ آخری مطلب زیادہ صحیح ہے (امداداللہ)۔ بچھونے کا اوپر کا حصہ نور جامد کا ہوگا: حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کا ظاہری (اوپروالا) حصہ نور جامد کا ہوگا۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۵۶) موٹے اور باریک رشیم کے درمیان فاصلہ کی مقدار: وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ کی تفسیر میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اس بچھونے کے اوپر والا حصہ گرایا جائے تواس کے نچلے حصہ تک چالیس سال تک نہ پہنچے۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۵۸۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۳۱، بحوالہ طبرانی مرفوعاً) بچھونے کتنے موٹے ہوں گے: حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچھونوں کی اونچائی چالیس سال کے سفر کے برابر ہے۔ (نہایہ ابن کثیر:۲/۴۴۹) تختِ شاہانہ: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ (الطور:۲۰) ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَo وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَo عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍo مُتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَابِلِينَ (الوقاعۃ:۱۳،۱۴،۱۵،۱۶) فِيهَا سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ۔ (الغاشیۃ:۱۳) ترجمہ: (جنت میں بیٹھتے ہوں گے) تکیہ لگائے ہوئے تختوں پرجوبرابر بچھائے ہوئے ہیں اور ہم ان کا گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والوں سے (یعنی حوروں سے) بیاہ کردیں گے۔ ترجمہ: (ان مقربین) کا ایک بڑا گروہ تواگلے لوگوں میں سے ہوگا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے ہوں گے (اگلوں سے مراد متقدمین ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تک اور پچھلوں سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لیکر قیامت تک(کذا فی الدرالمنثور عن جابر مرفوعا)) اور متقدمین میں کثرت سابقین اور متاخرین میں قلت (سابقین کی وجہ یہ ہے کہ خواص ہرزمانہ میں کم ہوتے ہیں اور متقدمین کا زمانہ بہ نسبت زمانہ امت محمدیہ کے کہ قرب قیامت میں پیدا ہوئے زیادہ طویل ہے؛ پس جس قدر خواص اس طویل زمانہ میں ہوئے ہیں جن میں لاکھ یادولاکھ یاکم وبیش انبیاء بھی ہیں بتقضاء عادت زمانہ قلیل میں ان سے کم ہی ہوں گے)۔ ترجمہ:جنت میں اونچے اونچے درخت ہیں ۔ لمبائی اور خوبصورتی: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ تخت سونے کے ہوں گے جن کے تاج زبرجد، جوہر اور یاقوت کے ہوں گاور ایک تخت مکہ اور ایلہ جتنا طویل ہوگا۔ (حادی الارواح:۲۷۸) اونچائی: حضرت کلبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ تخت کی اونچائی اوپر کی طرف سوسال کے سفر کے برابر ہوگی، جب آدمی اس پر بیٹھنے کا ارادہ کریگا تووہ (فوراً) اس کے لیے جھک جائیگا؛ حتی کہ وہ اس پربیٹھ جائے گا پھرجب وہ اس پربیٹھ جائے گا تووہ پھراپنی جگہ تک بلند ہوجائے گا۔ (حادی الارواح:۲۷۸) یہ تخت کن چیزوں سے بنائے گئے ہیں: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا دوست جنت میں تخت پرتشریف فرماہوگا جس کی بلندی پانچ سوسال کی ہوگی؛ اسی کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ اور تخت ہوں گے بلند، فرمایا کہ یہ تخت سرخ یاقوت کا ہوگا جس کے سبز زمرد کے دوپرہوں گے پھراس تخت پرستر بچھونے ہوں گے جن کا استرنور کا ہوگا اور اوپر کا حصہ باریک ریشم کا ہوگا اور اندر کا موٹے ریشم کا ہوگا؛ اگر اس تخت کے اوپر کے حصہ کوگرایا جائے تواپنے نچلے حصہ تک چالیس سال کی مدت میں پہنچے۔ (بستان الواعظین وریاض السامعین:۱۴۳،۱۴۴) تختوں کی زیب وزینت (مسہریاں): اللہ ارشاد فرماتے ہیں: مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ (الدھر، الإنسان:۱۳) (وہ جنت میں مسہریوں پر ٹیک لگائے ہوں گے) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ أَرَائِكِ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ أَرَائِكِ (مسہری) اس وقت تک نہیں بنتی جب تک کہ پلنگ پرپردہ نہ پڑا ہوا ہو جب پلنگ اور اوپرکا پردہ دونوں جمع ہوں تو أَرَائِكِ کہلاتا ہے۔ (بدورالسافرہ:۱۹۷۶) چالیس سال تک تکیہ کی ٹیک: حدیث:حضرت ہیثم بن مالک طائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ الرجل ليتكيء المتكأ مقدار أربعين سنة مَايتحول عنه ولايمله، يأتيه مَااشتهت نفسه ولذت عينه۔ ترجمہ:آدمی چالیس سال کی مقدار تک تکیہ کی ٹیک لگائے گا نہ وہاں سے ہٹے گا اور طبیعت اکتائے گی، اس کے پاس جواس کا جی چاہے گا اور آنکھوں کولذت ہوگی پیش ہوتا رہے گا۔ سترسال تک تکیہ کی ٹیک: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَّكِئُ فِي الْجَنَّةِ سَبْعِينَ سَنَةً قَبْلَ أَنْ يَتَحَوَّلَ۔ (مسنداحمد بن حنبل، مسند أبي سعيد الخدري رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۱۷۳۳، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:آدمی جنت میں پہلو بدلے بغیر سترسال تک ٹیک لگاسکے گا (اور اس سے زائد بھی اور کم بھی)۔ حضرت سلیمان بن مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ثابت رحمۃ اللہ علیہ سک نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جنتی آدمی جنت میں سترسال تک ٹیک لگائے بیٹھے گا، آس پاس اس کی بیویاں اور خدمت گذار ہوں گے اور جوکچھ اللہ تعالیٰ اس کوشان وشوکت اور نعمتیں عطاء فرمائیں گے وہ بھی ہوں گی؛ پھروہ نظر اُٹھاکر جودیکھے گاتواس کواس کی کچھ اور بیویاں نظر آئیں گی جن کواس نے اس سے پہلے نہیں دیکھا ہوگا وہ کہیں گی اب وہ وقت آگیا ہے کہ آپ اپنی طرف سے ہمارا نصیب عطاء فرمائیں۔ (جولات فی ریاض الجنات:۸۳۔ بحوالہ تفسیر ابن کثیر:۴/۲۴۱) مسہریاں کس چیز سے بنی ہوں گی: ارشادِ باری تعالیٰ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (المطففین:۳۵) کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مسہریاں لؤلؤ اور یاقوت سے بنی ہوں گی۔ (البعث والنشور:۳۴۱۔ تفسیرابن جریر طبری:۱۹/۶۶) نیک عورت نے جنت کا تخت دنیا میں دیکھا: حضرت ابوحامد حلاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ بڑی نیک تھیں، ایک دن ہم بہت محتاجی کی حالت میں تھے مجھے سے کہا: اے بیٹے! ہم کب تک اس تکلیف میں رہیں گے؟ جب سحر کا وقت ہوا تومیں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگرہمارے واسطے آخرت میں کچھ ہے تواس میں سے ہمیں دنیا میں کچھ عطا فرمادے، اس وقت گھر کے ایک گوشہ میں مجھے ایک نور دکھائی دیا، میں اس کے پاس گیا تودیکھا کہ ایک تخت کے سونے کے پائے ہیں اور وہ جواہر سے مرصع کئے گئے ہیں، میں نے والدہ سے کہا کہ یہ لو اور کچھ جواہر بیچنے کے ارادہ سے بازار میں گیا اور جی میں کہتا تھا کہ ان میں سے کچھ جواہر جوہریوں کے ہاتھ فروخت کرونگا لیکن اس کا کیا طریقہ ہوگا، جب میں مسجد سے لوٹ کرآیا تومجھ سے میری ماں نے کہا: اے بیٹے! تومجھے معاف کردے: کیونکہ جب توگھر سے نکلا تومیں سوگئی میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوئی وہاں میں نے ایک محل دیکھا جس کے دروازہ پر لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ لکھا ہوا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ یہ مکان ابواحمد حلاس کا ہے، میں نے کہا: میرے بیٹے کا؟ توایک شخص نے کہا: ہاں! میں اس مکان میں جاکر اس کے کمروں میں گشت کرتی رہی میں نے ایک کمرے میں بہت سے تخت بچھے ہوئے دیکھے، ان کے درمیان میں ایک تخت ٹوٹا ہوا تھا میں نے کہا: ان تختوں کے بیچ میں یہ ٹوٹا ہوا تخت کس قدر بے موقع ہے، ایک شخص نے مجھ سے کہا: کہ اس کے پائے تم نے لے لیے ہیں، میں نے کہا اسے اپنی جگہ پہنچادو، جب میں جاگی تووہ غائب ہوگئے تھے، اللہ کا شکر ہے۔ (روض الریاحین) گدے اور قالین: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍo فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِo تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۔ (الرحمن:۷۷،۷۸،۷۶) ترجمہ:وہ(جنتی حضرات) سبزرفرف اور عجیب وغریب قسم کے خوبصورت فرش پرتکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے، تواے جن انس (باوجود اس کثرت وعظمت نعمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے، بڑا بابرکت نام ہے آپ کے رب کا جوعظمت والا اور احسان والا ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتے ہیں: فِيهَا سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌo وَأَكْوَابٌ مَوْضُوعَةٌo وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌo وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ۔ (الغاشیۃ:۱۳،۱۴،۱۵،۱۶) ترجمہ:اس (بہشت) میں اونچے اونچے تخت (بچھے) ہیں اور رکھے ہوئے آبخورے (موجود) ہیں (یعنی یہ سامان جنتی کے سامنے ہی موجود ہوگا تاکہ جب پینے کوجی چاہے دیرنہ لگے) اور برابر لگے ہوئے گدلے (تکیے) ہیں اور سب طرف قالین (ہی قالین) پھیلے پڑے ہیں (کہ جہاں چاہیں آرام کریں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی نہ پڑے)۔ (تفسیربیان القرآن تھانوی رحمۃ اللہ علیہ)