انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وفات اوپرذکر ہوچکا ہے کہ بنواُمیہ آپ کے طرزِ عمل سے سخت ناراض تھے؛ کیونکہ ان کی جاگیریں جائدادیں اور تمام اموال جودوسروں کے حقوق مغصوبہ تھے چھن گئے تھے اور کوئی ناجائز فائدہ حکومتِ وقت سے نہیں اُٹھاسکتے تھے، آخر وہ دیرتک اپنے ان نقاصانات کوبرداشت نہ کرسکے اور انھوں نے آپ کے قتل کرنے کی سازش کی، آپ کوقتل کرنا کوئی دشوار کام بھی نہ تھا؛ کیونکہ اپنی ذاتی حفاظت کے لیے نہ آپ نے کوئی چوکی پہرہ قائم رکھا تھا، کھانے پینے میں کسی قسم کی احتیاط کرتے تھے، آپ کے قتل کرنے کا سب سے آسان ذریعہ جوبنواُمیہ نے سوچا وہ یہ تھا کہ آپ کوزہر دیا جائے؛ چنانچہ انھوں نے آپ کے غلام کولالچ دے کراپنا شریک بنایا اور اس کے ذریعہ آپ کوزہر دلوایا، جب آپ کوزہر دیا گیا توآپ کواس کا علم ہوگیا، جب آپ کی تکلیف واذیت نے ترقی اختیار کی تولوگوں نے کہا کہ آپ دواکیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا کہ جس وقت مجھے زہر دیا گیا اس وقت اگرکوئی مجھ سے یہ کہتا کہ تم اپنے کان کی لوکوہاتھ لگانے سے اچھے ہوسکتے ہو تومیں اپنے کان کی لوکوہاتھ نہ لگاتا۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ لوگ میری نسبت کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آپ پرکوئی جادو کرایا گیا ہے، آپ نے فرمایا کہ نہیں میں مسحور نہیں ہوں؛ بلکہ مجھ کوجس وقت زہردیا گیا تھا؛ اسی وقت معلوم ہوگیا تھا؛ پھرآپ نے اُس غلام کوبلایا جس نے آپ کوزہر دیا تھا وہ آیا توآپ نے فرمایا کہ افسوس تونے مجھے زہر دے دیا، آخر کس طمع نے تجھ کواس کام پرآمادہ کیا، اس نے کہا کہ مجھ کوایک ہزار دینار دیئے گئے ہیں اور آزادی کا وعدہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا کہ وہ دینار میرے پاس لے آؤ؛ چنانچہ وہ لے آیا آپ نے اسی وقت وہ ایک ہزار دینار بیت المال میں داخل کرادیئے اور غلام کوحکم دیا کہ تواب یہاں سے نکل کرکہیں بھاگ جاکہ پھرکسی کوتیری صورت نظر نہ آئے۔ عبیدبن حسان کہتے ہیں کہ جب آپ کا وقتِ آخر پہنچا اور نزع کی کیفیت شروع ہوئی توآپ نے لوگوں سے فرمایا کہ تم مجھ کوتنہا چھوڑ دو؛ چنانچہ سب اُٹھ کرباہر چلے گئے، مسلمہ بن عبدالملک اور آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک دروازے پرکھڑے رہے، انھوں نے سنا کہ آپ نے فرمایا: بسم اللہ تشریف لائیے، یہ صورت نہ توآدمیوں کی ہے نہ جنوں کی؛ پھریہ آیت پڑھی: تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لايُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأَرْضِ وَلافَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ۔ (القصص:۸۳) ترجمہ:وہ آخرت والا گھر توہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جوزمین میں نہ توبڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد اور آخری انجام پرہیزگاروں کے حق میں ہوگا۔ (توضیح القرآن:۲/۱۱۹۶، مفتی تقی عثمانی، فریدبکڈپو،نیودہلی) اس کے بعد جب کوئی آواز نہ آئی تووہ دونوں اندر گئے دیکھا توآپ فوت ہوچکے ہیں۔ آپ کی وفات ۲۵/رجب سنہ۱۰۱ھ کوہوئی دوبرس پانچ مہینے اور چار دن آپ نے خلافت کی، آپ کی وفات علاقہ حمص کے ایک مقام دیرمعان میں ہوئی، آپ کی وفا تکا حال جب حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سنا توفرمایا کہ آج سب سے بہتر آدمی اُٹھ گیا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے خلیفہ مابعد یعنی یزید بن عبدالملک کوایک رقعہ لکھا جس میں لکھا تھا کہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم، ازبندہ خدا عمر بن عبدالعزیز بعد سلام علیک کے یزید بن عبدالملک کومعلوم ہوکہ میں اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، میں یہ خط تمھیں اپنے کرب کی حالت میں لکھتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ مجھ سے میرے عہدِ حکومت کی نسبت سوال ہونے والا ہےاور وہ سوال کرنے والا دنیا وآخرت کا مالک ہے، یہ ممکن نہیں کہ میں اس سے اپنا کوئی بھی عمل پوشیدہ رکھ سکوں؛ اگروہ مجھ سے راضی ہوگیا تومیری نجات ہوجائے گی؛ ورنہ میں تبہ ہوجاؤں گا، میں دُعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی رحمتِ کاملہ سے بحش دے اور عذابِ دوزخ سے بچائے اور مجھ سے خوش ہوکرجنت عطا فرمائے، تمھیں لازم ہے کہ خدا سے ڈرو اور رعیت کی رعایت کرو میرے بعد تم بھی زیادہ دن دنیا میں نہ رہوگے، والسلام۔ یوسف بن مالک کا قول ہے کہ ہم آپ کوقبر میں رکھ کرمٹی برابر کررہے تھے کہ آسمان کی طرف سے ایک کاغذ گرا اس میں لکھا تھا، خدائے تعالیٰ کی طرف سے عمر بن عبدالعزیز کوآتش دوزخ سے نجات دے دی گئی۔