انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت موسیٰ بن جعفر کاظمؒ نام ونسب موسیٰ نام، ابوالحسن کنیت اور کاظم لقب ہے،(العبرفی خبر من غبر:۱/۲۸۷)ان کے والد امام صادق اورجدِ امجد امام باقراپنے عہد کے ممتاز ترین اوربلند پایہ علماء میں تھے ان کا نسب نامہ یہ ہے،موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب(تہذیب التہذیب:۱۰/۳۳۹)ہاشمی،علوی اور مدنی تینوں نسبتوں سے مشہور ہیں،ان کی دادی فروہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کے پوتے قاسم بن محمد کی صاحبزادی تھیں، اس طرح نانہالی شجرہ کے مطابق ان کی رگوں میں صدیقیؓ خون بھی رواں تھا۔ ولادت ۱۲۸ھ میں مدینہ کے قریب ابواء نامی ایک مشہور قریہ میں پیدا ہوئے اورپھر تمام عمر مدینہ ہی میں سکومت پذیر رہے۔ (شذرات الذہب:۱/۳۰۴،والاعلام:۳/۱۰۸۱) فضل وکمال موسیٰ الکاظم اس خانوادہ علم کے گوہر شب چراغ تھے جس کا ہر ہر فرد آسمان فضل وکمال کا بدر کامل اورمسند علم کا شیخ الکل تھا،اس لیے امام کاظم کو دولتِ علم گویا وراثۃً نصیب ہوئی تھی، اس کے علاوہ جودوکرم،عبادت وریاضت،تضرع وانکسار اورتقویٰ وپاکبازی کا پیکر مجسم تھے،ابو حاتم ان کو امام المسلمین کہتے ہیں،حافظ ذہبی لکھتے ہیں: کان صالحاً عابداً جوادًا حلیماً کبیر القدر (خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال:۳۹۰) وہ صالح عبادت گزار،حلیم الطبع،سخی اورجلیل المرتبت تھے۔ حدیث انہوں نے تبحر علمی اور جلالتِ فنی کے باوجود اپنی زیادہ تر توجہ عبادت اور تبلیغ دین میں صرف کی،اسی وجہ سے ان کی روایات کی تعداد بہت کم ملتی ہے ؛لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت مسلم ہے کہ ان سے مروی تھوڑی سی حدیثیں بھی صحیح معنیٰ میں "بہ قامت کہتربہ قیمت بہتر"کی مصداق ہیں۔ حدیث میں انہوں نے اپنے باکمال والد امام جعفر بن محمد الملقب بہ صادق کے علاوہ عبداللہ بن دینار اور عبدالملک بن قدامہ الجمہی سے استفادہ کیا تھا، ممکن ہے ان کے حلقہ شیوخ میں کچھ اورائمہ بھی شامل ہوں،لیکن طبقات وتراجم میں ان کے صرف مذکورہ تین ہی اساتذہ حدیث کا ذکر ملتا ہے،ان میں بھی ثانی الذکر سے امام کاظم کے تلمذ کو حافظ ابن حجر نے مشتبہ قراردیا ہے؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ اگر موسیٰ کاظم کا سنہ ولادت ۱۲۸ھ مستند اورصحیح ہے تو پھر عبداللہ بن دینار سے ان کے حصول تلمذ کا کوئی سوال نہیں،کیونکہ ابن دینار کی وفات اس سے پہلے ہی ۱۲۷ ھ میں ہوگئی تھی۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۳۴۰) خود ان کے دریائے فیض سے سیراب ہونے والوں میں ان کے دو بھائی علی و محمد اورصاحبزادگان ابراہیم،حسین،اسماعیل،علی رضی کے علاوہ صالح بن یزید اور محمد بن صدقۃ العنبری کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۳۹) ثقاہت ان کی ثقاہت اورصداقت کو علمائے فن نے بالاتفاق ہر قسم کے ریب وشک سے بالاتر قراردیا ہے،ابو حاتم ‘ثقۃ،صدوق امام کہتے ہیں ۔ (میزان الاعتدال:۳/۲۰۹) عبادت عبادت وریاضت کا خاص اہتمام تھا ،کثرتِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم شمار ہوتے تھے،حافظ ابن جوزی نے صفوۃ الصفوۃ میں ان کا بہت نمایاں تذکرہ کیا ہے، علامہ ابن کثیر رقمطرازہیں: کان کثیر العبادۃ والمشاءۃ حتی کہ جب ہارون الرشید نے ان کو دیوار زنداں کے پیچھے ڈال دیا تو بھی ان کے شب وروز کے معمولات میں کوئی فرق نہ آسکا؛چنانچہ قید خانہ کی ایک عینی راویہ نے ان کے دن رات کے معمولات یہ بیان کیے ہیں۔ ‘كان إذا صلى العتمة حمد الله ومجده ودعاه فلم يزل كذالك حتى يزول الليل فإذا زال الليل قام يصلي حتى يصلي الصبح ثم يذكر قليلاً حتى تطلع الشمس ثم يقعد إلى ارتفاع الضحى ثم يتهيأ ويستاك ويأكل ثم يرقد إلى قبل الزوال ثم يتوضأ ويصلي حتى يصلي العصر ثم يذكر في القبلة حتى يصلي المغرب ثم يصلي ما بين المغرب والعتمة’ (تاریخ بغداد،باب ذکر من اسمہ موسی:۵/۴۶۵) وہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد برابر ذکر وفکر اورحمد وثنا میں مشغول رہتے یہاں تک کہ جب کافی رات گزر جاتی تو اٹھ کر نماز پڑھنا شروع کردیتے اورصبح تک یہ سلسلہ جاری رہتا،پھر فجر کی نماز پڑھ کر طلوع آفتاب تک تھوڑا ذکر کرتے،پھر کافی دیر تک مراقبہ میں بیٹھتے،پھر مسواک وغیرہ کرتے اورکھانا تناول فرماتے،پھر زوال سے قبل تک استراحت کرتے پھر وضوکرکے نماز پڑھنا شروع کرتے اورعصر تک پڑھتے رہتے پھر قبلہ رو ہوکر ذکر اللہ میں مصروف رہتے اورمغرب کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہتا پھر نماز مغرب پڑھنےکے بعد عشاء تک مسلسل نوافل پڑھتے رہتے۔ ان معمولات کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے کہ امام کاظم کثرت عبادت وریاضت کے ساتھ اپنی روح و جسم کے حقوق سے بھی پوری طرح عہدہ برآ ہوتے تھے،مذکورہ بالا بیان کی راویہ اخت سندی جو زندان میں امام صاحبؒ کی خدمت پر مامور تھی ،جب بھی ان کو دیکھتی تو کہتی کہ بڑے ہی بد نصیب اورناکام ہیں وہ لوگ جو خدا کے ایسے صالح اورعبادت گذار بندے سے تعرض کرتے ہیں اورانہیں پریشان کرتے ہیں (تاریخ بغداد:۱۳/۳۱)حافظ ذہبی انہیں صالح،عابد،جواد ، حلیم اورجلیل المرتبت لکھتے ہیں۔ (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۸۷) سخاوت جود وسخاوت ،سیر چشمی اورفیاضی اہل بیت کرام کا ایک مشترک وصف اورخصوصی تمغۂ امتیاز تھا،امام کاظم بھی اس وصف کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے، خیرالدین زرکلی لکھتے ہیں: کان احد کبار العلماء الاجواد (الاعلام :۳/۱۰۸۱) وہ ان اکابر علماء میں سے تھے جو سخاوت کی صفت سے متصف تھے۔ امام ذہبی رقمطراز ہیں کہ: کان موسیٰ من اجود الحکماء (میزان الاعتدال:۳/۲۰۹) موسیٰ کاظم بہترین حکماء میں سے تھے۔ ان کی دادودہش اورفیاضی وسیر چشمی کے بکثرت واقعات خطیب کی تاریخ بغداد اوریافعی کی مرأۃ الجنان میں منقول ہیں۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۳۲،۳۳،مراۃ الجنان:۱/۳۹۴) قید وبند کی صعوبتیں تاریخ اسلام میں ایسے اہل دعوت وعزیمت علماء کی کافی تعداد ملتی ہے جنہوں نے حق و صداقت اورایمان وایقان کے چراغ روشن رکھنے کی خاطر دار ورسن اور قید و بند کے تمام شدائد و صعوبتوں کو بطیب خاطر انگیز کیا ؛بلکہ کتنوں نے تو اسی راہ میں اپنی جان بھی جان آفرین کے سپرد کردی،لیکن ان کے پائے ثبات واستقلال میں ذرہ برابر تزلزل نہ پیدا ہوسکا،امام موسیٰ کاظم بھی دوبار اس سعادت سے بہرہ ور ہوئے تھے۔ سب سے پہلے خلیفہ مہدی نے ان کو قید کیا تھا، لیکن اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد اس نے خواب میں حضرت علیؓ کی زیارت کی،جن کے چہرے سے سخت ناراضگی کے آثار عیاں تھے اوروہ خلیفہ کو مخاطب کرکے فرمارہے تھے: فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوافی الارض وتقطعوا ارحامکم تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اوراپنے رشتوں کو توڑ ڈالو۔ چنانچہ اس کے بعد مہدی نے موسیٰ کاظم کو اس شرط پر فوراً رہا کردیا کہ وہ اس کے اوراس کے لڑکوں کے خلاف خروج نہ کریں گے اورامام صاحب کو تین ہزار دینار دے کر بصد اعزاز واکرام مدینہ واپس بھیج دیا۔ پھر ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں ایک مرتبہ اسے خبر ملی کہ عوام امام موسیٰ کاظمؒ کے ہاتھوں پر بیعت کرہے ہیں،اس سے اس کو بہت اندیشہ لاحق ہوا؛ چنا نچہ رامضان ۱۷۹ ھ میں جب خلیفہ مذکور عمرہ کی غرض سے حرمین گیا تو واپسی پر امام صاحبؒ کو بھی اپنے ہمراہ بصرہ لیتا آیا اوروہاں کے والی عیسیٰ بن جعفر کے پاس مقید کردیا،وہ ایک سال تک وہاں رہے،اس کے بعد پھر بغداد کے مرکزی قید خانہ میں منتقل کردیئے گئے اورتادمِ حیات وہیں رہے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۳۴۰) قید بیجا سے رہائی کی دُعا امام کاظم کی بلندی شان کی ایک بین دلیل یہ بھی ہے کہ بغداد کے زمانۂ اسیری میں انہیں حالم رؤیا میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی،آپ ﷺ ان سے فرما رہے تھے: "اے موسیٰ !یقیناً تم مظلوم ہو،میں چند کلمات تلقین کرتا ہوں،اگر تم ان کا ورد کرو،تو آج ہی شب تم قید سے رہا ہوجاؤ گے وہ کلمات یہ ہیں: يا سامع كل صوت يا سائق الفوت يا كاسى العظام لحما ومنشرها بعد الموت أسألك باسمائك الحسنى وباسمك الأعظم الكبر المخزون المكنون الذي لم يطلع عليه احد من المخلوقين يا حليما ذا أناة ياذا المعروف الذي لا ينقطع ابدا فرج عني۔ (شذرات الذہب:۱/۳۰۴) صاف گوئی قید خانہ ہی سے انہوں نے خلیفہ کے نام ایک خط لکھا تھا ،جو ان کی صاف گوئی،جرأت اورحق گوئی کا پورا عکاس ہے،اس خط میں تحریر تھا: اما بعد یا امیر المؤ منین انہ لم ینقص عنی یوم من البلاء الا انقضی عنک یوم من الرخاء حتیٰ یفضی بنا ذالک الیٰ یوم یخسر فیہ المبطلون (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۸۳) اے امیر المومنین ! جوں جوں میری آزمائش کے ایام گذرہے ہیں ویسے ویسے تمہارے عیش وراحت کے دن بھی کم ہوتے جارہے ہیں حتی کہ ہم دنوں ایک ایسے دن ملیں گے جب بُرا عمل کرنے والے خسارہ میں رہیں گے۔ وفات کامل ۷۳ سال دنیائے علم و عمل کو منور رکھنے کے بعد ۲۵ رجب ۱۸۳ھ کو شمع فروزاں گل ہوگئی،اکثر علماء کا خیال ہے کہ بغداد کے قید خانہ میں ان کی وفات ہوئی،بغداد میں آج بھی ان کا مزار مشہور آفاق اورمرجع انام ہے۔ (صفوۃ الصفوۃ:۲/۱۰۵،ومیزان الاعتدال:۳/۲۰۹)