انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایک اور اعتراض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ایک اور حدیث نقل کی جاتی ہے: "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَام قَطُّ إِلَّاثَلَاثَ كَذَبَاتٍ ثِنْتَيْنِ فِي ذَاتِ اللَّهِ قَوْلُهُ ﴿ إِنِّي سَقِيمٌ﴾ وَقَوْلُهُ: ﴿ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا﴾ "۔ (مسلم، كِتَاب الْفَضَائِلِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ إِبْرَاهِيمِ الْخَلِيلِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۴۳۷۱، موقع الإسلام) اس میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین باتیں خلافِ واقعہ کہیں __________ ان میں سے دوکا ذکر قرآنِ پاک میں ہے، ایک پارہ ۲۳/ سورۂ الصافات، آیت نمبر:۸۹، میں اور دوسری پارہ۱۷/ سورۃ الانبیاء، آیت نمبر:۶۳ میں مذکور ہے، ظاہراً آپ نے یہ دونوں باتیں خلافِ واقعہ کہیں، اب قرآن کا ہرطالب علم انہیں حل کرنے کے لیے کوئی توجیہ یاتاویل ضرور اختیارکرتا ہے، قرآن اور حدیث میں اگرفرق ہے توصرف یہ ہے کہ قرآن میں ان میں سے دوباتیں مذکور ہیں اور حدیث میں تین، اب دیانت اور شرافت کیا اس کی مقتضی نہیں کہ جس طرح ان میں سے دوباتوں کی توجیہ کی جاتی ہے اسی طرح تیسری بات کی بھی کوئی توجیہ کرلی جائے؛ ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن میں بھی (معاذ اللہ) بہت غلط باتیں موجود ہیں اور اس طرح انکارِ حدیث، انکارِ رسالت کی ایک سیڑھی قرار پائے گی؛ رہا یہاں لفظ "کذب" کا اطلاق سو یاد رہے کہ یہ اردو کے لفظ جھوٹ سے بہت مختلف ہے، عرب مطلق خلاف واقعہ بات پربھی کذب کا لفظ بول دیتے ہیں؛ خواہ اس میںتعمد اور نیت نہ بھی ہو، علامہ خطابی نے معالم میں اس کی تصریح کی ہے۔ (معالم:۱/۱۳۴)