انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایامِ طفولیت ابتداءً بعد ولادت سات روز تک ثوبیہ نے جوابو لہب بن عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہؓ کو بھی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا،اس لئے مسروق بن ثوبیہ اورحضرت حمزہؓ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضائی بھائی تھے،آٹھویں روزشرفائے عرب کے دستور کے موافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم قوم ہوازن کے قبیلۂ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ کے سپرد کئے گئے کہ وہ بطور دایہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں اوراپنے پاس رکھ کر پرورش کریں،شرفائے عرب اس لئے اور بھی اپنے بچوں کو ان بدوی عورتوں کے سپرد کرتے تھے کہ جنگل کی کُھلی اورآزاد آب وہوا میں رہ کر بچے تندرست اورمضبوط ہوجائیں نیزان کی زبان زیادہ فصیح اور عمدہ ہوجائے ؛کیونکہ بدویوں کی زبان شہریوں کی زبان کے مقابلہ میں زیادہ صاف ،خالص اور فصیح ہوتی تھی ،حلیمہ سعدیہ سال میں دو مرتبہ یعنی ہر چھٹے مہینے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں لاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کو دکھاجاتی تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو برس کی عمر تک حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا اور دو برس تک اوریعنی چار سال کی عمر تک حلیمہ سعدیہ کے گھر قبیلہ بنی سعد میں پرورش پاتے رہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چار برس کی ہوگئی تو آپ کی والدہ آمنہ نے اپنے پاس مکہ میں رکھ لیا، دو برس کے بعد جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر اپنے عزیز واقارب سے ملنے مدینہ منورہ کی طرف تشریف لے گئیں ،ایک مہینہ رہ کر وہاں سے واپسی کے وقت مقام ابوا میں پہنچ کر حالتِ مسافری میں بی بی آمنہ کا انتقال ہوگیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش ونگرانی کا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے اپنے ذمہ لیا، بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چار برس نہیں ؛بلکہ پانچ سال قبیلہ بنی سعد میں حلیمہ سعدیہ کے گھر رہے اوراپنی والدہ کے پاس صرف ایک ہی سال یہ ایک سال چند ماہ رہنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع ملا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر قریباً پانچ سال کی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رضائی بھائی بہنوں یعنی حلیمہ کے بچوں اوربنی سعد کے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ گھر سے باہر بکریاں چرا رہے تھے کہ واقعۂ شقِ صدر وقوع میں آیا، سیرۃ ابن ہشام کی روایت کے موافق حلیمہ بنت ابی ذویت اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ایک روز میرے دونوں بچے ڈرتے ہوئے میرے پاس آئے اورکہا کہ دو سفید پوش آدمی میرے پاس آئے اورمجھ کو چت لٹا کر میرا سینہ چاک کیا،میرا دل نکالا پھر اس میں سے کوئی چیز نکال لی، حلیمہ نے دیکھا تو کسی زخم یا خون کا نشان نہ تھا،انہوں نے یہ سمجھ کر کہ اس لڑکے پر کسی جن وغیرہ کا کوئی اثر ہوگیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیر تک اپنے پاس رکھنا مناسب نہ سمجھا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی والدہ کے پاس مکہ میں لاکر تمام کیفیت سُنادی اوراپنا خیال ظاہر کیا کہ اس لڑکے پر کسی جن کا اثر ہوگیا ہے،حضرت آمنہ نے سُن کر فرمایا کہ نہیں کوئی فکر کی بات نہیں ہے،میرا یہ بیٹا دنیا میں عظیم الشان مرتبہ پانے اور غیر معمولی انسان بننے والا ہے،یہ ہر آفت اورہر صدمہ سے محفوظ رہے گا، اورخدائے تعالیٰ اس کی حفاظت کرےگا،کیونکہ جب یہ میرے پیٹ میں تھا تو ایام حمل میں نے بہت سی بشارتیں خواب میں فرشتوں سے سُنیں اوراس کی بہت سی کرامتیں دیکھی ہیں،صحیح مسلم میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چیرا اورایک قطرہ نکال کر کہا کہ یہ شیطان کا حصہ تھا،بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سونے کے طشت میں آب زمزم سے دھویا،پھر اس کو بجنسہ جہاں رکھا ہوا تھا رکھ دیا۔