انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن سلام نام ونسب عبداللہ نام، ابویوسف کنیت، جرلقب،یہود مدینہ کے خاندان قینقاع سے تھے جس کا سلسلۂ نسب حضرت یوسف علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے،مختصراً آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: عبداللہ بن سلام بن حارث قبیلۂ خزرج میں ایک خاندان بنی عوف کے نام سے مشہور ہے، اس میں ایک شاخ کا نام قواقل ہے حضرت عبداللہؓ اسی قواقل کے حلیف تھے۔ ایام جاہلیت میں ان کا نام حصین تھا، لیکن آنحضرتﷺ نے عبداللہ رکھا۔ اسلام عبداللہؓ بن سلام اپنے بچوں کے لئے باغ میں پھل چننے گئے تھے کہ آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے اورمالک بن نجار کے محلہ میں فروکش ہوئے، اس کی خبر عبداللہؓ بن سلام کو ہوئی، تو پھل لے کر دوڑے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور زیارت سے شرف اندوز ہوکر واپس گئے،آنحضرتﷺ نے پوچھا کہ ہمارے اعزہ(انصار) میں سب سے قریب تر کس کا مکان ہے ،حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں سب سے قریب رہتا ہوں یہ میرا گھر ہے اوریہ دروازہ ہے ،آنحضرتﷺ نے ان کے مکان کو اپنا مسکن بنایا جب آپ کا مستقر متعین ہوگیا، تو عبد اللہ بن سلامؓ دوبارہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ سے تین باتیں دریافت کرتا ہوں جو انبیاء کے سوا کسی کو معلوم نہیں،آنحضرتﷺ نے ان کو جواب دیا تو فوراً پکار اُٹھے اشھدان لا الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہﷺ اس کے بعد کہاکہ یہود ایک افترا برداز قوم ہے اورمیں عالم بن عالم اور رئیس بن الرئیس ہوں آپ ان کو بلاکر میری نسبت دریافت کیجئے ؛لیکن میرے مسلمان ہوجانے کی خبر نہ دیجئےگا، آنحضرتﷺ نےیہود کو طلب فرما کر اسلام کی دعوت دی اورکہا عبداللہ بن سلام کون شخص ہیں؟ بولےہمارے سردار اورہمارے سردار کے بیٹے ہیں، فرمایا وہ مسلمان ہوسکتے ہیں جواب ملا کبھی نہیں ،حضرت عبداللہ بن سلامؓ مکان کے ایک گوشہ میں چھپے ہوئے تھے،آنحضرتﷺ نے آوازدی ،تو کلمہ پڑہتے ہوئے باہر نکلے آئے اور یہودیوں سے کہا ذرا خدا سے ڈرو تمہیں خوب معلوم ہے کہ یہ رسول ہیں اوران کا مذہب بالکل سچا ہے اورباایں ہمہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے،یہود کو خلاف توقع جو خفت نصیب ہوئی اس نے ان کو مشتعل کردیا انہوں نے غصہ میں کہا کہ تم جھوٹے ہو اورہماری جماعت کے بدترین شخص ہو اورتمہارا باپ بھی بدتر تھا ،حضرت عبداللہ ؓ نے کہا رسول اللہﷺ! آپ نے دیکھا مجھ کو اسی کا خوف تھا۔ (بخاری:۱/۵۵۶،۵۶۱) غزوات بدر اوراحد کی شرکت کے متعلق اختلاف ہے صاحب طبقات کے نزدیک خندق میں وہ شریک تھے،اس لئے انہوں نے صحابہؓ کے تیسرے طبقہ یعنی اصحابِ خندق میں ان کا تذکرہ لکھا ہے،خندق کے بعد جو معرکے پیش آئے ان میں بھی شامل ہوئے۔ حضرت عمرؓ کے سفر بیت المقدس میں حضرت عبداللہ ان کے ہمراہ تھے۔ باغیوں نے جب حضرت عثمانؓ کے مکان کا محاصرہ کرکے ان کے قتل کی تیاریاں کیں تو عبداللہ بن سلامؓ حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا آپ کی مدد کے لئے تیار ہوں فرمایا آپ کا مکان کے اندر رہنا ٹھیک نہیں باہر جاکر مجمع کو منتشر کیجئے، حضرت عبداللہؓ باہر تشریف لائے اورایک مختصر سی تقریر کی جس کا ترجمہ یہ ہے: لوگو! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا یعنی حسین آنحضرتﷺ نے عبداللہ رکھا میرے متعلق قرآن مجید میں کئی آیتیں نازل ہوئیں ،چنانچہ"شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ" اور "قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ" میرے ہی شان میں اتری ہیں، خدا کی تلوار اب تک نیام میں ہے اور فرشتوں نے تمہارے شہر کو کہ رسول اللہ ﷺ کا ہجرت گاہ ہے اپنا نشیمن بنالیا ہے، پس ڈرو!خدا سے ڈرو!اوران کو( حضرت عثمانؓ) قتل نہ کرو، خدا کی قسم !اگر تم ان کے قتل پر کمر بستہ ہوئے تو تمہارے ہمسایہ فرشتے مدینہ چھوڑدیں گے اور خدا کی قسم وہ تلوار نکل پڑے گی،جو اس وقت تک نیام میں بند ہے اور جو پھر قیامت تک نیام میں واپس نہ جائے گی۔ لیکن سنگدلوں پر اس پرزور تقریر کا کچھ اثر نہ ہوا؛بلکہ اس کے خلاف ان کی شقاوت اورزیادہ ترقی کر گئی بولے کہ "اس یہودی اورعثمانؓ دونوں کو قتل کرڈالو"۔ (ترمذی:۶۲۸) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں جب کوفہ کو دارالخلافہ بنایا تو انہوں نے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کا منبر نہ چھوڑئیے،ورنہ پھر اس کی زیارت نہ کرسکیں گے ،حضرت علیؓ نے فرمایا وہ بچارے نہایت نیک آدمی ہیں۔ (اصابہ:۲/۳۲۱) وفات امیر معاویہؓ کے زمانہ خلافت میں ۴۳ھ میں مدینہ منورہ میں انتقال کیا۔ اولاد دو بیٹے یاد گار چھوڑے، یوسف اورمحمد، دونوں آنحضرتﷺ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے،یوسف بڑے تھے ، آنحضرتﷺ نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا، سرپر ہاتھ پھیرا اوریوسف نام رکھا۔ (مسند:۴/۳۵) حلیہ مفصل حلیہ معلوم نہیں،بڑھاپے میں ضعف کی وجہ سے عصا لیکر چلتےتھے اوراس پر ٹیک لگاتے (مسند:۵/۴۵۲) چہرہ پر خشوع کے آثار ہر وقت نمایاں رہتے تھے۔ فضل و کامل تورات،انجیل،قرآن مجید اوراحادیث نبوی سے ان کا سینہ بقعۂ نور بنا ہوا تھا، تورات پر جو عبور تھا، اس کے متعلق علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں: کان عبداللہ بن سلام عالم اھل الکتاب وقفاضلھم فی زمانہ بالمدینۃ عبداللہ بن سلام مدینہ میں اہل کتاب کے سب سے بڑے عالم تھے۔ مسلمان ہوکر قرآن و حدیث کی طرف توجہ کی اورحدیث میں مرجع کل بن گئے اس سے بڑھ کر شرف اورکیا ہوسکتا ہے، کہ حضرت ابو ہریرہؓ جو تمام صحابہؓ میں حدیث کے سب سے بڑے گنجینہ دار تھے ان سے حدیثیں دریافت کرتے تھے ،حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار شام گئے اور کعب احبار سے یہ حدیثیں دریافت کرتے تھے،حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار شام گئے اور کعب احبار سے یہ حدیث بیان کی کہ جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اگر اس میں خدا سے کچھ مانگے تو اس کو ضرور دیتا ہے اس پر کعب نے کچھ رد وقدح کی یہاں تک کہ اخیر میں حضرت ابوہریرہؓ کےموافق ہوگئے، حضرت ابوہریرہؓ نے مدینہ آکر عبداللہ بن ؓ سلام سے یہ واقعہ بیان کیا ،انہوں نے کہا کعب نے جھوٹ کہا، حضرت ابو ہریرہؓ نے کہاکہ انہوں نے میرے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا، پھر فرمایا جانتے ہو وہ وقت کون سا ہے ،یہ سن کر ابو ہریرہؓ ان کے پیچھے پڑ گئے اور کہا کہ جلد بتلائیے ،فرمایا عصر اور مغرب کے درمیان ،ابو ہریرہؓ نے کہا یہ کیونکر ہوسکتا ہے عصر اور مغرب کے درمیان کوئی نماز ہی نہیں فرمایا تم کو معلوم نہیں کہ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ گویا نماز ہی میں ہوتا ہے۔ (مسند:۵/۴۵۱،۴۵۳) باایں ہمہ جلالت قدر ان سے صرف ۲۵ روایتیں منقول ہیں ،راویوں میں بعض صحابہؓ کرام بھی ہیں جن کے نام نامی یہ ہیں، انس بن مالکؓ ،زرارہ بنؓ اوفی،ابو ہریرہؓ ،عبداللہ بنؓ معقل، عبداللہ بن حنظلہ، تلامذۂ خاص کے نام حسب ذیل ہیں: حزشہ بن الحر قیس بن عباد، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حمزہ بن یوسف (پوتے) عمروبن محمد(پوتے) عوف بن مالک ،ابو بردہ بن ابو موسیٰ، ابو سعید المقبری، عبادہ الزرقی، عطاء بن یسار، عبیداللہ بن جیش غفاری۔ حضرت عبداللہؓ سے ایک خاص حدیث منقول ہے جس کے اخیر میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے ہم کو جمع کرکے سبح للہ کی چند آیتیں پڑھیں، حضرت عبداللہؓ نے اپنے شاگردوں کے سامنے وہی آیتیں پڑھیں اور پھر بالترتیب عطاء بن یسار، ہلال بن ابی میمونہ، یحییٰ بن ابی کثیر نے اپنے زمانہ میں اس سنت کو قائم رکھا، لیکن یحییٰ کے شاگرد اور اوزاعی پر پہونچ کر اس کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ (مسند:۵/۴۵۲) اخلاق اخلاقی حیثیت سے حضرت عبداللہؓ کا پایۂ عظمت بہت بلند ہے،صحیح بخاری میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے کسی زمین پرچلنے والے شخص کو جنتی نہیں فرمایا، البتہ عبداللہ بن سلام کو فرمایا تھا، (بخاری:۱/۵۳۸) ترمذی میں ہے کہ حضرت معاذؓ بن جبل کی وفات ہوئی تو شاگردوں سے فرمایا کہ میں دنیا سے اٹھ رہا ہوں ؛لیکن میرے ساتھ علم نہیں اٹھتا جو شخص اس کی جستجو کرے گا پالے گا، اس کے بعد چار شخصوں کے نام گنائے جن میں ایک عبداللہ بن سلام تھے فرمایا: (جامع ترمذی:۶۲۸) کان یھود یافاسلم فانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول انہ عاشر عشرۃ فی الجنۃ پہلے وہ یہودی تھے،پھر مسلمان ہوئے اور میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ وہ گیارہویں جنتی ہیں۔ بایں ہمہ فضیلت بڑے منکسر المزاج تھے ،مسجد نبوی میں ایک دن نماز کے لئے آئے اور لوگوں نے کہا کہ یہ جنتی شخص ہیں تو فرمایا کہ جس بات کو آدمی جانتا نہ ہو اس کو زبان سے نکالنا نہ چاہیے، اس کے بعد اپنے اس خواب کا ذکر کیا جس کی آنحضرتﷺ نے تعبیر دی تھی کہ اسلام پر تمام عمر قائم رہوگئے۔ (بخاری:۱/۵۳۸) اس واقعہ کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی ملایا جائے تو انکسار کا نہایت مکمل اور دیدہ زیب مرقع پیش نظر ہوجاتا ہے ،ایک مرتبہ لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر لارہے تھے، لوگوں نے کہا کہ آپ کو اس سے خدا نے مستغنی کیا ہے ،فرمایا ہاں یہ ٹھیک ہے؛ لیکن میں اس سے کبرو غرور کا قلمع قمع کرنا چاہتا ہوں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳) حق وصداقت کا جوش بے اندازہ تھا،فرماتے تھے کہ تم کو ایک بار قریش سے لڑائی پیش آئے گی، اُ س وقت اگر مجھ میں قوت نہ ہو تو تخت پر بٹھا کر مجھ کو فریقین کی صفوں کے درمیان رکھ دینا۔ (استیعاب:۱/۳۹۶)