انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** گرچہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں شروع ہوگیا تھا، لیکن خراج کا باقاعدہ نظام حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں قائم ہوا،چنانچہ سب سے پہلے عراق کی فتح کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی تو بہت سے صحابہ نے کہا کہ مال غنیمت کی طرح زمین اور جائدادیں بھی مجاہدین پر تقسیم کردی جائیں؛ لیکن حضرت عمرؓ کا خیال تھا کہ اگر زمین بھی تقسیم کردی گئی تو آئندہ نسل کے لئے کیا رہ جائے گا؟ سرحد کی حفاظت کیونکر ہوسکے گی؟ یتیموں اور بیواؤں کی پرورش کا کیا انتظام ہوگا؟ اس غرض سے انہوں نے تمام قدما مہاجرین کو مشورہ کے لئے جمع کیا اوران لوگوں میں حضرت علیؓ حضرت طلحہ ؓ حضرت عثمان اورحضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ نے حضرت عمرؓ کی رائے سے اتفاق کیا اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے مخالف گروہ کی تائید کی بالآخر حضرت عمرؓ نے ایک عام اجلاس کیا جس میں شرفائے انصار سے دس اوس سے پانچ اورخزرج سے پانچ بزرگ شریک ہوئے حضرت عمرؓ نے کھڑے ہوکر ایک نہایت پرزورتقریر کی اورسب نے ان کی رائے سے اتفاق کرلیا۔ (کتاب الخراج،صفحہ۱۴) اس مرحلہ کے طے ہوجانے کے بعد حضرت عمرؓ نے بندوبست کی طرف توجہ کی اورصحابہ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ اس خدمت کے لئے کون موزوں ہے؟ تمام صحابہ نے حضرت عثمان بن حنیفؓ کا نام لیا اورکہا کہ وہ اس سے بھی اہم خدمات کے انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں، (استیعاب تذکرہ حضرت عثمان بن حنیفؓ) حضرت عمرؓ نے پانچ درہم اورایک جراب آٹا روزانہ کرکے حساب سے تنخواہ مقرر کی، حضرت حذیفہؓ بن الیمان کو ان کا شریک کار مقرر فرمایا، (یعقوبی،جلد۲،صفحہ۷۴) اورحکم دیا کہ ٹیلوں،جنگلوں،گڈھوں اوران زمینوں کی جن کی آب پاشی ناممکن ہے پیمائش کی جائے اورناقابل برداشت جمع نہ تشخیص کی جائے، اس اصول کے مطابق ان بزرگوں نے پیمائش کا کام ختم کیا تو کل رقبہ طول سے تین سو پچھیتر ۳۷۵ میل اور عرض میں ۲۴۰ میل یعنی کل تیس ہزار میل مکسرٹہرا، (ف:مربع میل) اس میں پہاڑ،صحرااورنہروں کو چھوڑ کر قابل زراعت زمین تین کروڑ ساٹھ لاکھ جریب نکلی، خاندان شاہی کی جاگیر ،آتش کدوں کے اوقاف، لاوارثوں ،مفروروں اورباغیوں کی جائداد، دریا برآورو جنگل اوران زمینوں کو جو سڑکوں کی تیاری اورڈاک کے مصارف کے لئے مخصوص تھیں، حضرت عمرؓ نے خالصہ قراردیا (فتوح البلدان،صفحہ ۳۸۱) باقی تمام زمینیں مالکان قدیم کے قبضے میں دے دی گئیں اور ان پر حسب ذیل مالگذاری مقرر کی گئی۔ گیہوں جو نیشکر روئی انگور نخلستان تل ترکاری فی جریب یعنی پون بیگہ پختہ // // // فی جریب یعنی پون بیگہ پختہ // // // دو درہم سالانہ ایک درہم سالانہ چھ درہم سالانہ پانچ درہم سالانہ دس درہم سالانہ // آٹھ درہم سالانہ تین درہم سالانہ جمع تشخیص ہوگئی تو دونوں بزرگوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے جمع سخت تو تشخیص نہیں کی؟ انہوں نے کہا ابھی تو اس میں اضافہ کی اوربھی گنجائش ہے، بولے پھر غور کرلو جمع ناقابل برداشت تو تشخیص نہیں کی گئی، انہوں نے کہا نہیں اب فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو اپنے بعد عراق کی بیواؤں کو کسی دوسرے کا محتاج نہ ہونے دوں گا۔ (بخاری کتاب المناقب باب قصہ البیعۃ والاتفاق علی عثمان ؓ) خراج کی تشخیص میں سب سے زیادہ عادلانہ طریقہ یہ اختیار کیا ذمی رعایا سے اس میں مشورہ لیا؛ چنانچہ انہوں نے عراق کا بند و بست کرنا چاہا تو مشورہ کے لئے وہاں سے دو چوہدری طلب کئے جن کے ساتھ ایک ترجمان بھی تھا، اسی طرح مصر کے عامل کو لکھا کہ خراج کے معاملے میں مقوقس سے رائے لے لوزیاددہ واقفیت کے لئے ایک واقف کار قبطی کو مدینہ میں طلب فرمایا اوراس کا اظہارلیا۔ (مقریزی،جلد۱،صفحہ۷۴،۷۵) عراق کے سوا حضرت عمرؓ نے اورکسی صوبے کی پیمائش نہیں کرائی، البتہ قدیم طریقہ بندوبست میں جہاں جہاں غلطی دیکھی اس کی اصلاح کردی، مثلا مصر ے رومی خراج کے علاوہ غلے کی ایک مقدار کثیر وصول کرتے تھے جو سلطنت کے ہر صوبے میں فوج کی رسد کے لئے روانہ کی جاتی تھی اور خراج میں محسوب نہیں ہوتی تھی، حضرت عمرؓ نے یہ دونوں جابرانہ طریقے موقوف کردیئے۔ زمینداری اورملکیت کے متعلق انہوں نے سب سے بڑی اصلاح یہ کی کہ زمینداری کے متعلق قدیم جابرانہ قانون کو بالکل مٹادیا،مثلاً جب رومیوں نے شام اورمصر پر قبضہ کیا تو تمام اراضیات اصلی باشندوں کے قبضہ سےنکال کر اراکین دربار کو دے دیں کچھ خالصہ قرار دیا اورکچھ گرجوں پر وقف کردیں؛ لیکن حضرت عمرؓ نے اس قاعدہ کو مٹا کر یہ قاعدہ بنادیا کہ مسلمان کسی حالت میں ان زمینوں پر قابض نہیں ہوسکتے، یعنی اگر قیمت دے کر بھی خریدنا چاہیں تو خرید نہیں سکتے یہ قاعدہ ایک مدت تک جاری رہا ؛چنانچہ لیث بن سعد نے مصر میں کچھ زمین خریدی تو بڑے بڑے پیشوایانِ مذہبی مثلاً امام مالکؒ، نافع بن یزید وغیرہ نے ان پر سخت اعتراض کیا۔ (مقریزی۹۵) حضرت عمرؓ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا ؛بلکہ تمام فوجی افسروں کے نام حکم بھیج دیا کہ لوگوں کے روزینے مقرر کردیئے گئے ہیں، اس لئے کوئی شخص زراعت نہ کرنے پائے،چنانچہ شریک غطفی نامی ایک شخص نے مصر میں کچھ زراعت کرلی تو حضرت عمرؓ نے بلا کر سخت مواخذہ کیا اور فرمایا کہ تجھ کو ایسی سزا دونگا جو دوسروں کے لئے عبرت انگیز ہوگی۔ (حسن المحاضرہ،جلد۱،صفحہ ۶۸) ایک دفعہ عبداللہ بن الحرالعنسی نے شام میں کھیتی کی اورحضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو اس کی کل جائداد برباد کروادی۔ (اصابہ تذکرہ عبداللہ بن الحرالعنسی) بندوبست کے ساتھ حضرت عمرؓ نے ترقی زراعت کی طرف خود توجہ کی اور لوگوں کو توجہ دلائی۔ ایک مرتبہ ایک شخص سے پوچھا تمہارا وظیفہ کیا ہے؟ اس نے کہا ڈھائی ہزار، فرمایا قبل اس کے کہ قریش کے لونڈے سرپرآرائے حکومت ہوں کھیتی کرلو ورنہ ان کے بعد وظیفہ کوئی چیز نہ رہ جائے گا،(ادب المفرد باب الابل عزلاہلہا) عام حکم دے دیا کہ جوافتادہ زمینیں ہیں ان کو جو شخص آباد کرلے گا اس کی ملک ہوجائیں گی؛ لیکن اگر کوئی شخص تین برس کے اندر آباد نہ کرے تو اس کے قبضہ سے نکل جائیں گی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو ایک قطعہ بطور جاگیر کے دیا تھا؛ لیکن انہوں نے اس کو آباد نہیں کیا تو حضرت عمرؓ نے اس کو ان کے قبضے سے نکال لیا(وفاءالوفاء،صفحہ۱۹۰) اس طرح ان کے زمانے میں زرعی پیداوار میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ تک صدقہ فطر میں صرف جو،کھجور اور منقٰی دیا جاتا تھا؛لیکن جب ان کے عہد خلافت میں گہیوں کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا تو انہوں نے ان چیزوں کے عوض نصف صاع گیہوں مقرر کردیا۔ (ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ باب کم یودی فی صدقۃ الفطر) وصول خراج کا طریقہ وصولی خراج میں حضرت عمرؓ نے سب سے زیادہ آسانی یہ پیدا کی کہ خود رعایا کو اختیار دیا کہ وہ وصولی خراج کے لئے بہترین اشخاص منتخب کرکے دربار خلافت میں روانہ کرے؛ چنانچہ کوفہ والوں نے عثمان ابن فرقد کو شام والوں نے معن بن یزید کو، بصرہ والوں نے حجاج بن علاط کو، منتخب کرکےبھیجا اورحضرت عمرؓ نے ان کو عامل خراج مقرر کردیا (کتاب الخراج،صفحہ ۶۴) خراج وصول ہوکر آتا تھا تو دس ثقہ آدمی کوفہ سے اوراسی قدر بصرہ سے طلب کرتے تھے اوران کو حلفیہ اظہار لیتے تھے کہ مالگذاری کسی ذمی یا مسلمان پر ظلم کرکے تو نہیں لی گئی ہے۔ (کتاب الخراج،صفحہ۶۵) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی وصولی خراج میں نہایت نرمی اختیار کی،چنانچہ ایک بار کسی عامل کو وصول خراج کے لئے مقرر فرمایا تو یہ وصیتیں کیں۔ لا تضربن رجلا سوطا فی جبایۃ درھم ولاتتبعن لھم ازقاولا کسوۃ شتاءولا صیفا ولا دابۃ تصعلون علیھا ولا تقیمن رجلا قائما فی طلب درھم کسی شخص کو مالگذاری کے وصول کرنے میں کوڑانہ مارو ،ان کی روزی ان کے گرمی اورجاڑے کے کپڑے اورباربرداری کے جانور نہ لو اور کسی کو کھڑا نہ کرو۔ اس نے کہا: اے امیر المومنین !یہ کہئے کہ میں یوں ہی خالی ہاتھ واپس آؤں، فرمایا یہ بھی سہی، ہم کو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ فاضل مال سے مالگذاری وصول کریں۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ) جزیہ جزیہ بھی خراج کی طرح نہایت نرمی کے ساتھ وصول کیا جاتا تھا، جولوگ اپاہج اوربیکار ہوجاتے تھے ان کا جزیہ معاف کردیا جاتا تھا اوران کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا؛ چنانچہ یہ قاعدہ حضرت ابوبکرؓ ہی کے زمانہ میں مقرر ہوگیا تھا،اورحضرت عمرؓ نے بھی اس کو قائم رکھا ،ذمیوں کو کسی قسم کی اذیت دیکر جزیہ وصول کرنے کی اجازت نہ تھی، ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ دھوپ میں کھڑا کرکے کچھ لوگوں کے سرپر زیتون کا تیل ڈالا جارہا ہے، وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ جزیہ ادا نہ کرنے کے جرم میں یہ سزادی جارہی ہے، فرمایا ان کو چھوڑدو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جولوگ دنیا میں بندوں کو تکلیف دیتے ہیں خداقیامت میں ان کو عذاب دیتا ہے۔ عشر غیر قوموں سے ایک اورتجارتی ٹیکس لیا جاتا تھا جس کا نام عشر تھا یہ اسلام کی کوئی جدید ایجاد نہ تھی ؛بلکہ جاہلیت ہی کے زمانے میں اس کا رواج تھا اورحضرت عمرؓ نے اسی کو قائم رکھا۔ (موطا امام مالک کتاب الزکوٰۃ باب عشور اہل الذمہ) اس کے وصول کرنے کا طریقہ نہایت آسان تھا کسی کے اسباب کی تلاشی نہیں لی جاسکتی تھی ،دوسو درہم سے کم قیمت مال پر کچھ نہیں لیا جاتا تھا، شام کے نبطی چونکہ گیہوں کی تجارت کرتے تھے اس لئے حضرت عمرؓ ان سے نصف عشر لیتے تھے کہ مدینہ میں اس کی در آمد زیادہ ہو۔ (موطا امام مالک کتاب الزکوٰۃ باب عشور اہل الذمہ) زکوٰۃ عشور زکوۃ کے وصول کرنے میں بھی ہر قسم کی آسانیاں ملحوظ رکھی جاتی تھیں، رسول اللہ ﷺ نے عمال کو حکم دیا تھا کہ زکوۃ میں بہترین مال نہ لیا جائے، خلفائے راشدینؓ بھی نہایت شدت کے ساتھ اس حکم کی پابندی کرتے تھے، ایک بار حضرت عمرؓ نے اموال صدقہ میں ایک بڑے تھن والی بکری دیکھی تو فرمایا کہ، اس کے مالک نے اس کو بخوشی نہ دیا ہوگا، اس طرح مسلمانوں کو نہ بدکاؤ۔ (موطا امام مالک کتاب الزکوٰۃ باب النبی عن التضئیق علی الناس فی الصدقہ) دیوان، دفتر، بیت المال جزیہ، خراج، عشور اورزکوٰہ سے جو رقم وصول ہوتی تھی حضرت ابوبکرؓ کے زمانے تک علی السویہ تمام مسلمانوں پر تقسیم ہوجاتی تھی؛ لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب باقاعدہ نظام سلطنت قائم ہوا، تو اس کے لئے دیوان، دفتر،اوربیت المال قائم کیا گیا ،خراج کا دفتر جیسا کہ قدیم زمانہ میں فارسی ،شامی اورقبطی زبان میں تھا ،حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی قائم رہا؛ کیونکہ ابھی تک اہل عرب نے اس فن میں اس قدر ترقی نہیں کی تھی کہ یہ دفتر عربی زبان میں منتقل ہوسکتا۔ بیت المال کے رجسٹر نہایت صحت اور تفصیل کے ساتھ مرتب کئے جاتے تھے ؛چنانچہ صدقہ و زکوٰۃ کے مویشی آتے تھے تو ان کے رنگ ،حلیہ اور سن تک لکھے جاتے تھے،(اسد الغابہ تذکرہ حضرت فاروقؓ) بیت المال میں جو رقم جمع ہوتی تھی اس کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے وظیفے میں صرف ہوجاتا تھا جن کے سالانہ وظائف علی قدر مراتب حسب ذیل تھے۔ شرکائے غزوۂ بدر پانچ ہزار درہم سالانہ مہاجرین حبش اورشرکائے غزوۂ احد چار ہزار درہم مہاجرین قبل از فتح مکہ تین ہزار درہم جو لوگ فتح مکہ میں اسلام لائے دوہزار درہم جو لوگ جنگ قادسیہ اوریرموک میں شریک تھے دوہزار درہم اہل یمن چارہزار درہم قادسیہ اوریرموک کے بعد کے مجاہدین تین سو درہم بلاامتیاز مراتب دو سو درہم ان لوگوں کے اہل و عیال بلکہ غلاموں کے وظائف بھی مقرر تھے؛ چنانچہ مہاجرین اور انصار کی بیویوں کا وظیفہ دو سو سے چار سو درہم تک اوراہل بدر کے اولاد ذکور کا وظیفہ دو دو ہزار درہم مقرر تھا، ان مصارف کے بعد صوبجات اوراضلاع کے بیت المال میں جو رقم بچ جاتی تھی وہ مدینہ منورہ کے بیت المال میں بھیج دی جاتی تھی، (کنز العمال ،جلد۳،صفحہ ۱۶۳،بحوالہ ابن سعد) جن لوگوں کو وظیفے ملتے تھے ان کے نام مع ولدیت درج رجسٹر ہوتے تھے،(مسند ابن حنبل ،جلد۱،صفحہ ۳۱) اوران کی ترتیب کے لئے بڑے بڑے قابل لوگ مثلاً حضرت عقیلؓ بن ابی طالب، مخزمہ بن نوفل اورجبیر بن مطعم وغیرہ مامور تھے۔