انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دوزخیوں کا کھانا پینا درخت زقوم اورجلتا ہوا پانی ارشاد باری تعالی ہے: إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ، طَعَامُ الْأَثِيمِ ، کَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ ، کَغَلْيِ الْحَمِيمِ (الدخان:۴۳،۴۶) (ترجمہ)بے شک زقوم کا درخت بڑے مجرم(کافر)کا کھانا ہوگا جو صورت کے مکروہ ہونے میں)تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا(اور)وہ پیٹ میں ایسا کھولے گا جیسا تیز گرم پانی کھولتا ہے(اور فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اس کو پکڑو پھر گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے بیچوں بیچ تک لے جاؤ پھر سر کے اوپر تکلیف دینے والا گرم پانی چھوڑدو) أَذَلِکَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ،إِنَّاجَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ،إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ،طَلْعُهَا کَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ،فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ،ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ،ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ (الصافات:۶۲،۶۷) ترجمہ: (عذاب اورثواب دونوں کا موازنہ کرکے اب اہل ایمان کو ترغیب اورکفار کو ترہیب فرماتے ہیں کہ بتلاؤ) بھلا یہ دعوت (جنت کی نعمتوں کی)بہتر ہے(جو اہل ایمان کے لئے ہے) یا زقوم کا درخت جو کفار کے لئے ہے ہم نے اس درخت کو(آخرت کی سزا بنانے کے علاوہ دنیا میں بھی ان) ظالموں کے لئے موجب امتحان بنایا ہے (کہ اس کو سن کر تصدیق کرتے ہیں یا تکذیب واستہزاء کرتے ہیں؛چنانچہ کفار تکذیب واستہزاء سے پیش آئے،کہنے لگے کہ زقوم تو مسکہ اورخرما کو کہتے ہیں وہ خوب لذیذ چیز ہے اورکہنے لگے کہ زقوم اگر درخت ہے تو دوزخ میں آگ ہی آگ ہے درخت کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب اللہ تعالی نے یہ دیا کہ )وہ ایک درخت ہے جو قعر(جڑ)دوزخ سے نکلتا ہے (یعنی مسکہ ااور خرما نہیں ہے اورچونکہ وہ خود آگ ہی میں پیدا ہوتا ہے اس لئے وہاں رہنا بعید نہیں جیسے سمندر نامی جانور آگ میں پیدا ہوتا ہے اورآگ ہی میں رہتا ہے اس سے دونوں باتوں کا جواب ہوگیا، آگے زقوم کی ایک کیفیت مذکور ہے کہ)اس کے پھل ایسے (کریہہ النظر)ہیں جیسے سانپ کے پھن (پس ایسے درخت سے ظالموں کی دعوت ہوگی)تو وہ لوگ(بھوک کی شدت میں جب اور کچھ نہ ملے گا تو)اسے کھائیں گے اور(چونکہ بھوک سے بے چین ہوں گے اسی سے پیٹ بھریں گے پھر(جب پیاس سے بے قرار ہوکر پانی مانگیں گے تو ان کو کھولتا ہوا پانی،غساق یعنی پیپ میں ) ملاکر دیاجائے گا اور(یہ نہیں کہ اس مصیبت کا خاتمہ ہوجائے ؛بلکہ اس کے بعد)پھر اخیر ٹھکانا ان کا دوزخ ہی کی طرف ہوگا۔(یعنی اس کے بعد بھی وہیں ہمیشہ کے لئے رہنا ہوگا) ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُکَذِّبُونَ ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ ، فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ، فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ ، فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ ، هَذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ ، نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ (الواقعۃ:۵۱،۵۶) (ترجمہ)تم کو اے گمراہو،جھٹلانے والو درخت زقوم سے کھانا ہوگا، پھر اس سے پیٹ بھرنا ہوگا،پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا،پھر پینا بھی پیاسے اونٹوں کا سا(غرض)ان لوگوں کی قیامت کے روز یہ مہمانی ہوگی،ہم نے تم کو(اول بار) پیدا کیا ہے( جس کو تم بھی تسلیم کرتے ہو) تو پھر تم ب اعتبار اس کے نعمت ہونے کے توحید کی اور بااعتبار اس کے دلیل قدرت علی الاعادہ ہونے کے قیامت کی تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاکَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا کَبِيرًا (الاسراء:۶۰) (ترجمہ)اورہم نے (واقعہ معراج میں)جو (بحالت بیداری) آپ کو دکھلایا تھا اورجس درخت کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے۔(یعنی زقوم کی جو طعام کفار ہے ہم نے ان دونوں چیزوں کو)ان لوگوں کے لئے موجب گمراہی کردیا اورہم ان لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی بڑی سرکشی بڑہتی چلی جاتی ہے۔ زقوم کا ایک قطرہ کتنا خطرناک ہے (حدیث)حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے یہ آیت پڑھی: اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (آل عمران:۱۰۲) (ترجمہ)اللہ تعالی سے(ایسا)ڈرا کرو جیسا ڈرنے کا حق ہے(کامل ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شرک و کفر سے بچے ہو اسی طرح تمام گناہوں سے بھی بچا کرو)اور اسلام (کامل)کے (جس کا حاصل وہی ہے جو کامل ڈرنے کا حق تھا) کے علاوہ اورکسی حالت پر جان نہ دینا۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنْ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْيَا لَأَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعَايِشَهُمْ فَکَيْفَ بِمَنْ يَكُونُ طَعَامَهُ (ترمذی،باب ماجاء فی صفۃ شراب اھل النار،حدیث نمبر:۲۵۱۰) (ترجمہ)اگر زقوم کا ایک قطرہ اس دنیا میں گرادیا جائے تو تمام دنیا والوں کی عیش و عشرت تباہ ہوجائے پس جس کا کھانا ہی یہ ہوگا اس کا کیا حال ہوگا؟ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے درخت زقوم کا ذکر فرمایا تو ابو جہل نے کہا محمد ہمیں اس سے ڈراتا ہے(حالانکہ) اے قریشیو کیا تم جانتے ہو جس سے تمہیں محمد ڈراتا ہے وہ درخت زقوم کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں، تو اس نے کہا مدینہ کی عجوہ (کھجور کا نام ہے جو مکھن سے ملی ہوئی ہو) مراد ہے اللہ کی قسم اگر ہم اس کے مالک بن گئے تو اسے ایک ہی لقمہ میں کھاجائیں گے اس پر اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ، طَعَامُ الْأَثِيمِ (الدخان:۴۳،۴۴) وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا کَبِيرًا (الاسراء:۶۰) ان آیات کا ترجمہ پہلے گذرچکا ہےمطلب یہ ہے کہ جیسا ابو جہل کہتا ہے ایسا نہیں ہے؛بلکہ جہنم کا درخت مراد ہے جو دوزخیوں کا طعام بنے گا) درخت زقوم دوزخ کی جڑ سے نکلتا ہے ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہ زقوم کا درخت جہنم کی جڑ(سب سے نچلے طبقہ)سے نکلتا ہے۔ زقوم کی ٹہنیاں ساری دوزخ میں بکھری ہوئی ہیں اورحضرت حسن بصری فرماتے ہیں اس کی جڑ جہنم کے نچلے طبقہ میں ہے اورٹہنیاں جہنم کے تمام طبقات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ (فائدہ)قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ درخت زقوم سے پیٹ بھر کر کھائیں گے تو وہ پیٹ میں ایسے کھولے گا جیسے جلتا پانی کھولتا ہے پھر زقوم کھانے کے بعد انہیں جلتا ہوا پانی پلایا جائے گا جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں، حضرت ابن عباسؓ اورحضرت مجاہد فرماتے ہیں پیاسے اونٹ سے بھی وہ مراد ہے جسے زیادہ پینے کا مرض لگ جاتا ہے جو کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ پانی پیتے پیتے مرجاتا ہے دوزخیوں کی بھی یہی کیفیت ہوگی کہ وہ بھی اس جلتے پانی سے کبھی سیر نہیں ہوں۔ جلتے ہوئے پانی سے کتنے عذاب پہنچیں گے حضرت سعیدؒ بن جبیر فرماتے ہیں جب دوزخیوں کو بھوک لگے گی تو بھوک سے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی زقوم کے درخت سے کی جائے گی جب وہ اسے کھائیں گے تو ان کے چہروں کے چمڑے اترجائیں گے حتی کہ جو کوئی گذرے گا تو ان کے چہروں کے چمڑوں کو دیکھ کر ان کی حالت کو پہچان لے گا جب وہ زقوم کھائیں گے تو ان پر پیاس مسلط کردی جائے گی پھر پیاس کی وجہ سے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی جلتے پانی سے کی جائے گی جب اسے اپنے مونہوں کے قریب لے جائیں گے تو اس کی گرمی ان کے چہروں کو بھون دے گی اوراس کے پینے سے جو کچھ ان کے معدوں میں ہوگا اسے پگھلا دے گی اورلوہے کے ہتھوڑوں کی ضربیں لگائی جائیں گی جن سے ان کا ہر عضو اسی وقت گرجائے گا(پھر دوبارہ لوٹا دیا جائے گا) اور (وہ دوزخ میں) موت کو پکارتے رہیں گے۔ جہنم اورحجیم الگ الگ ہیں (فائدہ)زقوم کھانے کے بعد انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا جبکہ: ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ (الصافات:۶۸) پھر ان کو حجیم کی طرف لوٹا یا جائے گا اورمذکورہ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جلتا ہوا پانی حجیم (جہنم) سے الگ جگہ پر ہے اس کی تائید سورہ رحمن کی آیت نمبر ۴۳ اور۴۴ هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُکَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ ، يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ(یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھٹلاتے تھے وہ لوگ دوزخ کے اور گرم پانی کے درمیان چکر لگاتے رہیں گے(یعنی کبھی آگ کا عذاب ہوگا کبھی کھولتے ہوئے پانی کا)یہ تفسیر حضرت قتادہ اورابن جریج وغیرہ سے منقول ہے۔ حمیم پینے سے گوشت جھڑ جائے گا محمد بن کعب قرظی سے سورہ رحمن کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ حمیم جہنم سے باہر ہے انسان کے سر کے بالوں سے گھسیٹ کر حمیم میں ڈالا جائے گا یہاں تک کہ اس کا تمام گوشت پگھل جائے گا صرف ہڈیاں اور سر میں آنکھیں باقی رہ جائیں گی اوراس کے متعلق اللہ تعالی سورۃمؤمن آیت ۸۲ میں فرماتے ہیں: فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ (ترجمہ)ان کو گھسیٹے ہوئے کھولتے ہوئے پانی میں پہنچائیں گے پھر یہ آگ میں جھوک دئے جائیں گے۔ وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ گلے میں پھنس جانے والا کھانا اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ لَدَيْنَا أَنْکَالًا وَجَحِيمًا ، وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا (المزمل:۱۲،۱۳) (ترجمہ)ہمارے یہاں بیڑیاں اور دوزخ ہے اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور درد ناک عذاب ہے۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ ، لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ (الغاشیۃ:۶،۷) (ترجمہ)اورانہیں سوائے ایک خاردار جھاڑ کے اورکوئی کھانا نصیب نہ ہوگا، جو نہ کھانے والوں کو موٹا کرے گا اور نہ ان کی بھوک مٹائے گا۔ حضرت ابن عباسؓ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ کی تفسیر میں فرماتے ہیں یہ ایک ایسا کانٹا ہے جو حلق کو چمٹ جائے گا نہ نیچے اترے گا نہ باہر نکلے ۔ (حدیث) حضرت ابو درداء فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: أَهْلِ النَّارِ الْجُوعُ فَيَعْدِلُ مَا هُمْ فِيهِ مِنْ الْعَذَابِ فَيَسْتَغِيثُونَ فَيُغَاثُونَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِيعٍ لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ فَيَسْتَغِيثُونَ بِالطَّعَامِ فَيُغَاثُونَ بِطَعَامٍ ذِي غُصَّةٍ فَيَذْكُرُونَ أَنَّهُمْ کَانُوا يُجِيزُونَ الْغَصَصَ فِي الدُّنْيَا بِالشَّرَابِ فَيَسْتَغِيثُونَ بِالشَّرَابِ فَيُرْفَعُ إِلَيْهِمْ الْحَمِيمُ بِکَلَالِيبِ الْحَدِيدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوهِهِمْ شَوَتْ وُجُوهَهُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُونَهُمْ (سنن التر،ماجاءصفۃ اھل النار،حدیث نمبر:۸۳۸۵) (ترجمہ)دوزخیوں پر بھوک کا عذاب مسلط کیا جائے جو ان کے عذاب جہنم کے برابرسخت ہوجائے گا تو وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریادرسی کانٹے دار جھاڑی کے طعام سے کی جائے گی جو نہ تو انہیں موٹا کرے گا اورنہ ان کی بھوک مٹائے گا پھر دوبارہ کھانے کی فریاد کریں گے تو طعام ذی غصہ کے ساتھ ان کی فریاد رسی کی جائے گی تو انہیں یاد آئے گا کہ ہم دنیا میں گلو گیر کھانے کو پانی کے ساتھ نیچے اتارتے تھے تو وہ پانی مانگیں گے تو انہیں لوہے کے کنڈوں میں کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جب وہ پانی ان کے مونہوں کے قریب ہوگا تو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اورجب ان کے پیٹ میں پہنچے گا تو جو کچھ ان کے پیٹ میں ہوگا اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے گا۔ پیپ کا کھانا اللہ تعالی کا فرمان ہے فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ ، وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ ، لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ (الحاقۃ:۳۵) (ترجمہ)اور نہ کوئی کھانے کی چیز اس کو نصیب ہوگی سوائے دوزخیوں کے دھوؤن (پیپ)کے (یعنی بجز ایک ایسی چیز کے جو کراہت وصورت میں مثل غسلین کے ہوگی جس سے زخم دھوئے گئے ہوں مقصود اس سےمرغوب کھانوں کی نفی ہے ورنہ زقوم کی غذاہونا خود آیات سے ثابت ہے غرض ان کا طعام غسلین کا ہوگا) جس کو بجز بڑے گناہگاروں کے کوئی نہ کھائے گا۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں غسلین کا معنی دوزخیوں کی پیپ ہے اور ایک دوسری روایت میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ غسلین وہ خون اور پانی ہے جو دوزخیوں کے گوشت سے بہے گا یہی دوزخیوں کا طعام ہوگا۔ حضرت مقاتلؒ فرماتے ہیں جب پیپ اورخون جسم سے نکلے گا تو دوزخی اس کی طرف اس کو کھانے کے لئے جلدی سے لپکیں گے پہلے اس کے کہ اسے آگ نہ کھا جائے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں غسلین جہنم کے کھانوں میں سے بد ترین کھانا ہوگا۔ یحیی بن سلام کہتے ہیں یہ دوزخیوں کے پیٹ کا دھون ہوگا۔ غسلین کی تپش حضرت کعب فرماتے ہیں اگر غسلین کا ایک ڈول مشرق میں پھینکا جائے تو اس کی تپش سے مغرب میں رہنے والوں کی کھوپڑیاں ابلنے لگیں۔ (ابو نعیم) اپنے گوشت نوچ کر کھائیں گے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ بعض دوزخی اپنے گوشت کو نوچ کر کھائیں گے(ہم اس کا ذکر آئندہ کریں گے ۔(انشاء اللہ) دوزخیوں کے پینے کی چیزیں: کھولتا ہوا پانی اللہ تعالی فرماتے ہیں فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ (الواقعہ:۵۴) (ترجمہ)پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا۔ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ (محمد:۱۵) (ترجمہ)اورکھولتا ہوا پانی ان کو پینے کو دیا جائے گا تو وہ ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے گا۔ لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا ، إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا (نباء:۲۴) (ترجمہ)اس (جہنم) میں نہ تو وہ کسی ٹھنڈک (یعنی راحت) کا مزہ چکھیں گے نہ پینے کی چیز کا(جس سے پیاس بجھے) سوائے گرم پانی اورپیپ کے۔ کھولتا ہوا پانی اورپیپ وغیرہ هَذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ،وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ (ص:۵۷،۵۸) (ترجمہ)یہ کھولتا ہوا پانی اورپیپ (موجود)ہے سو یہ لوگ اس کو چکھیں اور (اس کے علاوہ)اوربھی اس قسم کی(ناگوار اورموجب آزار)طرح طرح کی چیزیں (موجود)ہیں (اس کو بھی چکھیں)۔ تیز گرم پانی کراہت کی وجہ سے حلق سے نہیں اتارا جاسکے گا وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ،يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَکَادُ يُسِيغُهُ (ابراہیم:۱۶،۱۷) (ترجمہ)اوراس کو(دوزخ)میں ایسا پانی پینے کو دیا جاوے گا جو کہ پیپ کے( اور لہو کے مشابہ) ہوگا جس کو(غایت تشنگی کی وجہ سے) گھونٹ گھونٹ کرکے پیے گا اور(غایت حرات اورکراہت کی وجہ سے) گلے سے آسانی کے ساتھ اتارنے کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ پانی چہرے کی کھال اتار دے گا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ کَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (الکہف:۲۹) (ترجمہ)اوراگر(پیاس سے)فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو( مکروہ صورت ہونے میں تو) تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا(اور تیز گرم ایسا ہوگا کہ پاس لاتے ہی) مونہوں کو بھون ڈالے گا(یہاں تک کہ چہرے کی کھال اتر کر گرپڑے گی کیا ہی برا پانی ہوگا اور وہ دوزخ بھی کیا ہی بری جگہ ہوگی۔