انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خروج عبداللہ بن علی منصور کے چچا عبداللہ بن علی کوعبداللہ سفاح نے خراسانی وشامی لشکر کے ساتھ اپنی موت سے پہلے صائفہ کی طرف روانہ کردیا تھا، محروم سنہ۱۳۷ھ میں منصور انبار میں پہنچ کرتخت نشین خلافت ہوا تھا، عیسیٰ بن موسیٰ نے سفاح کی وفات سے عبداللہ بن علی کوبھی اطلاع دی تھی اور لکھا تھا کہ سفاح نے اپنے بعد منصور کی خلافت کے لیے وصیت کی ہے، عبداللہ بن علی نے لوگوں کوجمع کرکے کہا کہ عبداللہ سفاح نے جب مہم حران کے لیے فوج روانہ کرنی چاہی تھی تو کسی کواس طرف جانے کی ہمت نہ ہوئی، سفاح نے کہا تھا جوشخص اس مہم پرجائے گا وہ میرے بعد خلیفہ ہوگا؛ چنانچہ اس مہم پرمیں روانہ ہوا اور میں نے ہی مروان بن محمد اور دوسرے اموی سرداروں کوشکست دے کراس مہم میں کامیابی حاصل کی، سب نے اس کی تصدیق کی اور عبداللہ بن علی کے ہاتھ پربیع کرلی، عبداللہ بن علی نے مقام دلوک سے مراجعت کرکے مقام حران میں مقاتل بن حکیم کا محاصرہ کرلیا، چالیس روز تک محاصرہ کیے رہا، اثناء محاصرہ میں اہلِ خراسان سے مشتبہ ہوکر ان میں سے بہت سے آدمیوں کوقتل کردیا اور حمید بن قحطبہ کووالی حلب مقرر کرکے ایک خط دے کرروانہ کیا جوزفر بن عاصم گورنر حلب کے نام تھا اس خط میں لکھا تھا کہ حمید کوپہنچتے ہی قتل کرڈالنا، حمید نے راستے میں خط کھول کرپڑھ لیا اور بجائے حلب کے عراق کی طرف چل دیا، ادھر منصور جب انبار میں پہنچا ہے توابومسلم بھی وہاں پہلے پہنچ چکا تھا، ابومسلم نے منصور کے ہاتھ پربیعت کی اور منصور نے اس کے ساتھ عزت افزائی اور دلجمعی کا برتاؤ کیا؛ اسی اثناء میں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن علی باغی ہوگیا ہے، منصور نے ابومسلم سے کہا کہ مجھ کوعبداللہ بن علی کی طرف سے بہت خطرہ ہے، ابومسلم توایسے واقعات کا خواہش مند ہی تھا، فوراً ہی آمادہ ہوگیا کہ اس طرح منصور کوبھی براہِ راست احسان مند بنایا جاسکے گا؛ چنانچہ ابومسلم کوعبداللہ بن علی کی سرکوبی پرمامور کیا گیا، ابن قحطبہ جوعبداللہ بن علی سے ناراض عراق کی جانب آرہا تھا وہ ابومسلم سے آملا، عبداللہ بن علی نے مقاتل بن حکیم کوامان دے دی اور مقاتل نے حران عبداللہ بن علی کے سپرد کردیا، عبداللہ بن علی نے مقاتل کومعہ ایک خط کے عثمان بن عبدالاعلیٰ حاکم رقہ کے پاس بھیجا، عثمان نے مقاتل کوپہنتے ہی قتل کردیا اور اس کے دونوں لڑکوں کوگرفتار کرلیا، منصور نے ابومسلم کوروانہ کرنے کے بعد محمد بن صول کوآدربائیجان سے طلب کرکے عبداللہ بن علی کے پاس دھوکا دینے کی غرض سے روانہ کیا، محمد بن صول نے عبداللہ بن علی کے پاس پہنچ کریہ کہا کہ میں نے سفاح سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ میرے بعد میرا جانشین میرا چچا عبداللہ ہوگا، عبداللہ بن علی بولا توجھوٹا ہے میں تیرے فریب کوخوب سمجھ گیا ہوں یہ کہہ کراُس کی گردن اُڑادی۔ اس کے بعد عبداللہ بن علی نے حران سے روانہ ہوکرنصیبین میں آکر قیام کیا اور خندق کھود کرمورچے قائم کیے، منصور نے ابومسلم کوروانہ کرنے سے پہلے حسن بن قحطبہ والی آرمینیا کوبھی لکھ دیا تھا کہ آکرابومسلم کی شرکت اختیار کرے؛ چنانچہ حسن بن قحطبہ بھی موصل کے مقام پرابومسلم سے آملا تھا، ابومسلم معہ اپنے لشکر کے جب نصیبین کے قریب پہنچا تونصیبین کا رُخ چھوڑ کرشام کے راستے پرپڑاؤ ڈالا اور یہ مشہور کیاکہ مجھ کوعبداللہ بن علی سے کوئی واسطہ نہیں میں توشام کی گورنری پرمامور کیا گیا ہوں، شام کوجارہا ہوں، عبداللہ بن علی کے ہمراہ جوشامی لوگ تھےوہ یہ سن کرگھبرائے اور انہوں نے عبداللہ بن علی سے کہا کہ ہمارے اہل وعیال ابومسلم کے پنجۂ ظلم میں گرفتار ہوجائیں گے، بہتریہ ہے کہ ہم اس کوشام کی طرف جانے سے روکیں، عبداللہ بن علی نے ہرچند سمجھایا کہ وہ ہمارے ہی مقابلہ کوآیا ہے، شام میں نہ جائے گا؛ لیکن کوئی نہ مانا، آخرعبداللہ بن علی نے اس مقام سے کوچ کیا، جب عبداللہ بن علی اس مقام کوچھوڑ کرشام کی طرف روانہ ہوا توابومسلم فوراً عبداللہ بن علی کی بہترین لشکرگاہ میں آکرمقیم ہوگیا اور عبداللہ بن علی کولوٹ کراس مقام پرقیام کرنا پڑا، جس میں ابومسلم پہلے مقیم تھا، اس طرح ابومسلم نے بہترین لشکرگاہ حاصل کرلی، اب دونوں لشکروں میں لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا کئی مہینے تک لڑائی ہوتی رہی، آخر۷/جمادی الثانی، یوم چہارشنبہ سنہ۱۳۷ھ کوعبداللہ بن علی نے شکست کھائی اور ابومسلم نے فتح پاکر فتح کا بشارت نامہ منصور کے پاس بھیجا، عبداللہ بن علی نے اس میدان سے فرار ہوکر اپنے بھائی سلیمان بن علی کے پاس جاکربصرہ میں پناہ لی اور ایک مدت تک وہاں چھپا رہا۔