انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث میں قرآن بحیثیت منبع ہدایت ہے حدیث کے لٹریچر میں جگہ جگہ قرآن کی طرف متوجہ کیا گیا ہے عام محدثین قرآن کریم کو ہمیشہ سے منبع ہدایت تسلیم کرتے آئے ہیں،المصنف لا بن ابی شیبہؒ میں ہے۔ (۱)حضرت زید بن ارقم آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں،حضورﷺ نے فرمایا: "فيكم كتاب الله هو حبل الله من أتبعه كان على الهدى ومن تركه كان على الضلالة"۔ (کنز العمال:۱/۱۸۵) ترجمہ: میں تم میں کتاب اللہ چھوڑے جارہا ہوں، یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے،جس نے اس کی پیروی کی ہدایت پر رہا اورجس نے اسے چھوڑدیا وہ گمراہی پر ہے۔ (۲)حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: "وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ"۔ (مسلم،باب حجۃ النبیﷺ ،حدیث نمبر:۲۱۳۷) ترجمہ:اور میں نے وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (۳)حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے پوچھا گیا کہ حضورﷺ نے کسی کے لیے کوئی وصیت فرمائی؟ آپ نے کہا نہیں، اس نے کہا ہمیں تو آپﷺ نے وصیت کرنے کا حکم دیا اورخود کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ اس پر حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ نے کہا:"أوصى بكتاب الله عز وجل"۔ (مسند الطیالسی، باب ھل اوصی رسول اللہﷺ :۲/۴۰۱) ترجمہ:آپ نے قرآن کریم کو لازم پکڑنے کی وصیت فرمائی ہے۔ (۴)حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم حجۃ الوداع میں حضورﷺ کے ساتھ تھے،آپﷺ نے فرمایا: "أليس تشهدون أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وأن القرآن جاء من عند اللہ"۔ (المعجم الکبیر،باب حذیفۃ بن الیمان یکنی اباعبد،حدیث نمبر:۳۰۵۲) ترجمہ: کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ ایک خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور یہ کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ ہم نے عرض کی کیوں نہیں؟ اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "فأبشروا فإن هذا القرآن طرفه بيد الله وطرفه بأيديكم فتمسكوا به فإنكم لن تهلكوا ولن تضلوا بعده أبدا"۔ (الترغیب والترھیب،باب قال اخلص دینک یکفک العمل القلیل:۱/۴۱) ترجمہ:تمھیں بشارت ہوکہ اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں،اسے مضبوطی سے پکڑے رہنا؛ کیونکہ تم اس کے ہوتےہوئے کبھی ہلاک اورگمراہ نہیں ہوسکتے۔ (رواہ البزار کما فی الترغیب والترہیب للمنذری،صحیح ابن حبان:۲۸۶،مطبوعہ: مصر، ورواہ الطبرانی فی الکبیر کما فی مجمع الزوائد:۱۲۹،ان تمام روایات میں قرآن کریم پر اقتصار کیا گیا ہے کہ وہ اطاعت رسول کی دعوت دیتے ہوئے عمل بالسنۃ کو بھی شامل ہے، کما فی بذل المجہود:۳/۱۵۵) اس قسم کی احادیث کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حدیث دراصل قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش تھی جس کا مقصد لوگوں کو قرآن سے ہٹانا اوراحادیث کے گرد لانا تھا؟ کیا ان احادیث میں صریح طورپر قرآن کریم کو منبع ہدایت کے طورپر نہیں مانا گیا؟ کچھ تو سوچئے اورانصاف سے کام لیجئے۔