انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یزید اورابن زبیرؓ میں مخالفت ابن زبیرؓ اپنے ورود مکہ سے لے کر حضرت حسینؓ کی شہادت تک سکون و اطمینان کے ساتھ حرم کی پناہ میں بیٹھے رہے،کیونکہ اس درمیان میں شامی حکومت حضرت حسین ؓ کی طرف متوجہ تھی، آپ کی شہادت کے بعد جب یزید کو حضرت حسینؓ سے فراغت ملی، تو اس نے چند آدمیوں کو ابن زبیرؓ سے بیعت لینےکے لئے مکہ بھیجا، ابن زبیرؓ نے انہیں یہ جواب دیا کہ میں یزید کی کسی بات کا جواب نہ دوں گا، میں باغی نہیں ہوں،لیکن اپنے کو دوسرے کے قبضہ میں بھی نہ دوں گا، ان لوگوں نے یہ جواب جاکر یزید کو سنادیا، لیکن یزید کسی ایسے شخص کو جس کی جانب سے اس کی حکومت کو خطرہ ہوسکتا تھا،بغیر قابو میں لائے چھوڑنے والا نہ تھا، خصوصاً ابن زبیرؓ کے بارہ میں تو امیر معاویہؓ کی وصیت موجود تھی اس لئے اس نے دوبارہ معززین شام کا ایک وفد بھیجا، حضرت حسینؓ کی شہادت میں اسے اپنی غفلت کا نہایت تلخ تجربہ ہوچکا تھا، اس لئے اس مرتبہ ارکان وفد کو بہ تصریح ہدایت کردی کہ بلا ظلم و تعدی سمجھا بجھا کر کسی طرح ابن زبیرؓ سے بیعت لینے کی کوشش کرنا؛چنانچہ ان لوگوں نے حرم میں جاکر ابن زبیرؓ سے بیعت کا مطالبہ کیا ،ابن زبیرؓ نے اس وفد کے ایک رکن ابن عضاہ سے کہا کیا تم حرم میں خون بہانا پسند کروگے؟ اس نے جواب دیا، اگر تم بیعت نہ کرو گے تو اس میں بھی دریغ نہ کروں گا، ابن زبیرؓ نے حرم کے ایک کبوتر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس مقام پر تو اس پرندہ کا خون بھی حرام ہے،ا بن عضاہ نے تیر کمان میں جوڑ کر کبوتر کے سامنے کرکے اس سے خطاب کیا کہ تو امیر المومنین کے حکم سے سر تابی کرے گا؟ پھر ابن زبیرؓ سے کہا اگر یہ کبوتر اس استفسار پر ہاں کہتا، تو خاک و خون میں تڑپتا نظر آتا، ابن عضاہ کا یہ جواب سن کر ابن زبیرؓ اس وفد کے ایک دوسرے رکن نعمان بن بشیر کو تخلیہ میں لے گئے اوران کے سامنے اپنا اوریزید کا موازنہ کیا، نعمان نے کہا مجھ کو آپ کے تمام فضائل کا اعتراف ہے،یہ اقرار کرانے کے بعد کہا کیا اس کے بعد بھی تم مجھ کو یزید کی بیعت کا مشورہ دو گے؟ نعمان نے کہا،اگر آپ میری ذاتی رائے پوچھتے ہیں تو میں کبھی آپ کو مشورہ نہ دوں گا اورنہ آیندہ اس مقصد کے لئے آپ کے پاس آؤں گا، اس گفتگو کے بعد شامی وفد ناکام واپس چلا گیا اوریزید کے سامنے بیان دیا کہ ابن زبیرؓ بیعت کے لئے آمادہ نہیں ہیں، مسلم بن عقبہ مری نے نعمان کی شکایت کی کہ انہوں نے ابن زبیرؓ سے تخلیہ میں گفتگو کی تھی اور اس گفتگو کے بعد وہ بغیر اپنا کام پورا کئے ہوئے لوٹ آئے۔