انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علمی خدمات علمِ تفسیر قرآن مجید ایک ایسی مقدس اور ایک ایسی بزرگ ترین کتاب ہے کہ اگراس کی ایک آیت بھی کسی کی شان میں نازل ہوجائے تووہ اس کے شرف کے لیے کافی ہے؛ چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کے متعلق قرآن مجید کی جوآیت نازل ہوئی تھی اس پروہ فخر کیا کرتی تھیں، ایک سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک ہارگم ہوگیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاش میں چند صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھیجا وہ اس کی تلاش میں نکلے توراستے میں نماز کا وقت ہوگیا اور لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی واپس آئے توآپ سے اس کی شکایت کی اس پرآیتِ تیمم نازل ہوئی، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اس کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بڑی فضیلت سمجھا اور ان کی طرف مخاطب ہوکر کہا: جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا فَوَاللَّهِ مَانَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ إِلَّاجَعَلَ اللَّهُ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا وَجَعَلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةً۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۳۴۸۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:خداتم کوجزائے خیر دے تم کوکوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا جس سے خدا نے تمہارے نکلنے کا راستہ نہیں بتایا اور مسلمانوں کے لیے وہ ایک برکت بن گیا۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بی بی حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تھی: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ۔ (المجادلۃ:۱) ترجمہ:خدا نے اُس عورت کی بات سن لی جوتم سے جھگڑتی تھی۔ اور اُس نے اُن کے رتبے کواس قدر بلند کردیا تھا کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد سے آرہے تھے راہ میں اُن سے ملاقات ہوگئی اور انہوں نے اُن کوسلام کیا، بولیں اے عمر رضی اللہ عنہ! میں نے تمہارا وہ زمانہ دیکھا ہے جب تم کولوگ بازار عکاظ میں عمر کہتے تھے اور اب توتمہارا لقب امیرالمؤمنین ہے؛ پس رعایا کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور یقین کرو کہ جوشحص عذاب الہٰی سے ڈرے گا اس پربعید قریب ہوجائے گا اور جوموت سے ڈرےگا اس کوفوت ہوجانے کا خوف لگارہے گا، ایک شخص جوساتھ میں تھے بولے بی بی تم نے توامیرالمؤمنین کوبہت کچھ کہہ ڈالا؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جانے دو یہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا ہیں اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بی بی ہیں اللہ تعالیٰ نے سات آسمان کے اوپر سے ان کی بات سن لی تھی؛ پھرعمر رضی اللہ عنہ کوتواور سننا چاہیے۔ (اصابہ، تذکرہ خولہ) لیکن جس کتاب کی ایک آیت بھی انسانی شرف وعزت کے لیے کافی ہے اس کا ایک خاص حصہ صحابیات کے متعلق نازل ہوا ہے یعنی ایک مستقل سوۂ (نساء) خاص طور پرصحابیات کے احکام ومعاملات کے متعلق نازل ہوئی ہے، سورۂ نور کی متعدد آیتیں بھی انہی کے ساتھ محصوص ہیں، ان کے علاوہ اور بھی متعدد آیتیں ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں اس بناپر اگرچہ ان آیتوں اور ان سورتوں کی شانِ نزول اور ان کی تفسیر سے اکثرصحابیات کوتعلق ہے تاہم عام طور پر تفسیر کے جومعنی سمجھے جاتے ہیں اور جس معنی کے روسے ایک شخص مفسر کہا جاسکتا ہے اس کے لحاظ سے تمام صحابیات میں صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا علم تفسیر میں اکابر صحابہ کی ہمسر ہیں اور انہوں نے نہایت دقیق آیتوں کی تفسیریں کی ہیں ان سے احادیث کی کتابوں میں جوتفسیری روایتیں مذکور ہیں ان کی دوقسمیں ہیں ایک وہ آیتیں ہیں جن کے متعلق ان کے دل میں کوئی بات کھٹکی ہے اور انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار فرمایا ہے اور آپ نے ان کی تفسیر کی ہے (ماخوذ از سیرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں اِن تفسیروں کے حوالے بھی موجود ہیں) مثلاً ایک دفعہ آپ نے بیان فرمایا کہ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ (بخاری، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ سَمِعَ شَيْئًا فَلَمْ يَفْهَمْهُ فَرَاجَعَ فِيهِ حَتَّى يَعْرِفَهُ،حدیث نمبر:۱۰۰، شاملہ، موقع الإسلام) قیامت میں جس کا حساب ہوا اس پرعذاب ہوگیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یارسول اللہ خدا توفرماتا ہے: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا۔ ترجمہ: اور اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ (الإنشقاق:۸) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اعمال کی پیشی ہے؛ لیکن جس کے اعمال میں جرح قدح شروع ہوئی وہ برباد ہی ہوا۔ ایک دفعہ انہوں نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ فرماتا ہے: يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۔ (ابراہیم:۴۸) ترجمہ:جس دن زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دیا جائے گا اور تمام مخلوق خدائے واحد قہار کے روبرو ہوجائے گی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ آیت پڑھی: وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ۔ (الزمر:۶۷) ترجمہ:تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے ہاتھ میں لپٹے ہونگے۔ لیکن جب زمین وآسمان کچھ نہ ہوگا تولوگ کہاں ہونگے آپ نے فرمایا صراط پر، قرآن مجید کی ایک آیت ہے: وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَاآتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ۔ (المؤمنون:۶۰) ترجمہ:جولوگ جوکام کرتے ہیں خوفزدہ دل سے کرتے ہیں، وہ اپنے خداکی طرف رجوع کریں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوشک تھا کہ جوچور ہے، بدکار ہے، شرابی ہے؛ لیکن خدا سے ڈرتا ہے، کیا وہ بھی اس سے مراد ہے، آپ نے فرمایا نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے وہ مراد ہے جونمازی ہے، روزہ دار ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھرخدا سے ڈرتا ہے، دوسری وہ آیتیں ہیں جن کے متعلق دوسروں کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کے متعلق سوال کیا ہے جس کا انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ ازالہ کیا ہے، مثلاً: (۱)إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِاعْتَمَرَ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا۔ (البقرۃ:۱۵۸) ترجمہ: صفا اور مروہ کی پہاڑیاں شعائر الہٰی میں سے ہیں؛ پس جوخانہ کعبہ کا حج یاعمرہ کرے کچھ مضائقہ نہیں اگروہ ان کا بھی طواف کرے۔ عروہ نے کہا: خالہ جان!اس کے تویہ معنی ہوئے کہ اگرکوئی طواف نہ کرے توبھی کچھ حرج نہیں، فرمایا: بھانجے! تم نے ٹھیک نہیں کہا: اگرآیت کامطلب وہ ہوتا جوتم سمجھے ہو توخدایوں فرماتا لاجناح ان لایطوف بہا اگران کا طواف نہ کرو توکچھ ہرج نہیں، اصل میں یہ آیت انصار کی شان میں نازل ہوئی ہے، اوس وخزرج اسلام سے پہلے منات کی جے پکارا کرتے تھے، منات مشلل میں نصب تھا اس لیے صفا اور مروہ کے طواف کووہ برا جانتے تھے، اسلام لائے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے، اب کیا حکم ہے، اُس پرخدا نے ارشاد فرمایا کہ صفا اور مروہ کا طواف کرو اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ ابوبکر بن عبدالرحمن ایک محدث تھے ان کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ تقریر معلوم ہوئی توانہوں نےکہا: علم اس کوکہتے ہیں، قرآن مجید کی ایک آیت ہے: (۲)حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا۔ (یوسف:۱۱۰) ترجمہ:یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور ان کوخیال ہوا کہ وہ جھوٹ بولے گئے توہماری مدد آگئی۔ عروہ نے پوچھا كُذِبُوا (جھوٹ بولے گئے) یعنی اس سے جھوٹ وعدہ کیا گیا یا كُذِبُوا (وہ جھٹلائے گئے) فرمایا: كُذِبُوا (جھٹلائے گئے) عروہ نے کہا: اس کا توان کویقین ہی تھا کہ وہ جھٹلائے گئے اور ان کی قوم نے ان کی نبوت کی تکذیب کی، یہ ظن اور خیال تونہ تھا اس لیے كُذِبُوا (ان سے جھوٹ وعدہ کیا گیا) صحیح ہے، بولیں معاذ اللہ! پیغمبران الہٰی خدا کی نسبت یہ گمان نہیں کرسکتے کہ اس نے ان سے امداد ونصرت کا جھوٹ وعدہ کیا، عروہ نے پوچھا: پھرآیت کا مطلب کیا ہے، فرمایا کہ یہ پیغمبروں کے پیرؤں کے متعلق ہے کہ جب انہوں نے ایمان قبول کیا اور نبوت کی تصدیق کی اور ان کی قوم نے ان کوستایا اور مدد الہٰی میں ان کوتاخیر نظر آئی یہاں تک کہ پیغمبر اپنی قوم کے منکرین ایمان سے ناامید ہوگئے توان کوخیال ہوا کہ شائد اس تاخیر کے سبب سے مؤمنین بھی ہماری تکذیب نہ کردیں کہ دفعۃً خدا کی مدد آگئی۔ جس آیتِ پاک میں چار بیویوں تک کی اجازت دی گئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: (۳)وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّاتُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَاطَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ۔ (النساء:۳) ترجمہ:اگرتمہیں ڈرہو کہ یتیموں کے بارے میں تم انصاف نہ کرسکوگے توعورتوں میں سے دو،دو، تین، تین، چار،چار سے نکاح کرلو۔ بظاہر آیت کے پہلے اور پچھلے ٹکڑوں میں ربط نہیں معلوم ہوتا، یتیموں کے حقوق میں عدم انصاف اور چار نکاح کی اجازت میں باہم کیا تعلق ہے؛ چنانچہ ایک شاگرد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس اشکال کوپیش کیا توفرمایا کہ آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بعض لوگ یتیم لڑکیوں کے ولی ہوجاتے ہیں، اُن سے موروثی رشتہ داری ہوتی ہے وہ اپنی ولایت کے زور سے چاہتے ہیں کہ ان سے نکاح کرکے ان کی جائداد پرقبضہ کرلیں اور چونکہ ان کی طرف سے کوئی بولنے والا نہیں ہوتا اس لیے مجبور پاکر اس کوہرطرح دباتے ہیں، خدائے پاک انہی لوگوں کوخطاب کرتا ہے کہ اگرتم ان یتیم لڑکیوں کے معاملے میں انصاف سے پیش نہ آسکو توان کے علاوہ اور عورتوں سے دو، تین، چار، نکاح کرلو؛ مگران کونکاح کرکے اپنے قابو میں نہ لے آؤ۔ (۴)وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَايُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَاتُؤْتُونَهُنَّ مَاكُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ۔ (النساء:۱۲۷) ترجمہ:ان لڑکیوں کی نسبت لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہدے کہ خدا ان کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اس کتاب میں (قرآن) جوکچھ تم لوگوں کو پڑھ کرسنایا گیا ہے ان یتیم لڑکیوں کی نسبت جن کونہ توتم ان کے مقررہ حقوق دیتے ہو اور نہ خود ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو۔ اسی سائل نے اس کے بعد اس آیت کا مطلب دریافت فرمایا کہ اس آیت میں یہ جوارشاد ہوا ہے کہ قرآن میں پہلے جوکچھ ان کے بارے میں پڑھ کرسنایا گیا ہے اس سے وہی آیت مراد ہے، یہ حکم ان اولیا سے متعلق ہے جویتیم لڑکیوں کونہ خود اپنے نکاح میں لاتے ہیں کہ وہ حسن سے محروم ہیں اور نہ دوسروں سے ان کا نکاح کردینا پسند کرتے کہ جائداد مشترکہ کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف ہے۔ اس آیت کے مطلب میں لوگوں کواختلاف ہے: (۵)وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ۔ (النساء:۶) ترجمہ:جوتونگر ہو اس کواس سے بچنا چاہیے اور جوتنگدست ہووہ قاعدے کے مطابق اس سے لے لے۔ یہ آیت اولیائے یتامیٰ کی شان میں ہے کہ اگرمحتاج ہوں تویتیموں کے مال میں سے لے کرکھاسکتے ہیں؛ لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت حسب ذیل آیت سے منسوخ ہے: إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا۔ (النساء:۱۰) ترجمہ: جولوگ ظلم کرکے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگے کھاتے ہیں۔ لیکن اس آیت میں تویہ سزا ان لوگوں کے لیے بیان کی گئی ہے جوظلم کرکے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس آیت میں کھانے کی اجازت ہے، وہ ان لوگوں کے لیے ہے جویتیموں کی جائداد کی دیکھ بھال کرتے ہیں ان کا کاروبار سنبھالتے ہیں؛ اگرولی صاحب استطاعت ہے تواس کواس خدمت کا معاوضہ نہ لینا چائیےاور اگر وہ مفلس اور تنگ دست ہے توقاعدے کے مطابق حسب حیثیت لے سکتا ہے، اس تفسیر کی بناپر دونوں آیتوں میں کوئی تحائف نہیں ہے۔ عورت کواگراپنے شوہر سے شکایت ہوتو اس موقع کی آیت ہے: (۶)وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْإِعْرَاضًا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ۔ (النساء:۱۲۸) ترجمہ:اگرکسی عورت کواپنے شوہر کی طرف سے نارضامندی اور اعراض کا خوف ہوتواس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں صلح کرلیں اور صلح توہرحال میں بہتر ہے۔ لیکن دفعِ ناراضی کے لیے صلح کرنا توایک عام بات ہے اس کے لیے خدائے پاک کواس حکم کے نازل کرنے کی کیا حاجت تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت اُس عورت کی شان میں ہے جس کا شوہر اس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں یابیوی سن سے اترگئی ہے اور شوہر کی خدمت گذاری کے قابل نہیں رہی ہے، زن وشوئی کے باہمی فرائض انجام دینا ایک فرض دینی ہے؛ لیکن اس خاص حالت میں اگربیوی طلاق لینا پسند نہ کرے اور اپنے عام حقوق سے شوہر کوسبکدوش کردے تویہ باہمی مصالحت بری نہیں؛ بلکہ قطعی علیحدگی سے بہتر ہے۔ ان آیات کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور آیتوں کی تفسیریں بھی مروی ہیں؛ لیکن ہم نے جن آیتوں کی تفسیریں درج کی ہیں ان سے وقت نظری کے علاوہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جوآیتیں عورتوں کے نکاح وطلاق کے معاملات سے تعلق رکھتی ہیں ان کا مطلب انہوں نے کس قدر صحیح سمجھا ہے اور کس طرح ان کویاد رکھا ہے اور سچ تویہ ہے کہ اگرعورتیں اپنے حقوق کا تحفظ کرنا چاہتی ہیں توان کوقرآن وحدیث کی صحیح تعلیم کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہیے۔