انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت علیؓ کی خلافت صرف عراق وایران تک اسی طرح بُسر بن ارطاط کو حجاز ویمن کی طرف روانہ کیا،اہل مدینہ نے امیر معاویہؓ کی بیعت اختیار کی،اس کے بعد اہلِ مکہ اوراہلِ یمن نے بھی امیر معاویہؓ کی بیعت کرلی اور عبید اللہ بن عباس کو یمن کے دار السلطنت صنعاء سے نکال دیا، غرض ۴۰ ھ کے ابتدا میں امیر معاویہؓ کی حکومت یمن،حجاز،شام،فلسطین،مصر وغیرہ ممالک پر قائم ہوچکی تھی اور ان مقبوضہ ممالک کی حکومت میں کسی قسم کی کمزوری و اضمحلال کے آثار بھی نہیں پائے جاتے تھے نہ کسی بغاوت اوراندرونی مخالفت کا اُن کو اندیشہ تھا مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ دونوں شہروں کو غیر جانب دار اورآزاد چھوڑدیا گیا تھا،یعنی ان شہروں میں نہ حضرت علیؓ کی حکومت تھی نہ امیر معاویہؓ کی اور اس پر دونوں حضرات رضا مند ہوگئے تھے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکومت عراق وایران پر قائم تھی، مگر عراق میں عربی قبائل کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو اُن کی حکومت کے ساتھ دلی ہمدردی نہ رکھتے تھے،اسی طرح ایران میں بھی سازشوں اور بغاوتوں کا سلسلہ جاری تھا ایران کے مجوسی لوگ اپنی گئی ہوئی سلطنت کے دوبارہ قائم کرلینے کے خواب ابھی تک دیکھ رہے تھے اورکسی موقع کو فوت نہ ہونے دیتےتھے کوفہ اوربصرہ جو دو مرکزی شہر سمجھے جاتے تھے خود ان میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کو حضرت علیؓ کے خلاف امیر معاویہؓ سے ہمدردی تھی،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی شجاعت اوربلند ہمتی سے سب کچھ کرنا چاہتے اوراپنی خلافت کو تمام عالمِ اسلامی کی ایک ہی شہنشاہی قائم کرنے کے خواہش مند تھے،لیکن ان کے ساتھیوں کی طرف سے عموماً پست ہمتی اور نا فرمانی کا اظہار ہوتا تھا، جس کی وجہ سے وہ مجبور تھے،حضرت علیؓ کے لشکر میں عجمی لوگ زیادہ تھے اور امیر معاویہؓ کی فوج میں عربی لوگوں کی کثرت تھی،حجاز ویمن کی حکومت قبضہ میں آجانے سے امیر معاویہؓ کی حیثیت واہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی،تاہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات حیثیت وشجاعت اوراُن کی بزرگی وعظمت اس قدر بلند پایہ تھی کہ امیر معاویہؓ اُن کی ہمسری کے دھوکے میں آپنے آپ کو کمزور پاتے اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہمیشہ خائف رہتے تھے۔