انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہجرت سے فتح مکہ تک تہیہ سفر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم مل گیا تو آپ ٹھیک دوپہر کے وقت جبکہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں موسم گرما کی دھوپ اور لو سے پناہ لینے کے لئے پوشیدہ ہوتے اور راستے آنے جانے والوں سے خالی ہوتے ہیں،حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر پہنچے؛چونکہ خلافِ معمول دوپہر کے وقت تشریف لے گئے،لہذا حضرت ابوبکرصدیقؓ کو فوراً شبہ ہوا کہ ضرور ہجرت کا حکم نازل ہوگیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول یہ دریافت فرمایا کہ گھر میں کوئی غیر آدمی تو نہیں ہے،جب اطمینان ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ اوران کی دونوں بیٹیوں اسماءؓ وعائشہؓ کے سوا اورکوئی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کا حکم نازل ہوگیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دریافت کیا کہ رفیق سفر کون ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے رفیقِ سفر ہوگے،یہ سُن کر جوشِ مسرت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے،انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہ!میں نے دو اونٹنیاں پہلے ہی خرید کر اور خوب کھلا پلا کر موٹی تازی کر رکھی ہیں، ان میں سے ایک آپ کی نذر کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس اونٹنی کو قیمتاً لوں گا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت ادا فرمائی اورحضرت ابوبکرؓ کو وہ قیمت لینی پڑی،اُسی وقت سے ہجرت کی تیاری شروع ہوگئی حضرت اسماءؓ بنت ابوبکرؓ نے ستو کے تھیلے اورکھانے وغیرہ کا سامان درست کیا، حضرت عائشہؓ کی عُمر اس وقت چھوٹی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی وقت حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع دے کر اپنے مکان پر واپس تشریف لے آئے،اب جو آنے والی رات تھی اُسی رات میں مشرکوں کا ارادہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گزشتہ شب کی قرارداد کے موافق قتل کیا جائے؛چنانچہ انہوں نے شام ہی سے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا محاصرہ کرلیا اوراس انتظار میں رہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نماز پڑھنے کے ارادہ سے باہر نکلیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یک لخت حملہ آور ہوں گے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الہی کے موافق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر سلادیا اوراپنی چادر اُن پر ڈال دی،امانتیں جو اہل مکہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں وہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کرکے سمجھا دیا کہ صبح اُٹھ کر یہ امانتیں ان کے مالکوں کے پاس پہنچادینا، اس کے بعد تم بھی مدینہ کی طرف آجانا،یہ سب کام کرکے رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے،اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ یسین کی ابتدائی آیات ‘فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ’تک پڑھ کر ایک مٹھی خاک پر دم کرکے اُن کفار کی طرف پھینک دی اورصاف نکلے ہوئے چلے آئے،کفار میں سے کسی کو بھی نظر نہ آئے:‘ وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں اونٹنیاں عبداللہ بن اریقط کو جوکافر مگر بھروسہ کا آدمی تھا سپرد کردی تھیں اور معقول اجرت بھی مدینہ بھر کی رہبری کے لئے ٹھہرالی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان سے نکل کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر تشریف لائے ،حضرت ابوبکرؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے،اُسی وقت دونوں روانہ ہوگئے اورمکہ کی نشیبی سمت چار میل کے فاصلہ پر کوہ ثور کے ایک غار میں جو غارِ ثور کے نام سے مشہور ہے چھپ کر بیٹھ رہے،ادھر مکہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ رات بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر استراحت فرماتے رہے،کفارِ مکہ بھی رات بھر مکان کا محاصرہ کئے ہوئے کھڑے رہے اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بستر پر سوتا ہوا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گمان کرتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُٹھ کر باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے رہے،جب نمازِ فجر کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ خواب سے بیدار ہوکر اُٹھے تو کفار نے پوچھا کہ محمد کہاں ہیں؟حضرت علیؓ نے کہا کہ مجھ کو کیا خبر، خبر تو تم کو ہونی چاہئے کہ تم پہرے پر تھے،میں تو رات بھر سوتا رہا ہوں، کفار نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو پکڑ لیا ،ان کو مارا اورتھوڑی دیر تک گرفتار رکھا پھر چھوڑدیا،حضرت علیؓ نے اطمینان سے تمام امانتیں اُن کے مالکوں کو پہنچائیں۔ اس جگہ یہ بات خاص طور پر توجہ کے قابل ہے کہ کفار آپ کی جان کے درپے تھے،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت وامانت پر ان کو اس قدر اعتماد تھا کہ اپنی قیمتی چیزیں،زیورات،چاندی،سونا،سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس امانت رکھ جاتے تھے،آپ نے مکہ سے رخصت ہوتے وقت بھی امانت داری کو اس احتیاط سے ملحوظ رکھا کہ اپنے چچازاد بھائی کو جو بیٹے کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس رہتے تھے،صرف اس لئے چھوڑ گئے کہ امانتیں اُن کے مالکوں کے پاس بہ احتیاط تمام پہنچ جائیں۔ کفار حضرت علیؓ کو چھوڑ کر سیدھے حضرت ابوبکرؓ کے گھر پہنچے،دروازے پر آواز دی،حضرت اسماءؓ بنت ابی بکرؓ باہر نکلیں،ابو جہل نے پوچھا: لڑکی! تیرا باپ کہاں ہے؟ بولیں،مجھے خبر نہیں،یہ سُن کر اُس نے اس زور سے طمانچہ مارا کہ خصرت اسماءؓ کے کان کی بالی نیچے گر گئی،اس کے بعد کفار تمام مکہ اوراُس کے اطراف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش وجستجو میں دوڑے دوڑے پھرنے لگے،کہیں کوئی پتہ نہ چلا،بالآخر انہوں نے اعلان کیا کہ جو کوئی محمد کو زندہ یا مُردہ گرفتار کرکے لائے گا اُس کو سو اونٹ انعام دیئے جائیں گے،اس انعامی اشتہار کو سُن کر بہت سے لوگ مکہ کے چاروں طرف دُور دور تک نکل پڑے۔