انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محاصرہ مکہ عبدالملک بن مروان نے سردارانِ شام کومکہ معظمہ پرحملہ کرنے کے لیے آمادہ کرنا چاہا؛ مگرسب نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلے پرجانے اور خانہ کعبہ کو رزم گاہ بنانے سے انکار کیا، عبدالملک بن مروان دمشق سے کوفہ گیا، وہاں اس نے حجاج بن یوسف ثقفی کواس کام پرآمادہ کیا، حجاج تین ہزار آدمی ہمراہ لے کرجمادی الاوّل سنہ۷۲ھ میں کوفہ سے روانہ ہوا اور مدینہ منورہ کوچھوڑتا ہوا عبدالملک کی ہدایت کے موافق طائف میں پہنچ کرقیام کیا؛ یہاں سے وہ اپنے سواروں کوعرفہ کی طرف روانہ کرتا اور وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے سواروں سے لڑبھڑکرواپس آجاتے، کئی مہینے اسی حالت میں گذرگئے، توحجاج نے عبدالملک کولکھا کہ میری امداد کے لیے کچھ فوج اور بھیجی جائے؛ نیز مجھ کواجازت دی جائے کہ آگے بڑھ کرمکہ کا محاصرہ کرلوں۔ عبدالملک نے حجاج کی درخواست کومنطور کرکے پانچ ہزار آدمی اس کی امداد کے لیے اور روانہ کردیئے اور طارق کولکھا کہ مدینہ منورہ پرحملہ کرو اور مدینہ سے فارغ ہوکرمکہ کی طرف جاؤ اور حجاج کی مدد کرو، حجاج نے ماہِ رمضان المبارک میں مکہ معظمہ کا محاصرہ کرلیا اور کوہِ ابوقبیس پرمنجنیق لگاکر سنگ باری شروع کردی، اہلِ مکہ کے لیے یہ رمضان کا مہینہ اس سنگ باری کے عالم میں بڑی مصیبت کا مہینہ تھا، لوگ محاصرہ کی شدت سے تنگ آکر مکہ سے نکل نکل کربھاگنا شروع ہوئے، رمضان وشوال کے بعد ذیقعدہ کا مہینہ بھی آگیا اور اہلِ مکہ کی مصیبت اور محاصرہ کی شدت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ روزانہ مقابلہ پرجاتے اور محاصرین کوپسپا کرنے کی کوششیں عمل میں لاتے؛ لیکن روزانہ ان کے ساتھیوں کی تعداد کم ہورہی تھی، اس لیے ان کی تدابیر کوئی ایسا نتیجہ پیدا نہ کرسکیں، جس سے کامیابی کی اُمید ہوتی۔ اہلِ مکہ ایک طرف مکہ سے باہر نکلے چلے جارہے تھے، دوسری طرف سامان خوردونوش کی نایابی وگرانی نے محصورین کے حوصلوں کوپست کررکھا تھا، ماہ ذیقعدہ سنہ۷۲ھ میں طارق نے مدینہ منورہ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے عامل طلحۃ النداء کونکال دیا اور ایک شامی کومدینہ کا حاکم مقرر کرکے خود مکہ معظمہ کی طرف پانچ ہزار فوج کے ساتھ روانہ ہوا، اس زبردست امداد کے پہنچنے پرحجاج کی طاقت بہت زیادہ بڑھ گئی اور اہلِ مکہ کی رہی سہی اُمیدیں بھی منقطع ہوگئیں؛ اسی حالت میں ماہِ ذوالحجہ شروع ہوگیا اور دور دور سے لوگ حج کے لیے آنے شروع ہوئے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حجاج کوحج کرنے کی اجازت دیدی تھی؛ مگراس نے نہ طواف کیا، نہ صفاومروہ کے درمیان سعی کی، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے میدانِ عرفات میں جانا چاہا توحجاج نے روک دیا؛ چنانچہ انھوں نے مکہ ہی میں قربانی کی، میدانِ عرفات میں کوئی امام نہ تھا؛ غرض اس سال لوگ ارکانِ حج ادا نہ کرسکے، ایام ِحج میں بھی حجاج نے سنگباری کوبند نہ کیا؛ اس لیے خانہ کعبہ کا طواف بھی خطرہ سے خالی نہ تھا، حاجیوں کی آمد سے مکہ میں قحط اور بھی زیادہ بڑھ گیا، حضرت عبداللہ بن عمر بھی اس سال حج کے لیے تشریف لائے تھے؛ انھوں نے یہ حالت دیکھ کرحجاج کے پاس پیغام بھیجا کہ بندۂ خدا! اتنا توخیال کرکہ لوگ دور دور سے حج کے لے آئے ہوئے ہیں، ان کوطواف کرنے اور صفاومروہ کے درمیان سعی کرنے کا توموقع مل جائے اس سنگ باری کوحج ختم ہونے تک بند کرادے، اس پیغام کا یہ اثر ہوا کہ حجاج نے سنگ باری بند کرادی؛ مگرخود طواف نہیں کیا اور نہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کومیدانِ عرفات میں جانے دیا، ایامِ حج کے گذرتے ہی حجاج کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ باہر سے آئے ہوئے تمام اشخاص فوراً اپنے اپنے شہروں کوروانہ ہوجائیں؛ کیونکہ ابنِ زبیر پرسنگ باری شروع ہونے والی ہے، اس آواز کوسنتے ہی لوگوں کے قافلے روانہ ہوگئے اور ساتھ ہی بچے ہوئے مکہ والوں میں سے بھی بہت سے لوگ اپنی اپنی جان بچا کرنکل گئے۔ حجاج نے پھرسنگ باری شروع کردی، ایک بڑا پتھر خانہ کعبہ کی چھت پرآکرگرا اور چھت ٹوٹ کرگری، اس پتھر کے آتے ہی آسمان سے ایک سخت کڑک کی آواز آئی، بجلی چمکی اور زمین وآسمان میں تاریکی چھاگئی، حجاج کی فوج کے لوگ ڈرگئے اور پتھر پھینکنے بند کردیئے، حجاج نے لوگوں کوتسلی وتشفی دی اور کہا کہ یہ بجلی اور یہ کڑک میری امداد کے لیے آئی ہے اور یہ میری فتح کا نشان ہے، تم لوگ مطلق خوف وہراس کواپنے دلوں میں راہ نہ دو، دو روز تک یہ تاریکی چھائی رہی اور کڑک کی آواز کے خوف سے کئی آدمی حجاج کی فوج کے مرگئے، حجاج کی فوج میں بڑی تشویش پھیلی ہوئی تھی، اتفاقاً اگلے روز پھربجلی گری اور دوآدمی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی فوج کے بھی اس کے صدمے سے فوت ہوگئے؛ اس سے حجاج کوبڑی خوشی ہوئی اور اس کے لشکروالوں کوبھی کچھ اطمینان ہوا، حجاج نے خود اپنے ہاتھ سے منجنیق پرپتھر رکھ رکھ کرپھینکنے شروع کئے، اس کے بعد تمام لشکر کا خوف جاتا رہا اور زوروشور سے سنگ باری شروع ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے تھے اور بڑے بڑے پتھر ان کے اردگرد آآکر گرتے تھے لیکن ان کی توجہ الی اللہ اور نماز کے خشوع وخضوع میں رتی برابر فرق نہ آتا تھا۔ یہ محاصرہ اسی شدت سے برابر جاری رہا، مکہ معظمہ میں باہر سے کسی قسم کی امداد اور سامانِ رسد نہیں پہنچ سکتا تھا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا ذبح کرکے لوگوں میں تقسیم کردیا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس غلہ اور کھجوروں کا ایک ذخیرہ موجود تھا اور وہ اس ذخیرہ میں سے صرف اس قدر لوگوں کوتقسیم کرتے تھے جس سے حیات باقی رہے، مدّعا اُن کا یہ تھا کہ ہم دیر تک محاصرین کے مقابلہ پرقائم رہ سکیں، حجاج نے جب یہ دیکھا کہ کوئی تدبیر کارگرنہیں ہوتی ہے تواس نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہمراہیوں کے پاس امان نامے لکھ لکھ کربھیجنے شروع کردیئے، یہ امان نامہ والی تدبیر کارگرثابت ہوئی اور بہت سے آدمی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کرحجاج کے پاس چلے آئے، بہت ہی تھوڑے سے آدمی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس رہ گئے؛ حتی کہ ان کے دولڑکے حمزہ وحبیب بھی باپ کوچھوڑ کرحجاج کے پاس آگئے، تیسرا لڑکا باپ کے ساتھ رہا اور آخروقت تک دادِمردانگی دیتا رہا؛ حتی کہ عین معرکہ کارزار میں کام آیا، جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہزاروں آدمی حجاج کے پاس آگئے اور معدودے چند شخص باقی رہ گئے توحجاج نے اپنے لشکر کوایک جگہ جمع کرکے اس طرح تقریر کی کہ: تم لوگ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طاقت کا اندازہ کرچکے ہو، ان کے ہمراہی اس قدر تھوڑے ہیں کہ اگرتم میں سے ہرشخص ان پرایک ایک مٹھی کنکریاں پھینکے تووسہ سب کے سب مرجائیں گے؛ پھرلطف یہ کہ وہ بھوکے پیاسے ہیں، اے شامی! وکوفی! دلاورو بڑھو، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ چند ساعت کا مہمان ہے۔ اس تقریر سے پیشتر حجاج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک خط بھیج چکا تھا، اس میں لکھا تھا کہ اب آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں رہی، آپ ہرطرح مجبور ہوچکے ہیں، بہتر یہی ہے کہ آپ ہماری امان میں آجائیں اور امیرالمؤمنین عبدالملک کی بیعت اختیار کرلیں، آپ کے ساتھ انتہائی عزت وتکریم کا برتاؤ کیا جائے گا اور آپ کی ہرایک خواہش پوری کردی جائے گی، مجھ کوامیرالمؤمنین نے یہی حکم دیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو میں آپ کوصلح وآشتی کی طرف متوجہ کروں اور آپ کے قتل میں حتی الامکان عجلت سے کام نہ لوں۔