انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امارتِ مصر اورمحمد بن ابی بکرؓ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے وقت مصر کی حکومت سے عبداللہ بن سعد کو برطرف کرکے محمد بن ابی حذیفہ مصر پر قبضہ کرچکے تھے،جیسا اوپر مذکور ہوچکا ہے ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ہی قیس بن سعدؓ کو مصر کا عامل بناکر مدینہ منورہ سے روانہ کردیا تھا،قیس بن سعدؓ اپنے ہمراہ صرف سات آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے اور مصر پہنچتے ہی محمد بن ابی حذیفہ کو برطرف کرکے خود وہاں کے حاکم بن گئے، مصر میں یزید بن الحرث اور مسلمہ بن مخلد وغیرہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خونِ عثمانؓ کا مطالبہ کررہے تھے،ان لوگوں نے قیس کی بیعت سے اس عذر کے ساتھ انکار کیا کہ ہم کو بھی انتظار کرنے دو،کہ خونِ عثمانؓ کا معاملہ کس طرح طے ہوتا ہے،جب یہ معاملہ طے ہوجائے گا اُس وقت ہم بیعت کرلیں گے اور جب تک بیعت نہیں کرتے اُس وقت تک خاموش ہیں،تمہاری مخالفت نہ کریں گے، قیس بن سعدؓ نے اپنے اخلاق اوراپنی قابلیت سے مصر میں پورے طور پر قوت حاصل کرلی اور ان کے اخلاق نے خوب ترقی حاصل کی۔ جب جنگ جمل ختم ہوگئی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفہ کی طرف تشریف فرما ہوئے تو حضرت امیر معاویہؓ کو فکر ہوئی کہ اب ہمارے اوپر حملہ آوری ہوگی، ساتھ ہی ان کو اس بات کا بھی خیال تھا کہ مصر میں قیس بن سعد کو بخوبی قوت و قبولیت حاصل ہے اوروہ علی ؓ رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے اور انہیں کے ہمدرد ہواخواہ ہیں، پس حضرت علیؓ جب کوفہ کی طرف سے حملہ آور ہوں گے تو وہ ضرور قیس بن سعدؓ کو حکم دیں گے کہ تم دوسری طرف مصر سے فوج لے کر حملہ کرو، جب دو طرف سے ملکِ شام پر حملہ ہوگا تو بڑی مشکل پیش آئے گی،حضرت امیر معاویہؓ کو قدرتاً اپنے آپ کو طاقت ور بنانے کی مہلت بخوبی مل گئی تھی، دوسرے انہوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی بھی بالکل نہیں کی،حضرت عثمان غنیؓ کا خون آلود پیراہن اوران کی بیوی کی کٹی ہوئی انگلیاں اُن کے پاس پہنچ گئی تھیں ،وہ روزانہ اس خون آلود پیراہن اوران کی بیوی کی کٹی ہوئی انگلیوں کو جامع مسجد دمشق میں منبر پر رکھتے تھے اور لوگ ان کو دیکھ دیکھ کر آہ و زاری کرتے تھے،شام کا صوبہ چونکہ ہر وقت قیصر روم کے حملوں کا مقام بن سکتا تھا لہذا ملک شام میں پہلے ہی سے زبردست فوج ہمہ وقت موجود رہتی تھی، ان تمام لوگوں نے قسمیں کھالی تھیں کہ جب تک خونِ عثمانؓ کا بدلہ نہ لے لیں گے اُس وقت تک فرش پر نہ سوئیں گے اور ٹھنڈا پانی نہ پیئیں گے،ملکِ عرب کے نامور اوربہادر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اوراُن کی خاطر مدارات بجالانے میں بھی حضرت معاویہؓ کمی نہ کرتے تھے،کام کے آدمی کو اپنے ساتھ ملانے اوراس کی دلجوئی کرنے میں اُن سے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ ہوتا تھا،اپنے دعوے اورمطالبے کی معقولیت ثابت کرنے اوراپنے آپ کو حضرت عثمانؓ کا وارث بتا کر مظلوم ظاہر کرنے سے غافل نہ تھے، حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد اُن کو ایک سال کی مہلت مل چکی تھی جس میں سوائے ان تیاریوں کے اُن کو اورکوئی کام نہ تھا،لیکن حضرت علیؓ کو اس عرصہ میں برابر مصروفیت درپیش رہی، اگرچہ کوفہ میں تشریف لانے کے بعد بظاہر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دائرہ حکومت میں سوائے ایک صوبۂ شام کے تمام ممالکِ اسلامیہ شامل تھے، لیکن اُن کو ان اسلامی ممالک میں وہ اثر اوروہ اقتدار حاصل نہ ہوا جو فاروق اعظم ؓ کے زمانے میں خلیفہ اسلام کو حاصل تھا،حجاز،یمن،عراق،مصر،ایران وغیرہ ہر جگہ اُن کے فرماں برداروں کے ساتھ ایسے لوگ بھی برابر پائے جاتے تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر اعتراضات کرتے اوراُن کے طرزِ عمل پر نکتہ چینی کرنے میں خوب سرگرم ومستعد پائے جاتے،لہذا حضرت علیؓ کسی صوبہ سے پوری پوری فوجی امداد حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ کی حالت اس کے بالکل خلاف تھی،اگرچہ وہ صرف ملکِ شام پر تصرف رکھتے تھے لیکن سارا کا سارا ملک اُن کا ہم خیال وہم عنان تھا اورتمام ملک میں ان کو پوری پوری قبولیت حاصل تھی،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ اُن کو معرکہ آرائی کرنی پڑے گی، اس کا یقین اُن کو پہلے سے ہوچکا تھا،لہذا سب سے بڑی تدبیر جو انہوں نے پیشتر کی یہ تھی کہ مصر کی جانب سے حملہ آوری کے امکان کو دور کیا،حضرت امیر معاویہؓ قیس بن سعدؓ کی قوت وقابلیت سے بہت مرعوب تھے،ان کی خوش قسمتی سے ایک ایسی وجہ پیدا ہوگئی کہ وہ اپنے ارادے اورخواہش میں پورے کامیاب ہوگئے ،لہذا آپ ؓ کو مطالبۂ قصاص میں میری مدد کرنی چاہئے،قیس بن سعد نے جوابا لکھا کہ مجھ کو جہاں تک معلوم ہے حضرت علیؓ قتل عثمانی کی سازش میں ہرگز شریک نہ تھے،اُن کے ہاتھ پر جب کہ لوگوں نے بیعت کرلی اوروہ خلیفہ مقرر ہوگئے تو پھر تم کو اُن کا مقابلہ اورمخالفت نہیں کرنی چاہئے،اب حضرت امیر معاویہؓ مجبور تھے کہ حضرت علیؓ کے حملہ آور ہونے سے پہلے پہلے مصر پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوکر قیس بن سعدؓ کے خطرہ کو مٹادیں اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حملہ کو روکیں،لیکن یہ کام خطرہ سے خالی نہ تھا،کیونکہ اگر مصر کی لڑائی میں ذرا بھی طوالت ہوجائے اور حضرت امیر معاویہؓ ادھر سے جلدی اپنی طاقت اس طرف واپس نہ لاسکیں تو پھر تمام ملکِ شام حضرت علیؓ کے قبضہ میں ہوتا اورحضرت امیر معاویہؓ کے لئے کوئی مفر باقی نہ تھا،ادھر قیس بن سعد لڑائی کو ٹالنا اوروقت کو گزارنا چاہتے تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حملہ آور ہونے کی خبر اُن کو پہنچ جائے تو فوراً وہ مصر کی طرف سے فوج لے جاکر حضرت امیر معاویہؓ کو مجبور کردیں۔ اسی دوران میں قیس بن سعد کا ایک مراسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں متعلم کوفہ پہنچا،اُس میں لکھا تھا کہ مصر کے اندر بہت سے لوگ ابھی خاموش ہیں،اُن کو اُن کے حال پر چھوڑدیا گیا ہے اور کسی قسم کی سختی کو مناسب نہیں سمجھا گیا ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حضرت عبداللہ بن جعفر نے یہ مشورہ دیا کہ قیس بن سعد کو حکم دیا جائے کہ وہ سکوت اختیار کرنے والوں سے لڑیں اوران کو بیعت کے لئے مجبور کریں،اس طرح آزاد اور خاموش نہ رہنے دیں ؛چنانچہ یہ حکم قیس بن سعد کے پاس بھیج دیا گیا،قیس بن سعدؓ نے اس حکم کی تعمیل کو غیر ضروری اورمضر خیال کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لکھا کہ وہ لوگ فی الحال خاموش ہیں،وہ آپ کے لئے نقصان رساں نہیں ہیں لیکن اگر اُن کے ساتھ اعلانِ جنگ کردیا گیا تو وہ سب کے سب آپ کے دشمنوں سے جاملیں گے اوربے حد نقصان رساں ثابت ہوں گے۔ مناسب یہ ہے کہ ان کو اسی حال میں رہنے دیا جائے،اس خط کے پہنچنے پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سفیروں نے اُن کو یقین دلایا کہ قیس بن سعد ضرور امیر معاویہؓ سے ساز باز رکھتے ہیں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس بات کے ماننے میں متامل تھے اورقیس بن سعد کو مصر کے لئے ضروری سمجھتے تھے، حضرت امیر معاویہؓ کو جب یہ معلوم ہوا کہ قیس کی نسبت حضرت علیؓ کے دربار میں شبہ کیا جارہا ہے تو انہوں نے علانیہ اپنے دربار میں قیس بن سعد کی تعریفیں بیان کرنی شروع کردیں اور لوگوں سے کہنے لگے کہ قیس ہمارے طرفدار ہیں،اُن کے خطوط بھی ہمارے پاس آتے رہتے ہیں وہ ضروری باتوں کی ہم کو اطلاع بھی دیتے ہیں،کبھی لوگوں کے مجمع میں ذکر کرتے کہ قیس بن سعد نے مصر میں خونِ عثمانؓ کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ بڑے بڑے احسانات کئے ہیں اور اُن کو بڑی عزت کے ساتھ رکھتے ہیں،دمشق سے امیر معاویہؓ کی ان باتوں کا حال حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اُن کے جاسوسوں نے بلا توقف لکھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قیس بن سعد کو مصر کی امارت سے فوراً معزول کرکے اُن کی جگہ محمد بن ابی بکر کو روانہ کیا ، محمد بن ابی بکرؓ نے مصر میں پہنچ کر اپنی امارت اور قیس بن سعد کی معزولی کا فرمان دکھایا تو قیس بہت ماول و افسردہ ہوئے اور مصر سے روانہ ہوکر مدینہ منورہ پہنچے۔ مدینہ منورہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے وہاں سے تشریف لے آنے کے بعد کسی کی حکومت نہ تھی،وہاں بعض ایسے اشخاص بھی موجود تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے اور ان کے ہر ایک حکم اور ہر ایک فعل کو واجب التعمیل وواجب الاقتدایقین کرتے تھے اورایسے لوگ بھی بکثرت موجود تھے جو حضرت عثمان غنیؓ کے قاتلوں سے قصاص نہ لئے جانے کے سبب سخت بے چین اوراس معاملہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ڈھیل اوردرگزر کو سخت قابلِ اعتراض سمجھنے اوران کو نشانہ ملامت بنانے سے ذرا نہ چوکتے تھے،قیس بن سعدؓ جب مدینہ پہنچے تو اُن کے تعاقب ہی میں حضرت امیر معاویہؓ نے مروان بن الحکم کو روانہ کیا کہ جس طرح ممکن ہو قیس بن سعد کو ترغیب دے کر لے آؤ،مروان بن الحکم نے قیس بن سعد کو اول سمجھایا،جب وہ نہ مانے تو تنگ کرنا شروع کیا،یہاں تک کہ وہ دق ہوکر مدینہ سے روانہ ہوئے اور کوفہ میں حضرت علیؓ کے پاس پہنچ گئے وہاں تمام حالات زبانی سُنائے اورحضرت علیؓ نے مطمئن ہوکر اُن کو اپنی مصاحبت میں رکھا،معاویہؓ نے یہ خبر سُن کر مروان کو لکھا کہ اگر تو ایک لاکھ جنگ جو لشکر سے علیؓ کی مدد کرتا تو وہ آسان تھا،بمقابلہ اس کے کہ قیس علیؓ کے پاس چلے گئے۔ محمد بن ابی بکرؓ نے مصر پہنچ کر اُن لوگوں کو جو سکوت کی حالت میں تھے اعلان دے دیا کہ یا تو تم لوگ ہماری اطاعت قبول کرو اورامیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت میں داخل ہو ورنہ ہمارے ملک سے نکل جاؤ،انہوں نے کہا ہمارے ساتھ جنگ کرنے اور سختی برتنے میں جلدی نہ فرمائیے،زیادہ نہیں تو چند روز کی مہلت دیجئے تاکہ ہم اپنے مآل کا ر پر غور کرلیں، محمد بن ابی بکرؓ نے کہا کہ تم کو قطعاً مہلت نہیں دی جاسکتی، انہوں نے اس نئے عامل سے یہ جواب سُن کر فوراً اپنی حفاظت کا معقول انتظام کرلیا اور مدافعت پر آمادہ ہو بیٹھے ،محمد بن ابی بکرؓ ان لوگوں کے ساتھ جنگ صفین کے ختم ہونے کے بعد تک اُلجھے رہے اور حضرت امیر معاویہؓ مصر کی جانب سے بالکل بے فکر ہوکر جنگ صفین کی تیاریوں میں مصروف ہوئے۔