انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اکابرین ملت علامہ انور شاہ کشمیریؒ (م:۱۳۵۲ھ) ۱۔عام طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کی وجہ فرشتوں سے علم کا زیادہ ہونا بتایا جاتا ہے،لیکن میرے نزدیک چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہی میں عبدیت فرشتوں کی بہ نسبت زیادہ تھی اس لئے وہ خلافت سے سرفراز ہوئے۔ (ملفوظات محدث کشمیریؒ،ص:۱۷۵) ۲۔نبی اکرم ﷺ کے القاب میں سب سے بڑا لقب "عبدہ"ہے اور عارفین نے بھی سب سے بڑا مقام عبدیت کا ہی بتایا ہے۔ (ملفوظات محدث کشمیریؒ،ص:۱۷۶) ۳۔علم وسیلہ ہے جس کا حسن تب ہی ظاہر ہوگا کہ وہ مقصود تک پہنچا دے،علم عمل کو آواز دیتا ہے اوربلاتا ہے،اگر عمل ساتھ آجائے تو فبہا ورنہ وہ علم بھی گیا گزرا ہوتا ہے،چنانچہ میں نے کل عمر میں نہیں دیکھا کہ عاصی و گناہ گار کی سمجھ دینیات میں صحیح ہو۔ (ملفوظات محدث کشمیریؒ،ص:۱۷۷) ۴۔ایک مرتبہ فارغ التحصیل طلبہ کو نصیحت فرمائی ‘‘گھر جاکر مطالعہ کتب ضرور کرتے رہنا چاہئے؛کیونکہ علم کسب و محنت ہی سے حاصل ہوتا ہے،آدمی کو پہلےہی سے کتاب دیکھنے کا قصد کرلینا چاہئے ورنہ علم نہ پڑھے،ہدایہ ،بخاری شریف وغیرہ پر نظر رکھے اورعلماء عارفین کی کتابیں بھی دیکھے،بہت سی جگہ احادیث کی حقیقت کو انہوں نے محدثین سے بھی زیادہ اچھا سمجھا ہے،لیکن جو عارف شریعت سے ناواقف ہو اس کی کتاب کو دیکھنا مضر ہوگا’’ (ملفوظات محدث کشمیریِؒص:۱۷۸) ۵۔یوں تو تمام مساجد کا عام طور سے احترام ہے کہ وہاں شوروغل یا بلند آواز کرنا لڑنا جھگڑنا ممنوع ہے،مگر مسجد نبوی کا احترام اوربھی زیادہ ہے،اسی لئے امام مالک ؒ نے امیر المومنین ابو جعفر کو مسجد نبوی میں بلند آواز کرکے بات کرنے پر ٹوک دیا تھا اور فرمایا تھا کہ قرآن میں ادب سکھایا گیا ہے کہ اپنی آواز نبی کریم ﷺ کے روبرو اونچی نہ کرو، اس سے ڈر ہے کہ تمہارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں،اس کے ساتھ امام مالکؒ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حضورﷺ کی عظمت واحترام وفات کے بعد بھی ایسی ہی ہے جیسی زندگی میں تھی۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۲۲۵) ۶۔اگر دیکھنا ہو کہ تمہاری وقعت خدا کے یہاں کتنی ہے تو دیکھ لو کہ تمہارے دل میں خدا کی کس قدر وقعت ہے،آج کل توخدا کی اس قدر بھی وقعت نہیں ہوتی جتنی ایک آشنا کی ہوتی ہے۔ ۷۔عالم آخرت میں جہنمیوں پر مادیت اورجنتیوں پر روحانیت غالب ہوجائے گی۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۲۴۵) ۸۔دنیا میں جنت کی مثالیں بہ نسبت دوزخ کی مثالوں کے زیادہ ہوتی ہیں،دوزخ کے نمونے کم ہیں،چنانچہ انبیاء کرامؑ کےاکثر احوال جنت پر ہوتے ہیں، حضورﷺ کا پسینہ خوشبودار تھا،لوگ معلوم کرلیتے تھے کہ اس گلی سے گزرےہیں اوران کے غائط کو زمین نگل لیتی تھی،بعض اوقات اولیاء کے حالات بھی ایسے ہوتے ہیں۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۲۴۰) ۹۔شریعت نے وقف بڑی ہی مفید چیز رکھی تھی،لیکن اب اس قدر خرابیاں اس میں پیداہوگئی ہیں کہ میرے نزدیک صدقہ ہی کردے تو بہتر ہے،دیوبند میں ایک شخص نے پوچھا کہ بخاری شریف کو وقف مدرسہ کردوں یا کسی طالب علم کو دے دوں؟میں نے کہا "طالب علم کو دے دو" (ملفوظات محدث کشمیری ،ص:۲۴۹) ۱۰۔فتنہ آزمائش اور ابتلاء کو کہتے ہیں جس سے مخلص غیر مخلص سے ممتاز ہوجائے، حدیث میں ہے کہ امت محمدیہ میں فتنے بکثرت آئیں گے ،اس سے میں یہ سمجھا کہ پہلی امتوں کا تو معاصی اورنافرمانیوں کی وجہ سے بطور عذاب کے استئصال اور خاتمہ ہوجاتا تھا لیکن اس امت محمد یہ کا چونکہ بقاء مقدر ہوا اورفاجر وفاسق بندوں کو صالح و مطیع بندوں سے ممتاز کرنا بھی تھا، اس لئے ان میں فتنے مقدر کئے گئے جن کے ذریعہ تمییز ہوتی رہے گی،خاص طور پر قرب قیامت میں کثرت معاصی کی وجہ سے فتنوں کی اور بھی زیادہ کثرت ہوگی۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۲۵۳) ۱۱۔جس چیز میں میں تشفی نہیں پاتا یا کسی بات کو نہیں جانتا تو ہزاروں میں کہہ دیاکرتا ہوں کہ میں اس کو نہیں جانتا، لیکن آج کل عموما ًاس کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۲۶۱) ۱۲۔جو لوگ اسلام کے اس اہم فریضہ (تبلیغ دین)کے لئے تیار ہوں ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ پیغام دین متین اور نشروابلاغ حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اخلاق حسنہ، ملکات فاضلہ،خلوص نیت، فراخ حوصلگی،راست بازی، شیریں کلامی، وسعت صدر، ایثار، جاں فشانی اورجفا کشی کے اوصاف حمیدہ سے متصف ہوں اورایک لمحہ کے لئے ان کے دل میں حرص و طمع، غرض نفسانی ،ریاکاری اورشوق حصول دنیا نہ آنے پائے،ورنہ جو شخص ان امور کا لحاظ نہیں رکھتا اس کی آواز کسی طرح کار گر نہیں ہوتی اوراس کے کلام کا سامعین پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۲۹۱) ۱۳۔مبلغ کو چاہئے کہ جو کچھ دوسروں کونصیحت کرتا ہے خود بھی اس پر کار بند ہو، اگر ایسا نہ کرے گا تو اس کی ہر ایک بات لوگوں کو نظروں میں دروغ بیانی اورہرزہ سرائی سے زیادہ وقیع نہ ہوگی۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۲۹۱) ۱۴۔تمام عالم کی روح ذکر اللہ ہے، جب تک اللہ تعالی کی یاد قائم رہے گی عالم قائم رہے گا، جب دنیا اللہ کی یاد چھوڑدے گی تو سمجھو عالم کے کوچ کرنے کا وقت آگیا،حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ایک متنفس بھی اللہ اللہ کرنے والا رہ جائے گا" جب ایک بھی اللہ اللہ کرنے والا نہ رہے گا تو قیامت قائم ہوجائے گی کیونکہ جب روح نہ رہی تو ڈھانچہ کسی کام کا نہیں اسے گرادیا جائے گا، معلوم ہوا کہ سارے عالم کی روح اللہ کا ذکر ہے،مقصود اصلی ذکر الہی ہے اوریہ نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ احکام سب اس کے پیرائے ہیں۔ (ملفوظات محدث کشمیریؒ،ص:۳۱۴) حدیث شریف میں ہے کہ اذان کی آواز سن کر شیطان بھاگ جاتا ہے جب نماز کھڑی ہوتی ہے واپس آجاتا ہے،نماز اذان سے افضل عبادت ہے معاملہ الٹ ہونا چاہئے تھا اس میں مندرجہ ذیل دو حکمتیں بیان کی جاسکتی ہیں: ۱۔نماز رب باری تعالیٰ کے ساتھ مناجات وسرگوشی ہے ؛لیکن اذان شہادتین کا اعلان ہے اللہ کی ربوبیت اورمحمد ﷺ کی رسالت کی شہادت کا یوں زور دار اعلان شیطان کے لئے ناقابل برداشت ہے، اس لیے وہ بھاگ جاتا ہے برداشت نہیں کرپاتا۔ ۲۔یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ مؤذن کی آواز جہاں تک جاتی ہے وہاں تک کی ہر خشک اور تر چیز مؤذن کے لیے گواہی دیتی ہے اورشیطان کسی مؤ من کے حق میں گواہ بننا کب گوارا کرتا ہے اس لیے شیطان کوشش کرکے مؤذن کی آواز کی گرفت سے باہر نکل جاتا ہے شاید ہوا بھی اس لیے خارج کرتا ہے تاکہ آواز سنائی نہ دے۔ (فیض الباری:۲/۱۶۲) حضرت شاہ صاحب ؒ کو بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر بہت پسند تھا: ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا گو ہو کیسا ہی صاحب فہم وذکا جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا۔ (ملفوظات محدث کشمیری،ص:۳۸۶)