انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** نباتات سے متعلق معجزات درخت مسلم شریف میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے ساتھ ہم ایک منزل میں پہنچے اور ایک چوڑے میدان میں اترے اور حضورﷺ قضاحاجت کے لیے تشریف لےگئے؛ لیکن وہاں کوئی آڑ اور پردہ کرنے کی چیز نہیں تھی؛ البتہ وادی کے دونوں کناروں پر دو درخت تھے ؛چنانچہ آنحضورﷺ ایک درخت کےپاس تشریف لےگئے اور اس کی ٹہنی پکڑ کر فرمایا کےتو خدا کے حکم سے میری اطاعت کر یہ سنتے ہی وہ درخت آپﷺ کے ساتھ ہولیا جیسے مہار پکڑنے والے کے ساتھ اونٹ ہولیا کرتا ہے پھر دوسرے درخت کےپاس آپﷺ تشریف لےگئے اور اس کی ایک ٹہنی پکڑ کر فرمایا خدا کے حکم سے میری اطاعت کر ؛ چنانچہ وہ بھی آپ کے ساتھ ہولیا، جب دونوں مل گئے ،حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں کسی گہری سوچ میں تھا اس لیے اس طرف میری نگاہ ہٹ گئی تھی؛ لیکن اتنامیں نے دیکھا کہ آپ ﷺتشریف لارہے ہیں اور دونوں درخت جدا ہوکر اپنی اپنی جگہ پر جاکر کھڑے ہوئے۔ دارمی نے حضرت ابن عمر ؓسے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریمﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ایک دیہاتی آنحضورﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس سے فرمایا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ کوئی اس کا شریک ہے اور محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ،اس دیہاتی نے کہا تمہارے اس دعوے پر کوئی گواہی بھی ہے، آپﷺ نے فرمایا یہ سامنے والا سلم درخت میرا گواہ ہے ؛چنانچہ آپ نے اس درخت کو بلایا وہ میدان کے کنارے پر تھا زمین چیرتا ہوا آیا اور آپﷺ کے پاس کھڑا ہوگیا آپﷺ نے تین بار اس سے گواہی چاہی اس نے تین بار گواہی دی کہ آپﷺ سچے ہیں، سلم ایک خار دار اور بلند درخت کو کہتے ہیں عرب کے جنگلوں میں عام طور پر یہ درخت پایاجاتا ہے۔ ترمذی نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں اک دیہاتی آکر کہا کہ میں کیسے جانوں کےآپ اللہ تبارک وتعالی کے رسول ہیں، آپ نےفرمایا اگر میں خوشے کو جو درخت خرما ں میں لگا ہوا ہے بلاؤں اور یہ اگر میری رسالت کی گواہی دے؛ چنانچہ اس خوشے کو بلایا وہ درخت سے جھک گیا اور آپﷺ کےپاس گر کر اس نے آپﷺ کے رسول ہونے کی گواہی دی پھر آپﷺ نے اس سے فرمایا تو اپنی جگہ واپس چلا جا وہ اپنی جگہ درخت پر چلاگیا یہ دیکھ کر دیہاتی مسلمان ہوگیا۔ بزار نے حضرت بریدہؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک دیہاتی نے نبی کریمﷺ سے نبوت کامعجزہ طلب کیا،آپﷺ نے فرمایا تم اس درخت سےجاکر کہو کہ تجھے رسول اللہ بلاتے ہیں، اس دیہاتی نے جاکر کہا تو درخت نے پہلے چاروں طرف سے حرکت کی پھر زمین چیرتا ہوا آپﷺ کےپاس جلدی سے پہنچ گیا اور سامنے کھڑے ہوکر کہا السلام علیک یارسول اللہ، دیہاتی نے کہا اب اس درخت کو واپس جانے کی اجازت دیجیے، آپﷺ نے اجازت دی تو وہ اپنی جگہ پر پہنچا اس کی جڑیں زمین میں پھر گھس گئیں اور سیدھا کھڑا ہوگیا دیہاتی یہ دیکھ کر مسلمان ہوگیا اور اس نے حضورﷺ کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ مجھ کو سجدہ کرنے کی اجازت دیجیےکہ میں آپﷺ کو سجدہ کروں، آپﷺ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کےلیے سجدہ کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں ،دیہاتی نے پھر کہا اچھا اپنے ہاتھ اور پاؤں کو چومنے اور بوسہ دینے کی اجازت دیجیے، آپﷺ نے اجازت دے دی اور اس نے آپﷺ کے ہاتھ پاؤں چومے ،امام نووی نے اپنی کتاب الاذکار میں اس حدیث سے نتیجہ نکالا ہے کہ کسی دیندار بزرگ کے ہاتھ پاؤں محبت سے چوم سکتے ہیں۔ بیہقی نے اور ابو یعلی نے اسامہ بن زیدؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے جہاد کے ایک سفر میں مجھ سے فرمایا کہ دیکھو قضائے حاجت کے لیے کہیں جگہ ہے، میں نے عرض کیا کہ اس میدان میں اتنے آدمی ہیں کہ کہیں پردہ کی جگہ نہیں،آپﷺ نے پھر فرمایا کہ دیکھو کہیں درخت یا پتھر ہیں ،میں نہ کہا کہ ہاں کچھ درخت پاس پاس نظر آتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا کے جاکر ان درختوں سے کہہ دو کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ تم اکھٹے ہوجاؤ اور پتھروں سے بھی اکھٹا ہونے کو کہہ دو،میں نے درختوں اور پتھروں سے یہ بات جاکر کہی تو خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ درخت اکھٹا ہوکر آپس میں مل گئے اور پتھر باہم مل کر دیوار بن گئے اور نبی کریمﷺ نے انہی کی آڑ میں بیٹھ کر قضائے حاجت کی جب آپ ﷺ فارغ ہوگئے تو مجھ سے فرمایا کہ ان سے کہہ دو علیحدہ ہوجائیں میں نے کہہ دیا تو خذا کی قسم! میں نے اپنی آنکھوں سے ان درختوں اور پتھروں کو علیحدہ ہوکر جاتے ہوئے دیکھا۔ امام احمد ،بیہقی اور طبرانی نے یعلی بن سبابہ سے روایت کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے ساتھ میں ایک سفر میں شریک تھا آپﷺ کو قضائے حاجت کی ضرورت ہوئی؛ چنانچہ کھجور کے دو چھوٹے چھوٹے درختوں کوآپﷺ نے حکم دیا تو دونوں آپس میں قریب آکر مل گئے اور اس کی آڑ میں آپﷺ نے اپنی ضرورت پوری کرلی ۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں جنات نے حاضر ہوکر سوال کیا کہ آپﷺ کی نبوت پر کون گواہی دے سکتا ہے، آپﷺ نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ درخت ؛چنانچہ آپﷺ نے درخت کو بلایا وہ درخت اپنی جڑوں کو گھسیٹتا ہوا آیا اور گواہی دی۔ بیہقی اور ابو نعیم نے ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ رکانہ پہلوان نے جب نبی کریمﷺ سے معجزہ طلب کیا تو آپﷺ نے ببول کے ایک درخت کو یہ کہہ کر بلایا کہ خدا کے حکم سے قریب آجا ؛چنانچہ وہ آپﷺ کے پاس آکر کھڑا ہوگیا پھرآپﷺ نے اس کو واپس جانے کو فرمایا تو وہ اپنی جگہ پر چلاگیا ۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ رکانہ قریش کا ایک قوی ہیکل پہلوان تھا، جنگل میں بکریاں چرایا کرتا تھا ، ایک دن نبی کریمﷺ اس جنگل کی طرف تشریف لےگئے تو رکانہ سے ملاقات ہوگئی وہاں کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا، رکانہ نے آپﷺ سے کہا کہ تم ہمارے معبودوں کی توہین کرتے ہو اور اپنے مفروضہ معبود کی پوجا کرتے ہو اگر میری تم سے رشتہ داری نہ ہوتی تو آج میں تم کو مارڈالتا، آج تم اپنے خدا سے دعا کرکے مجھ سے نجات حاصل کرو تو میں جانوں، میں آج تمہاری سچائی کا اس طرح اندازہ لگانا چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے کشتی لڑو اور تم اپنے خدا سے دعا کرو اور میں اپنے لات وعزی سے دعا کروں گا، اگر تم نے مجھے پچھاڑدیا تو ان بکریوں میں سے دس بکریاں جو تم پسند کروگے تم کو دےدوں گا ؛چنانچہ رکانہ سے کشتی ہوئی اور آنحضورﷺ نے رکانہ کو پچھاڑدیا، رکانہ بولا کہ تم نے نہیں پچھاڑا؛ بلکہ تمہارا خدا غالب آگیا اور لات وعزی نے میری مدد نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا پہلو کسی نےآج تک زمین سے نہیں لگایا تھا مگر تم نے لگادیا ، اچھا ایک بار اور کشتی لڑو اگر اب کی بار غالب آؤ گے تو دس بکریاں اور تم اپنی پسند سے لینا ؛چنانچہ دوسری دفعہ بھی آپﷺ نے رکانہ کو پچھاڑدیا اور پھر رکانہ نے وہی بات کہی کہ آپﷺ کا خدا لات وعزی پر غالب آگیا پھر تیسری بار رکانہ سے کشتی ہوئی تو آپﷺ نے رکانہ کو پچھاڑدیا، رکانہ نے کہا کہ تیس بکریاں میرے ریوڑ میں سے چن لو اور پسند کرلو، آپﷺ نے فرمایا میں بکریاں نہیں لوں گا میں تو چاہتا ہوں کہ تو اسلام قبول کرلے، اسلام قبول کرکے تو دوزخ کی آگ سے نجات حاصل کرلےگا ،اس پر اس نے معجزہ طلب کیا تو آپ ﷺنے اس ببول کے درخت کو بلایا چنانچہ وہ پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا ایک ٹکڑا آنحضورﷺ اور رکانہ کے درمیان آکر کھڑا ہوگیا، رکانہ نے کہا کہ واقعی یہ بڑا معجزہ ہے ،اچھا اس کو اپنی جگہ واپس لوٹاکر دکھایے، آپﷺ نے فرمایا کہ اگر میں واپس لوٹادوں تو کیا تو مسلمان ہوجائےگا اس نہ کہا ہاں ؛چنانچہ آپﷺ نے حکم دیا وہ درخت واپس ہوگیا اور دونوں ٹکڑے مل کر ایک ہوگئے اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اب تو مسلمان ہوجا ،رکانہ نے کہا اگر میں مسلمان ہو جاؤں گا تو مجھے عورتیں عار دلائیں گی کہ رکانہ مرعوب ہوکر مسلمان ہوگیا بہر حال اس وقت تو یہ مسلمان نہ ہوا مگر فتح مکہ کے بعد اس نے اسلام قبول کرلیا۔