انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آٹھویں شہادت (۸)"فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"۔ (النساء:۶۵) ترجمہ: سو قسم ہے تیرے رب کی یہ لوگ کبھی ایماندار نہیں ہوسکتے جب تک تجھے ہر اس بات میں جو ان میں اختلاف پکڑے اپنا منصف نہ مان لیں پھر آپ کے فیصلے کے بارے میں نہ پائیں اپنے جی میں کوئی تنگی اور قبول کریں اسے خوشی سے۔ اس آیت نے واضح طور پر بتلادیا کہ پیغمبر کی اطاعت صرف ایک حکم اور منصف Arbiter کی حیثیت سے نہیں، پیغمبر کی حیثیت سے ہے،حکم کے فیصلے کو ماننا ایک قانونی تقاضا ہے، اس پر ایمان موقوف نہیں؛ مگر پیغمبر کے فیصلے کو ماننا ایمان کا تقاضا ہے۔ ۲۔حکم کے فیصلے کے بارے میں دل میں گرانی ہوئی کوئی عیب نہیں؛ مگر پیغمبر کے فیصلے کے خلاف دل میں گرانی رکھنا ایمان سے محروم کردیتا ہے،ہر پیش آمدہ بات میں پیغمبر کو حکم تسلیم کرلینا یہ بناء پر حکومت نہیں بنا بر رسالت ہے،آپ کے ہر فیصلے کے آگے تسلیم و انقیاد لازم ہے، آیت ہذا اپنے سیاق وسباق اطاعت رسول کی فرع ہے، اس آیت سے پہلی آیت میں یہ ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔ "وَمَاأَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّالِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ"۔ (النساء:۶۴) ترجمہ: اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لیے کہ اس کی بات حکم الہٰی سے مانی جائے۔ اگلی آیت میں اس ضابطے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لازم ہونے پر منطبق کیا گیا ہے اورپھر اس رکوع کا اختتام "وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ " پر کیا گیا ہے، جس میں ان لوگوں کی(جن پر اللہ کا انعام ہے) یہ صفت ذکر کی گئی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اہل اسلام اس پر متفق ہیں کہ پیغمبر کا حکم ہونا اس کے قاضی ہونے کی حالت Judge in his chair میں محدود نہیں،بلکہ اللہ تعالی نے آپ کے ہر فیصلے کو حجت اور سند قرار دیا ہے اورآپکی اطاعت کو مطلقا فرض ٹھہرایا ہے،امام شافعیؒ اس آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہیں اور آپ کی اطاعت کو فرض قرار دیتے ہیں(کتاب الام:۷/۲۵۱) مشہور شیعہ محدث علامہ کلینی بھی امام جعفر صادقؓ سے اس آیت کا عموم اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ (اصول کافی:۱/۳۹۰) اگر لوگ ایک اللہ کی عبادت کریں، نمازیں قائم کریں، زکوۃ دیں، بیت اللہ شریف کا حج بھی کریں اوررمضان کے روزے بھی رکھیں؛ پھر ایسی چیزکو جسے اللہ تعالی نے یا اسکے رسول نے مقرر کیا ہو،کہیں کہ صحیح بات اس کے برعکس ہے یا یہ بات اپنے دل میں رکھیں تو وہ اس بات سے مشرکین ٹھہریں گے؛ پھر اس پر حضرت امام نے یہ آیت تلاوت کی۔ "لَايُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَايَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"۔ (النساء:۶۵) معلوم ہوا کہ رسول پاکﷺ کا ہر ہر فیصلہ حجت اورسند ہے،آپ جس چیز کی اجازت دیں اسے اپنانا اورجس چیز سے روکیں اس سے رکنا ضروری ہے۔