انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تجوید کی اہمیت تجوید کی اہمیت قرآن کریم احکم الحاکمین عز وجل کا کلام ہے اس کے حقوق میں ایک اہم ترین اور اولین حق یہ ہے کہ صحت الفاظی اور ضروری قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے ،اس کی سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت اِقْرَأْ(پڑھو)سے شروع فرماکر اللہ تعالی نے قرأت کی اہمیت کی جانب اشارہ فرمایا اور بتادیا کہ یہ کتاب صرف مطالعہ کے لیے نہیں؛ بلکہ پڑھنے کے لیے نازل فرمائی جارہی ہے، اس کا نام قرآن( پڑھی جانے والی کتاب) رکھ کر ان دشمنان ِاسلام کو جو کہتے تھے: "لَا تَسْمَعُوْا لِھَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْ فِیْہِ"۔ (فصلت:۲۶) (اس قرآن کو مت سنو اور جس وقت پڑھا جائے تو لغو باتیں کیا کروتاکہ دوسروں کے کانوں میں بھی آواز نہ جائے)۔ یہ بتادیا کہ تمہاری یہ حرکتیں کام نہیں دیں گی، یاد رکھو یہ کتاب وہ ہے جو پڑھنے ہی کے لیے نازل ہوئی ہے جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے ،اس کی تلاوت پر انعامات ِخدا وندی اور پورا پورا اجر وثواب حاصل کرنے والے در حقیقت وہی لوگ ہیں جو اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں، رضائے الہی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کے لیے تلاوت کلام اللہ کا شغف بلا شبہ ایک بہترین چیز ہے ،اس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں حاصل ہوجاتی ہیں ،قبر کے ہولناک، ہیبت ناک اور تاریک ترین ماحول میں جہاں انسان حیران وپریشان ہوگا قرآن کریم وہاں اس کے لیے روشنی بن جائے گا ،قبر کو اس کے لیے تنگ وتاریک اور خوفناک گڑھے کے بجائے بہترین باغ اور آرام گاہ بنادیا جائے گا،نیز قیامت میں قرآن کریم کی شفاعت رد نہیں کی جائے گی ،قیامت میں قرآن مجید بارگاہ ِرب العالمین میں اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گا کہ اے الہ العالمین اس قاریٔ قرآن کو لباس پہنادیجیے اور اس کو عزت کا تاج پہنادیا جائے گا قرآن پھر عرض کرے گا یا رب اس سے راضی ہوجایے تو حق تعالی اس سے رضامندی کا اعلان فرمائیں گے اور ظاہر ہے کہ رب العالمین کا راضی ہوجانا اتنی بڑی دولت ہے جو جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے، "وَرِضْوَانٌ مِنَ اللہِ أَکْبَرْ" جنت میں اس کو ایسے اعلی درجات حاصل ہوں گے کہ دوسرے بہت سے جنتی تعجب بھری نگاہوں سے اسے دیکھا کریں گے اور جنتیوں میں اس کاایک خاص مقام ہوگا ،لیکن یہ سب اس وقت ہوگا جب اس کی تلاوت اس طرح ہو جس طرح وہ نازل فرمایا گیا ہے اور اس کے نزول کی کیفیت حضرت حق جل مجدہ کے ارشاد: "وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلًا "۔ (المزمل:۴) (ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ نازل کیا ہے)۔ سے واضح ہے اور ترتیل ہی کہ ساتھ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے؛ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد ہے: "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا"۔ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ (المزمل:۴) ترتیل کی تفسیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق حروف کو تجوید کے ساتھ پڑھنا اور وقفوں کی معرفت ہے تو ترتیل سے قرآن کریم پڑھا جائے گاتب ہی اس کی تلاوت کا حق ادا ہوگا اور ایسی ہی تلاوت پر حسنات اور انعامات خدا وندی کا وعدہ ہے؛ لیکن اگر تلاوت تجوید کی رعایت کے ساتھ نہیں؛بلکہ اس کے خلاف ہے تو اس سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوسکتا، اگر ہم اس کی تلاوت کا حق ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی جانب توجہ ہے؛ پھر بھی یہ امید رکھیں کہ قرآن کی وجہ سے ہماری نجات ہوگی اور یہ مبارک کتاب ہماری سفارش کرے گی اور ہم پر وہ سب انعامات خدا وندی ہوں گے جو اوپر ذکر ہوئے تو یہ خوش فہمی اور نادانی کے علاوہ کچھ نہیں ،ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم جیسے اپنے حقوق ادا کرنے والے کی شفاعت کرے گا اور اس کی شفاعت قبول کی جاے گی، ایسے ہی حق تلفی کرنے والوں کی شکایت بھی کرے گا اور اس کی شکایت بھی سنی جائے گی ،ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کل قیامت میں جب کہ ہم قرآن کریم کی شفاعت کے متمنی اور ضرورت مند ہوں گے خدا نخواستہ اس نے بجائے شفاعت کے شکایت کی تو کیا ہوگا ،اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کے حقوق ادا کرنے کی فکر کرے اور سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس کو صحیح پڑھنا سیکھے ؛ قرآن کریم اوراحادیث میں اس کی صراحت موجود ہے : "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً"۔ (المزمل:۴) اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ "زَیِّنُوالْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ"۔ (ابو داؤد،استحباب الترتیل فی القرأت،حدیث نمبر:۱۲۵۶) اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو ۔ "حَسِّنُو الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ فَاِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ یَزِیْدُالْقُرْاٰنَ حُسْنًا"۔ (شعب الایمان، حَسِّنُو الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ ،حدیث نمبر:۲۰۷۴) اچھی آواز سے قرآن کوپڑھو کیونکہ اچھی آواز قرآن کریم کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔ "اِقْرَؤُالْقُرْاٰٰنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَاَصْوَاتَھَا"۔ (شعب الایمان،حدیث نمبر:۲۵۴۱) قرآن کریم کو عربی لحن میں پڑھو۔ محقیقین علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ بغیر تجوید قرآن پڑھنے والامستحق ثواب نہیں ہوتا؛ بلکہ گنہ گار ہوتا ہے، علامہ محقق جزری فرماتے ہیں۔ وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ لَازِمٌ مَنْ لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ اٰٰ ثْمٌ لِاَنَّہُ بِہِ الْاِلٰہُ اَنْزَلاَ وَھٰکَذَا امِنْہُ اِلَیْنَا وَصَلَا ترجمہ:تجوید کا حاصل کرنا ضروری ولازم ہے۔ جو شخص تجوید سے قرآن نہ پڑھے گنہ گار ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے تجوید ہی کے ساتھ اس کو نازل فرمایا ہے۔ اور اسی طرح اللہ تعالی سے ہم تک پہنچا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا قول ہے: رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ، (احیاءعلوم الدین،الباب وھی عشرۃ،:۱/۲۸۴) (مجلۃ المنار،الحکمۃ فی انزال القرآن:۸/۲۵۸) یعنی بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت اس حالت میں کرتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا جاتا ہے، یہ حدیث عام ہے جو ذیل کے تین جماعتوں کو شامل ہے: (۱)وہ جو حروف کو غلط پڑھیں (۲)وہ جو قرآن پر عمل نہ کریں (۳)وہ جو قرآن کریم کے معنی اور تفسیر میں رد وبدل کریں حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت ہے کہ وہ خود کسی شخص کو قرآن شریف پڑھارہے تھے اس نے اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآء،کو مد کے بغیر پڑھا تو آپ نے اس کو ٹوکا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا ہے، تو اس نے دریافت کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کس طرح پڑھایا ہے ،تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی اور لِلْفُقَرَآءپر مد کیا، غور کرنے کا مقام ہے کہ حرف یا حرکت کے چھوٹنے یا بدلنے پر نہیں صرف مد کے چھوٹنے پر شاگرد کو ٹوکا جارہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے مطابق پڑھ کر سنایا جارہا ہے؛ تاکہ وہ حرف کو کھینچ کر پڑھنے میں بھی خلاف سنت کا مرتکب نہ ہو۔