انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** محرمات شرعیہ سے اجتناب اکل حرام سے اجتناب صحابہ کرام ؓ اگرچہ تنگ دست اورفاقہ مست تھے؛لیکن حلال طیب کے سوا اکل حرام سے ان کے کام ودہن کبھی آلودہ نہیں ہوئے ،حضرت ابو بکرؓ کے غلام نے زمانہ جاہلیت میں فریب آمیز طریقہ پر کہا نت کی اوراس کے معاوضہ میں کچھ مال پایا، اورحضرت ابوبکرؓ کو دےدیا، انہوں نے اس کو وجہ معاش میں صرف کردیا، لیکن بعد کو جب معلوم ہوا کہ یہ ناجائز مال تھا تو منہ میں ہاتھ ڈالا، اورپیٹ میں جو کچھ تھا قئے کرڈالا۔ (بخاری ،باب ایام الجاہلیۃ،حدیث نمبر:۳۵۵۴) ایک بار وہ حالت سفر میں بدوؤں کے ایک خیمہ میں اترے اتفاق سے ان بدوؤں میں کسی کی بی بی حاملہ تھی اور اس سفر میں ایک اوربدو ساتھ تھا جس نے اس سے کہا کہ کیا تم اولاد نرینہ چاہتی ہو، اگر تم مجھے ایک بکری دو تو تمہارے اولاد نرینہ پیدا ہوگی، اس نے بکری دے دی اوراس نے کاہنوں کی طرح کچھ مسجع فقرے پڑے ،پھربکری ذبح کی اورحضرت ابوبکرؓ نے بھی گوشت کھایا، بعد کو جب معلوم ہوا کہ کسب حرام تھا تو فوراًاٹھے اس فعل سے برأت ظاہر کی اورجو کچھ کھایا تھا قئے کردیا۔ (مسند ابن حنبل جلد ۳ :۵۱)۔ اکل حرام کی سب سے بدترین قسم یہ ہے کہ مذہب فروشی کی جائے، یہودیوں کے مذہب کو اس نے برباد کردیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں خود اللہ تعالی فرماتا ہے: "اشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا" (آل عمران:۱۸۷) یعنی یہودیوں نے اس کے عوض میں تھوڑے سے دام یعنی (دنیوی فائدے) حاصل کئے لیکن صحابہ کرامؓ کے نزدیک مذہب سب سے زیادہ گراں قیمت چیز تھی، اس لئے ان کے نزدیک دنیا کی کوئی چیز اس کی قیمت نہیں ہوسکتی تھی، مسلمانوں کو بیت المال سے سالانہ وظیفہ ملا کرتا تھا ایک شخص نے حضرت ابوذرغفاریؓ سے پوچھا کہ اس کی نسبت آپ کا کیا حکم ہے،فرمایا: اس وقت تو لیتے رہو؛ لیکن جب وہ تمہارے دین کی قیمت بن جائے تو چھوڑدو۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، بَاب فِي الْكَنَّازِينَ لِلْأَمْوَالِ وَالتَّغْلِيظِ عَلَيْهِمْ،حدیث نمبر:۱۶۵۷) حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بہت کچھ مال و جائیداد دے کر یزید کی بیعت پر آمادہ کرنا چاہا اوراس غرض سے ان کی خدمت میں حضرت عمروبن العاصؓ کو بھیجا لیکن انہوں نے کہا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ اورپھر کبھی نہ آؤ میرا دین تمہارے دینار و درہم کے معاوضہ میں بک نہیں سکتا میری صرف یہ خواہش ہے کہ دنیا سے جاؤں تو میرا ہاتھ پاک وصاف ہو۔ (طبقات ابن سعد،تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) یہ صرف مخصوص صحابہ کا حال نہ تھا؛ بلکہ تمام صحابہ میں یہ فضیلت مشترک طورپر پائی جاتی تھی ؛چنانچہ بہت سے صحابہ کی تولیت میں بہت سے یتیم بچے تھے،جن کے کھانے پینے کی چیزیں ان کے کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ مخلوط تھیں؛ لیکن جب قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں: " وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ " (بنی اسرائیل:۳۴) اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکو،مگر ایسے طریقے سے جو(اُس کے حق میں) بہترین ہو۔ "إِنَّ الذين يَأْكُلُونَ أموال اليتامى ظُلْماً إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ نَاراً" (النساء:۱۰) جولوگ ظلما یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔ ان صحابہ نے ان چیزوں کو اپنے کھانے پینے کی چیزوں سے الگ کردیا،یہاں تک کہ ان یتیموں کی یہ چیزیں بعض اوقات فاضل بچ کر خراب ہوجاتی تھیں؛ لیکن صحابہ کرام ان کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے(پھر اس کا تذکرہ حضور اکرمﷺ کے سامنے کیا گیا توسورۂ بقرۂ کی آیت نمبر۱۲۰ نازل ہوئی،جس میں یہ واضح کیا گیا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ یتیموں کی مصلحت کا پورا خیال رکھا جائے) (ابوداؤد، کتاب الوصایا،بَاب مُخَالَطَةِ الْيَتِيمِ فِي الطَّعَامِ،حدیث نمبر:۲۴۸۷) زکوٰۃ صدقہ سے اجتناب اہل استطاعت پر صدقہ وزکوٰۃ کا مال حرام ہے اس لیے صحابہ کرام اس سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتے تھے، ایک بار حضرت عمرؓ کو ایک شخص نے دودھ پلایا جوان کو نہایت لذیذ معلوم ہوا ،دریافت کیا کہ یہ دودھ کہا سے لائے ہو؟ بولا کہ میں ایک گھاٹ پر گیا لوگ صدقے کے اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے سب نے پانی پلا کر میرے لئے دودھ دوہا جس کو میں نے اپنے مشکیزے میں بھر لیا اور یہ وہی دودھ ہے، حضرت عمرؓ نے فوراًمنہ میں ہاتھ ڈالا اورقے کردی۔ (موطا مالک،کتاب الزکوٰۃ، باب ما جاء في أخذ الصدقات والتشديد فيها،حدیث نمبر:۵۳۶) ایک بار حضرت عبداللہ بن ارقمؓ نے حضرت اسلم عدوی سے کہا کہ مجھے سواری کا ایک اونٹ بتاؤ میں اس کو امیر المومنین سے مانگوں گا،بولے، ہاں صدقہ کا اونٹ ہے، انہوں نے کہا کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ ایک موٹا تازہ آدمی گرمی کے دنوں میں اپنی شرمگاہ کو دھو کر وہ دھوون تمہیں پینے کو دے؟ وہ برہم ہوئے اورکہا، استغفر اللہ آپ ایسا کہتے ہیں، بولے تو صدقہ بھی آدمیوں کا میل ہے جس کو وہ دھوکر اپنے جسم سے الگ کردیتے ہیں۔ (مؤطا مالک ،کتاب الجامع، باب مایکرہ من الصدقہ،حدیث نمبر:۱۵۹۲) ایک بار حضرت سلمان فارسیؓ سے غلام نے کہا کہ ،مجھے مکاتب بنادیجئے، بولے، تمہارے پاس کچھ مال ہے، اس نے کہا، نہیں لوگوں سے مانگ کربدل کتابت ادا کردوں گا، بولے تم مجھے لوگوں کا دھوون کھلا نا چاہتے ہو۔ (طبقات ابن سعد ،تذکرہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ) حضرت عبداللہ عمرؓ نے اپنا ایک غلام اپنی ماں پر صدقہ کردیا تھا ایک دن وہ بازار سے گذرے تو ایک شیر دار بکری نظر آئی جو فروخت ہو رہی تھی، چونکہ وہ دودھ سے افطار کرنا پسند کرتے تھے، اس لئے اس غلام سے کہا کہ اپنی اُجرت کی رقم سے بکری کو خرید لو، لیکن افطار کے وقت اس بکری کا دودھ سامنے آیا تو بولے کہ دودھ بکری کا ہے اوربکری غلام کی کمائی کی ہے اور غلام کو میں نے اپنی ماں پر صدقہ کردیا ہے،اس کو لے جاؤ مجھ کو اس کی ضرورت نہیں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) حدیث شریف میں آیا ہے کہ میزبان اگر تین دن سے زیادہ مہمان کی ضیافت کرے تو وہ داخل صدقہ ہوگی، اس بناپر حضرت عبداللہ بن عمرؓ مکہ میں آتے تھے تو تین دن تک ان کا کھانا حضرت خالد بن اسیدؓ کے یہاں سے جو ان کے رشتہ دار تھے آتا تھا، لیکن تین دن کے بعد کہہ دیتے تھے کہ اب اپنا صدقہ بندکرو اوراپنے غلام نافع کو حکم دیتے تھے کہ اب تم اپنے پاس سے اکل و شرب کا انتظام کرو۔ (زرقانی شرح مؤطامالک،۴/۳۸۶) قتل مسلم سے اجتناب مسلمانوں کا قتل حرام ہے،قرآن مجید میں ہے: "وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا" (النساء:۹۳) اور جو کسی مسلمان کو قصدا مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس بنا پر صحابہ کرام مسلمانوں کی خونریزی سے سخت اعتراض کرتے تھے، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد ؓ کو قبیلہ بنوحذیمہ کے پاس دعوت اسلام دینے کے لیے بھیجا انہوں نے ان کو دعوت اسلام دی،تو انہوں نے کہا،صبانا،صبانا، یعنی ہم صابی ہوئے، چونکہ کفار مسلمانوں کو صابی کہتے تھے اس لئے انہوں نے اسی لفظ سے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ؛لیکن حضرت خالد بن ولیدؓکو اس پر تسکین نہیں ہوئی اورانہوں نے ان کو قتل کرنا اورگرفتار کرنا شروع کیا ؛یہاں تک کہ ایک دن عام حکم دے دیا کہ ہر شخص اپنے اپنے قیدیوں کو قتل کر ڈالے؛ لیکن تمام صحابہ نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا اورجب آنحضرت ﷺ سے آکر واقعہ بیان کیا تو آپ نے بھی ان کی تائید کی اور دوبار فرمایا کہ خداوند، میں خالد کے اس فعل سے بری ہوتا ہوں۔ (بخاری ،کتاب المغازی، بعث خالد بنی جذیمہ مع فتح الباری،حدیث نمبر:۳۹۹۴) حضرت ابوبکرؓ نے مانعین زکوٰۃ سے جہاد کرنا چاہا، توحضرت عمرؓ نے اول اول اختلاف کیا اور کہا کہ کلمہ گویوں سے کیونکر جہاد کیا جاسکتا ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر:۱۳۱۲) ان (حضرت عمرؓ) پر ایک عجمی غلام نے حملہ کیا تو انہوں نے حضرت عباس سے شکایت کی کہ تم ہی لوگوں نے ان غلاموں سے مدینہ کو بھردیا، بولے، اگر حکم ہو تو سب کو قتل کردیں، فرمایا یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ وہ تمہاری زبان بولتے ہیں، تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں،تمہارا حج ادا کرتے ہیں۔ (بخاری، کتاب المناقب ،بَاب قِصَّةِ الْبَيْعَةِ وَالِاتِّفَاقِ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَفِيهِ مَقْتَلُ عُمَر،حدیث نمبر:۳۴۲۴) حضرت عبداللہ بن زبیر اور خوارج کے زمانہ میں جنگ ہوئی تو ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے کہا کہ ، آپ ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں حالانکہ یہ لوگ باہم ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں بولے، جو حی علی الصلوٰۃ کہے گا میں اس کی دعوت قبول کرلوں گا جو شخص حی علی الفلاح کہے گا میں اس کی دعوت قبول کرلوں گا لیکن جو شخص یہ کہے گا آؤ اپنے بھائی مسلمانوں کو قتل کرو، ان کا مال لوٹو، تو میں انکار کردوں گا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ عبداللہ بن عمرؓ) سود خواری سے اجتناب اسلام نے سود خواری کی ممانعت ایسے سخت قیود کی پابندی کے ساتھ کی ہے کہ اگر ذراسی غفلت یا بے پروائی کی جائے تو معمولی معاملات بھی سود کی صورت میں داخل ہوجائیں ، صحابہ کرامؓ ان تمام قیود کا لحاظ رکھتے تھے، اوران سے نہایت احتیاط کے ساتھ بچتے تھے، ایک بار حضرت مالک بن اوسؓ نے حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ سے بیع صرف کرنی چاہی( یعنی اشرفی کے بدلہ میں درہم لینا چاہا) اورسواشرفیاں ان کے سامنے رکھ دیں، انہوں نے ان کو اٹھالیا اورکہا کہ جنگل سے خزانچی آئے تو درہم دلادیں، حضرت عمر سن رہے تھے، بولے بغیر لئے ہوئے ہر گز نہ جانا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سونے کے بدلے میں چاندی اگر دست بدست نہ لی جائے تو سود ہے۔ (بخاری ،کتاب البیوع ،باب بیع الشعیربالشعیر،حدیث نمبر:۲۰۲۸) ایک بار حضرت معمر بن عبداللہ نے اپنے غلام کو ایک صاع گیہوں دیا کہ اس کو بیچ کر بازار سے جولائے،اس نے بازار میں جاکر جو لیا تو ایک صاع سے کچھ زیادہ پایا ،حضرت معمرؓ کو اس کی خبر ہوئی تو بولے اس کو فوراً جاکر واپس کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ غلہ کو مثل بمثل خریدنا چاہئے، لوگوں نے کہا بازار میں صرف جو کا رواج ہے گیہوں نہیں مل سکتا بولے کہ،مجھے خوف ہے کہ یہ سود کے مشابہ نہ ہوجائے۔ (مسند ابن حنبل ۶/۴۰۰) صحابہ کرام سود خواری سے نہ صرف خود بچتے تھے، بلکہ اورلوگوں کو بھی بچنے کی نصیحت کرتے تھے، ایک شخص حضرت عبداللہ بن سلامؓ کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے تو انہوں نے ان کے ساتھے نہایت مہربانی کا برتاؤ کیا اور کہا کہ آپ ایک کاروباری ملک میں رہتے ہیں، اسی لئے اگر آپ پر کسی کا قرض آتا ہو اوروہ آپ کے یہاں بھس کی ایک گٹھڑی بھی ہدیۃ بھیجے تو اس کو قبول نہ کی جئے گا کیونکہ یہ سود ہے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ ابوبردہ بن ابی موسی) شراب خواری سے اجتناب شراب عرب کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی ؛لیکن متعدد صحابہ مثلاً حضرت ابوبکر اورحضرت عثمان وغیرہ اپنی فطرتِ سلیمہ کی ہدایت سے زمانہ جاہلیت ہی میں اس سے محترز رہے؛ لیکن جو صحابہ اس کے عادی تھے، انہوں نے بھی شراب کی حرمت کے ساتھ ہی اس دیرینہ عادت کو اس طرح ترک کردیا کہ گویا انہوں نے جام وساغر کو منہ ہی نہیں لگایا تھا،شراب کی حرمت کا حکم بتدریج نازل ہوا، لیکن حرمتِ خمر کے متعلق سب سے آخری آیت: "إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ" (المائدہ:۹۱) شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اورجوئے کی وجہ سے تمہارے درمیان دشمنی اوربغض ڈالدے اورتم کو یاد الہی سے اورنماز سے باز رکھے تو تم باز نہیں آؤ گے۔ نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ بے ساختہ پکار اٹھے،انتھینا،ہم باز آئے۔ (ابوداؤد ،کتاب الاشربہ، باب فی تحریم الخمر،حدیث نمبر:۳۱۸۵ روایت میں پوری آیت نہیں ہے، ہم نے اس کو بڑھادیا ہے) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں ابو عبیدہ،ابوطلحہ اورابی بن کعب کو شراب پلا رہا تھا کہ اسی حالت میں ایک شخص نے آکر خبردی کہ شراب حرام ہوگئی،ابو طلحہ نے فوراً کہا کہ انس اٹھواورشراب کو گرادو،میں نے اس کو گرادیا۔ (بخاری ،کتاب الاشربہ، بَاب نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ وَهِيَ مِنْ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ ،حدیث نمبر:۵۱۵۴) دوسری روایت میں ہے کہ میں ابو طلحہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا کہ اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے حرمت شراب کی منادی کروائی، ابوطلحہ نے مجھے سے کہا کہ نکل کے دیکھو یہ کیسی آواز ہے؟ میں گھر سے نکلا اورپلٹ کر کہا کہ ایک منادی اعلان کررہا ہے کہ شراب حرام ہوگئی، ابو طلحہ نے مجھ سے کہا کہ توشراب گرادو، اورلوگوں نے اس کثرت سے شراب گرائی کہ مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی۔ (بخاری ،کتاب التفسیر، سورہ مائدہ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا ،حدیث نمبر:۴۲۵۴) بدکاری سے اجتناب زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب سخت بدکاری میں مبتلا تھے، لیکن اسلام نے ان میں عفت وعصمت کا ایسا احساس پیدا کردیا کہ سخت سے سخت نازک موقعوں پر بھی ان کا دامن اس معصیت سے آلودہ نہیں ہونے پاتا تھا۔ ہجرت کے بعد مکہ میں جو گرفتار بلا مسلمان رہ گئے تھے مکہ سے مدینہ تک ان کا پہنچانا مرثد بن ابی مرثدالغنویؓ کے متعلق تھا وہ ایک رات اسی غرض سے مکہ آئے وہاں ان کی آشنا ایک طوائف تھی جس کا نام عناق تھا وہ نکلی تو ان کی پرچھائیں دیکھ کر پہچان لیا اورنہایت پرتپاک سے ملی اورکہا کہ آج میرے گھر میں شب باشی کرو؛لیکن انہوں نے معذرت کی کہ زنا اب حرام ہوگیا ،اب اس نے شوروغل کیا یہ بھاگ کر ایک پہاڑ کے غار میں جا چھپے کفارنے وہاں تک تعاقب کیا؛لیکن خدا نے ان کو بچا لیا۔ (نسائی، کتاب النکاح ،باب تزویج الزانیہ،حدیث نمبر:۳۱۷۶) ایک صحابیہؓ کو جن کی اخلاقی حالت زمانہ جاہلیت میں اچھی نہ تھی ایک شخص نے اپنی طرف مائل کرنا چاہا تو بولیں، ہٹو اب جاہلیت کا وہ زمانہ گیا اوراسلام آیا۔ (مسند احمدابن حنبل ،۴/۸۷) اسلام کی پاک بازانہ تعلیم اورصحابہ کرام کی اسی پاک بازانہ زندگی کا یہ اثر تھا کہ اس زمانہ میں لونڈیاں تک بدکاری سے اباء کرنے لگیں؛ چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول جو رأس المنافقین تھا اپنی لونڈیوں کو اسی ناجائز طریقہ سے روپیہ پیدا کرنے پر آمادہ کرتا تھا؛ لیکن اس کی دولونڈیوں نے اس ننگ وعارکو گوارا نہیں کیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر شکایت کی کہ ہمارا آقا ہم کو زنا کرنے پر مجبور کرتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ "وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ" (النور:۳۳) (مسلم، کتاب التفسیر، وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ،حدیث نمبر:۵۳۵۴، ابوداؤد، کتاب الطلاق ،باب فی تعظیم الزنا،حدیث نمبر:۱۹۶۷) اپنی لونڈیوں کو زنا کرنے پر مجبور نہ کرو۔ اس جرم کا ارتکاب توصحابہ کرام سے بہت بعید تھا،وہ لوگ کسی عورت پر نگاہ ڈالنابھی پسند نہیں کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ایک حسین صحابیہ شریک نماز ہوتی تھیں، اس لئے بعض صحابہ آگے کی صف میں جاکر کھڑے ہوتے تھے کہ ان پر آنکھ نہ پڑنے پائے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الصلوٰۃ ،باب الخشوع فی الصلوٰۃ،حدیث نمبر،۱۰۳۶) اگر کسی صحابی نے ناجائز طریقہ سے بھی اس کی جرأت کی تو تمام صحابہ نے اس کو سخت قابل اعتراض خیال کیا، ایک بارحضرت محمد بن سلمہ ؓ نے ایک عورت سے نکاح کرنا چاہا اورنکاح سے پہلے چوری چھپے اس کو دیکھنا چاہا،یہاں تک کہ اس کے نخلستان میں اس کو دیکھ بھی لیا ؛لیکن لوگوں نے ٹوکا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہوکر ایسا کرتے ہیں؟ بولے آپ ہی نے اس کی اجازت دی ہے۔ ایک بار حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے نکاح کرنا چاہا اور رسول اللہ ﷺ سے مشورہ طلب کیا، آپ نے فرمایا کہ پہلے عورت کو جاکر دیکھ لو، اوروہ اس غرض سے اس کے گھر گئے تو عورت نے پردہ سے کہا، اگر رسول اللہﷺ کاحکم ہے تو خیر ورنہ تمہیں خدا کی قسم ایسانہ کرنا۔ ( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النظرالی المرأۃا ذاارادان یتزو جہا،حدیث نمبر:۱۸۵۶) کسی عورت پر قصداً نگاہ ڈالنا تو بڑی بات ہے ،حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ تو یہاں تک فرماتے تھے کہ مجھے یہ پسند ہے کہ میری ناک مردار کی بدبوسے بھر جائے ؛لیکن یہ پسند نہیں کہ اس میں کسی عورت کی خوشبو آئے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت موسیٰ اشعریؓ) راگ باجے سے اجتناب صحابہ کرام کے کانوں کو صرف تلاوتِ قرآن کی آوازخوش آیند معلوم ہوتی تھی، اس لئے وہ عودوبربط،اورچنگ ورباب کی آواز پرکان نہیں دھرتے تھے، ایک بارحضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے آواز طبل سنی توکان بند کرلیے اور فرمایاکہ: رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ ( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب الغناء والدف،حدیث نمبر:۱۸۹۱) ایک بار اونٹ پر سوار جارہے تھے چرواہے کی بانسری کی آواز کان میں آئی، توفوراً کان میں انگلیاں دے لیں، اورپہلا راستہ چھوڑکر دوسرا راستہ اختیار کرلیا اوربار بار اپنے غلام نافع سے پوچھتے جاتے تھے کہ آواز آتی ہے یا نہیں؟ جب انہوں نے کہا کہ نہیں تو کانوں سے انگلیاں نکالیں اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے موقع پر ایسا ہی کیا تھا۔ (طبقات ابن سعد ،تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) ایک بار بازار میں گذرے تو دیکھا کہ ایک چھوکری گارہی ہے فرمایا: اگر شیطان کسی کے بہکانے سے باز رہتا تو اس کو نہ بہکاتا۔ (ادب المفرد، باب الغناولہو) ایک بار عید کے دن چند لڑکیاں حضرت عائشہؓ کے پاس جنگ بعاث کے متعلق اشعارگارہی تھیں، حضرت ابوبکرؓ آئے اورکہا کہ رسول اللہ ﷺ کا گھر اورمزامیرِشیطان ،آپ ﷺ نے فرمایا :ابوبکرؓ یہ ہماری عید کا دن ہے۔ (بخاری، بَاب سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ،حدیث نمبر:۸۹۹) ایک بار ایک گھر میں تقریب تھی اورایک شخص گارہا تھاحضرت عائشہؓ نے دیکھا کہ وہ گردن ہلا ہلا کے گارہا ہے تو کہا اُف یہ شیطان ہے، اس کو نکالو، اس کو نکالو۔ (ادب المفرد، باب اللہوفی الختان،حدیث نمبر:۱۲۸۸) راگ باجاتو پھر بھی بڑی چیز ہے حضرت عائشہ کا یہ حال تھا کہ گھنٹی کی آواز سننا بھی پسند نہیں کرتی تھیں اگر سامنے سے گھنٹی کی آواز آتی تو ساربان سے کہیتیں کہ ٹھہرجاؤ تاکہ یہ آواز سننے میں نہ آئے اوراگر سن لیتیں تو کہتیں کہ تیزی کے ساتھ لے چلوتا کہ میں اس آواز کو نہ سن سکوں۔ (مسند احمد،۶ /۱۵۲) مشتبہات سے اجتناب حلال وحرام دونوں بدیہی ہیں ؛لیکن بہت سی چیزیں ہیں جن کی حلت وحرمت دونوں مشتبہ ہے، زہد وتورع ،تقویٰ وطہارت اورحزم واحتیاط کا اصلی محل یہی چیزیں ہیں،اس بنا پر حدیث شریف میں ان چیزوں سے بچنے کی تاکید آئی ہے۔ "الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنْ الْإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ وَمَنْ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنْ الْإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ" (بخاری،بَاب الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ،حدیث نمبر:۱۹۱۰) حلال بھی واضح ہے اورحرام بھی اوران کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں پس جو شخص مشتبہ گناہوں کو چھوڑے گا وہ کھلے ہوئے گناہوں کا سب سے زیادہ چھوڑنے والا ہوگا اورجو شخص مشتبہ گناہوں کا مرتکب ہوگا بہت ممکن ہے کہ کھلے ہوئے گناہوں کا مرتکب ہوجائے گا، گناہ خدا کی چراگاہ ہیں اورجو شخص چراگاہ کے گرد چرائے گا ؛ممکن ہے کہ اس کے اندر داخل ہوجائے۔ اس لئے صحابہ کرام ؓ ہمیشہ ان مشتبہ چیزوں سے احتراز فرماتے تھے۔ حالت احرام میں شکار کرنا جائز نہیں، ایک بارصحابہ سفر حج میں تھے سب نے احرام باندھ لیا تھا، صرف ابو قتادہ انصاری ؓ غیر محرم تھے، ایک جنگلی گدھا نظرآیا، انہوں نے گھوڑے کو اس کے پیچھے ڈال دیا ،صحابہ سے کوڑاورنیزہ مانگا یہ ایک مشتبہ فعل تھا، اس لئے سب نے انکار کردیا، بالآخران کو خود نیزہ اٹھانا پڑا، گدھے کا شکار ہوچکا تو بعض صحابہ نے گوشت کھانے سے بھی انکار کردیا۔ (ابوداؤد،کتاب المناسک،بَاب لَحْمِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ،حدیث نمبر:۱۵۷۸) ایک بار حضرت ابوطلحہؓ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ ان کے نیچے سے ایک چادر نکال لے ،حضرت سہیل بن خیفؓ پاس بیٹھے ہوئے تھے، بولے کیوں؟ فرمایا اس میں تصویر بنی ہوئی ہے اورتصویروں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے وہ تم کو معلوم ہے، بولے لیکن آپ نے کپڑے میں بنی ہوئی تصویر کی ممانعت نہیں فرمائی ،بولے ہاں لیکن میرے دل کا اطمینان اسی طرح ہوگا۔ (ترمذی، کتاب اللباس ،باب ماجافی الصورۃ،حدیث نمبر:۱۶۷۲) ایک بار حضرت مسوربن مخرمہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی عیادت کو آئے حضرت عبداللہ بن عباسؓ استبرق کی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حضرت مسوربن مخرمہ ؓ نے اس پر ٹوکا تو بولے، رسول اللہ ﷺ نے صرف غرور وتکبر کی بناپر اس کی ممانعت کی تھی اورالحمدللہ کہ ہم مغرور نہیں ہیں، انہوں نے کہا تو پھر چولہے میں یہ تصویریں کیسی بنی ہوئی ہیں، بولے دیکھتے نہیں کہ ہم نے ان کو جلا ڈالا ہے، لیکن یہ چیزیں مشتبہات میں داخل تھیں، اس لئے جب وہ چلے گئے تو فرمایا کہ میرے بدن سے یہ چادر اتار لو اوران تصویروں کا سرکاٹ ڈالو، کسی نے کہا کہ اگر ان کو صحیح وسلامت بازار میں فروخت کرڈالتے توفائدہ ہوتا ،بولے نہیں۔ (مسنداحمد،بدایہ مسند ابن عباس،حدیث نمبر:۲۷۸۱) نو مسلم لوگ صحابہ کے پاس گوشت لے کر آتے تھے،صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ یہ ابھی دورجاہلیت سے نکلے ہیں، ہم کو معلوم نہیں کہ خدا کا نام لے کر ذبح کیا ہے یا نہیں کیا ہم اس گوشت کو کھاسکتے ہیں، فرمایا "بسم اللہ کہہ کر کھاسکتے ہو" (ابوداؤد،بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ اللَّحْمِ لَا يُدْرَى أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا،حدیث نمبر:۲۴۴۶) حضرت اسماء ؓ کی ماں کا فرہ تھیں اورحضرت ابوبکرؓ نے زمانہ جاہلیت میں ہی میں ان کو طلاق دے دی تھی، ایک بار وہ حضرت اسماءؓ کے پاس متعدد چزیں ہدیہ لے کر آئیں، چونکہ ایک کافرہ عورت کا ہدیہ مشتبہ تھا اس لیے حضرت اسماء نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا اورحضرت عائشہ کے ذریعہ سے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرایا توآپ نے اس ہدیہ کو قبول کرنے کی اجازت دی۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت اسماءؓ) عمال سلطنت کی آمدنی بعض حیثیتوں سے مشتبہ ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ زہد پیشہ لوگ سلاطین وامراء کے دربارسے ہمیشہ اپنا دامن بچاتے رہتے ہیں، صحابہ کرام کے زمانہ تک اگرچہ عمال وامراء کی مذہبی اوراخلاقی حالت اس زمانہ سے بہت بہتر تھی تاہم جو صحابہ نہایت محتاط تھے وہ اس قسم کی آمدنی سے فائدہ اٹھانا پسند نہیں کرتے تھے، حضرت ابوذر غفاری نے دنیا سے الگ ہوکر بادیہ نشینی اختیار کرلی تھی، اس لئے انہوں نے تمام عمر اسی زہد و تورع کے ساتھ بسر کی،مرنے لگے تو بی بی نے رو کرکہا کہ ،میرے پاس تو تمہارے کفن کے لئے بھی کپڑا نہیں ہے، بولے رومت میں ایک دن چند لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ایک آدمی جنگل میں مرے گا اوراس کے جنازے میں مسلمانوں کا ایک گروہ شریک ہوگا اورلوگ جو اسی جماعت میں شریک تھے وہ تو مسلمانوں کے درمیان مرچکے صرف میں رہ گیا تھا اور جب جنگل میں مررہاہوں تم راہ دیکھو اور انتظار کرو ، بی بی نے کہا اب تو حاجیوں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا،بولے خیر راستہ دیکھو حسن اتفاق سے دفعتاً ایک قافلہ آگیا اس نے ان کی بی بی سے پوچھا کیا حال ہے بولیں ایک مسلمان کو کفناؤ اورثواب لو، انہوں نے حضرت ابوذرغفاری کا نام سنا تو تیزی کے ساتھ دوڑے اورکہا ہمارے ماں باپ ان پر قربان پاس آئے تو حضرت ابوذر نے کہا تمہیں وہ لوگ ہو جن کی رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو خبر دی تھی، اگر میرے کپڑے کافی ہوتے تو ان ہی میں میرا کفن ہوتا، لیکن اگر تم میں کوئی شخص امیر، عریف یا بریدہو تو وہ مجھے کفن نہ دے، لیکن ان میں ہر شخص ان خدمات کو انجام دے چکا تھا صرف ایک انصاری نوجوان تھا جس نے کہا میرے پاس دو کپڑے ہیں جن کو میری ماں نے بنا ہے ،بولے بس تمہی میرے رفیق ہو،تمہی مجھے کفن پہناؤ۔ (مسند احمد،حدیث ابی ذر،حدیث نمبر:۲۰۴۹۴)