انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت عباسیہ میں انقلاب اسی سال یعنی۳۲۷ھ میں سلطان کے پاس عباسی خلیفہ مقتدر کے مقتول ہونے خلافت عباسی کے برالے نام باقی رہنے اور عبیدیین کے دعی خلافت کی خبریں پہنچیں،سلطان عبدالرحمن ثالث نے یے دیکھ کر کہ اب خاندان عباسیہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہا اور عبیدیین سے اندلس کے مسلمانوں کو بوجہ ان کے شیعہ ہونے کے کوئی ہمدردی نہیں ہے ،مناسب سمجھا کہ امیرالمؤمنین اور خلیفۃ المسلمین کا خطاب اختیار کرے؛چنانچہ اس نے اپنے امیرالمؤمنین ہونے کا اعلان کیا ،اور ناصر لدین اللہ کا لقب اختیار کیا اس خطاب اور لقب کی کسی نے مخالفت نہیں کی اور حقیقت بھی یہ تھی کہ اس زمانے میں وہی عالم اسلام کے اندر سب سے زیادہ خلیفۃ المسلمین کہلائے جانے کا مستحق بھی تھا ،اس کے بعد امیرالمؤمنین عبدالرحمن نے قرطبہ کی رونق وشان بڑھانے اور خوبصور عمارات بنانے کی طرف توجہ مبذول کی اورآٹھ دس سال تک برابر ہر سال شمال کی عیسائی ریاستوں کی سرکوبی کواپنی حفاظت کا ذریعہ بنایا اور شمالی عیسائیوں کو اس قدر مجبور ومغلوب کیاگیا کہ ہر ایک نہ اظہار عجز وانکساری ہی کو اپنی حفاظت کاذریعہ بنایا اور شمالی عیسائیوں کی سرکوبی وبغاوت کا خطرہ بالکل جاتا رہا۔ اندلس کے واسعات جواب تک بیان ہوچکے ہیں ان کے مطاعہ سے خلیفہ عبدالرحمن کی یہ غلطبی بالکل صاف نظر آتی ہے کہ اس نے باوجود اس کے کہ شمالی ریاستوں کے حالات دیکھے سنے تھے مگر پھر بھی موقع پاکر ان کے وجود کو بکلی متاصل کرنا نہ چاہا اوران کو اپنا مغلوب دیکھ کر باقی رہنے دیا ،خلیفہ عبدالرحمن ۳۳۰ھ کے بعد بڑی آسانی سے ان تمام عیسائی ریاستوں کو جومسلمانوں کے مفتوحہ ملک میں مسلمانوں کی غفلت کے سبب پیدا ہوگئی تھیں ایک ایک کرکے مٹاسکتا اوراپنے مسلمان عامل مقرر کرسکتا تھا لیکن اس نے بھی جزیرہ نما کے اندر ان عیسائی ریاستوں کے وجود کو باقی رکھا،جس کا نتیجہ مسلمانوں کے لیے سخت مضر ثابت ہوا،اس زمانہ میں غالباً یہ تصور بھی نہ ہوسکتا ہوگا کہ کسی دن مسلمانوں کی اولاد ایسی ضعیف وناتواں ہوجائے گی کے یہ عیسائی نواب جوآج فرماں برداری کااقرار کررہے ہیں ،اندلس سے اسلام کا نام ونشان نٹاسکیں گے ،امیرالمؤمنین بننے کے بعد عبدالرحمن ثالث نے دارالخلافہ قرطبہ سے باہر قدم نہیں رکھا اور جب کبھی ضرورت ہوئی اپنے سرداروں کو فوجں دے کرلڑائیوں پر بھیجا۔