انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ (م:۱۴۰۲ ھ) ۱۔دین نقلی ہے عقلی نہیں،اگر دین محض عقلی اوراختراعی ہوتا تو انبیاء کرام ؑ کے دنیا میں تشریف لانے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ (مجالس حکیم الاسلام:۱/۸۴) ۲۔اکثر اہل کمال بخیل دیکھے گئے ہیں جو چیز کمال کی ہوتی ہے اسے دوسرے کو نہیں بتاتے کہ وہ چیز ہم سے جاتی رہے گی، اس لئے اہل کمال اس سلسلہ میں بخیل ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے اہل کمال جب دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنا کمال بھی ساتھ لیتے گئے،دنیا میں اس کا وجود ہی باقی نہیں رہا، ایسے کو کمال دینا نہ دینا برابر ہے۔ ۳۔صبر کا تعلق ہاتھ پیر سے نہیں بلکہ قلب سے ہے اور قلب کا وظیفہ یہ ہے کہ صبر کرے اورصبر کے معنی یہ ہیں کہ بندہ رضا کا اظہار کردے کہ جو کچھ من جانب اللہ ہو ا وہ ٹھیک ہوا،باقی یہ حکم بھی ہے کہ جدوجہد کرو اورکوشش بھی کرو،ہاتھ پیر سے سعی بھی کرو، یہ صبر کے منافی نہیں ،سعی کا حاصل یہ ہے کہ اس چیز کو پانے کے لئے جدوجہد کرو جو گم ہے،لیکن جو کچھ نتیجہ نکلے اس پر راضی رہے،اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنا بھی صبر ہے، اس میں چون و چرا بالکل نہ کریں۔ (مجالس حکیم الاسلام:۱/۱۰۲) ۴۔بلندی کا تعلق پستی سے ہے اس لئے آدمی جتنا ہی بلند ہوگا اتنی ہی اس کے اندر تواضع ہوگی اس لئے جتنا ہی اللہ کے سامنے پست ہوگا اتنا ہی بلند ہوگا،تواضع کا خاصہ ہے رفعت اورعظمت ،تو جو جتنا رفیع المرتبہ ہوگا اتنی ہی اس کے اندر تواضع ہوگی،نبی کریم ﷺ سید البشر اوراکمل الخلائق ہیں اس لئے جتنی بھی آپ کی عظمت اور آپ کا احترام ہو وہ کم ہے،لیکن تواضع کا غلبہ یہ ہے کہ مجلس میں بیٹھ کر آپ کسی اونچی جگہ کو خود منتخب نہیں کرتے تھے،صحابہؓ ادھر ادھر بیٹھتے ہیں بیچ میں آپ بھی بیٹھے ہیں۔ (مجالس حکیم الاسلام:۱/۱۲۰) ۵۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر میں اس کی ضرورت ہے کہ شفقت سے ہو،محبت سے ہو،نرمی سے بھائی بندی کے طرز پر ہو، مسئلہ بھی معلوم ہوجائے اور دوسرا شرمندہ بھی نہ ہو،تبلیغ کا یہ جذبہ نہ ہو کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرکے الگ ہوجاؤں گا یہ جہنم میں جائے یا کہیں جائے ؛بلکہ جذبہ یہ ہوکہ اس کوشریعت پرلانا ہے۔ (مجالس حکیم الاسلام:۱/۱۵۶) ۶۔ایک طریقہ نصیحت کا یہ ہے کہ اگر کسی کو برائی میں دیکھا جائے تو برسر مجمع اس کو نہ کہا جائے؛کیونکہ وہ شرمندہ اوررسوا ہوگا؛بلکہ تنہائی میں بلاکر نرمی کے ساتھ کہا جائے تاکہ وہ رسوانہ ہو اوروہ منکر بھی چھوڑدے۔ (مجالس حکیم الاسلام:۲/۱۵۸) ۷۔دین کی بنیاد ادب ہی پر ہے،اگر بے ادبی وگستاخی ہوگی تو دین خبط ہوجائے گا،اللہ کا ادب،اللہ کے رسولوں کا ادب،کتب خداوندی کا ادب،مکانات خدا وندی کا ادب،یہ تمام آداب ضروری ہیں، اگرہاتھ سے نکل گیا تو دین ہاتھ سے نکل گیا۔ (مجالس حکیم الاسلام:۱/۲۰۶) ۸۔جس طرح تمدنی انقلابات آتے ہیں اسی طرح دینی انقلابات بھی آتے ہیں؛چنانچہ جب اس کا موقع آتا ہے تو انسان کے جذبات وافکار بدل جاتے ہیں یہ ذہنی انقلاب ہوتا ہے بقیہ دوسرے انقلابات اس کے تابع ہوتے ہیں۔ (مجالس حکیم الاسلام:۱/۲۱۸) ۹۔آدمی کو اتنی ہی تمنا کرنا چاہئے جتنا اس کا ظرف ہو،طاقت سے زیادہ مانگنا یہ تو فنا کا مانگنا ہے کہ میں باقی ہی نہ رہوں گا،لہذا گھاس صرف یہ تمنا کرے کہ میرے اندر پھول آجائیں یہ اس کے مناسب ہے پہاڑ اٹھانے کی تمنا بے کار ہے۔ (مجالس حکیم الاسلام:۱/۲۴۲) ۱۰۔آدمی کتنا ہی عمل کرے مگر نجات فضل ہی سے ہوگی؛کیونکہ عمل سے حق کی ادائیگی نہیں ہوسکتی،کیونکہ اللہ تعالی کے حقوق لا محدود اورہمارے اعمال محدودہیں، اگر آدمی کتنی بڑی زندگی پائے اور عمل کرتا ر ہے تو پھر بھی حق نہیں ادا کرسکتا۔ ۱۱۔اگر دل میں کجی اورٹیڑھا پن موجود ہو تو ہر چیز اورہر بات آدمی غلطی ہی سمجھتا ہے،کتنا ہی صحیح معنی بیان کیا جائے ،وہ اوندھا ہی سمجھے گا، اس لئے کہ اس کی سمجھ ہی اوندھی ہے،یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن پاک میں نصرانی زیغ لے کراترے تو ہرلفظ سے نصرانیت کا طریقہ معلوم ہوگا کہ سارے قرآن میں نصرانیت بھری ہوئی ہے،اگر یہودی ذہنیت لے کر آئے گا تویہ معلوم ہوگا کہ ہر آیت سے یہودیت نکل رہی ہے،وہ وہی فائدہ اٹھا ئے گا جو اس کے اندر ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۱۶) ۱۲۔اگر انسان کو علم وحی حاصل نہ ہو تو وہ انسان انسان نہ رہے گا، اس لئے کہ انسان کی خصوصیت اس میں نہ آئی یا نہ رہی، گو اس کی صورت انسانوں جیسی ہو اورظاہر ہے کہ انسان نام انسانی صورت کا نہیں ؛بلکہ انسانی جوہر کا ہے اور انسانیت کا جوہر،"علم وحی" ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص :۱۷) ۱۳۔مردوہ ہے کہ جسے دیکھ کر رعب طاری ہو،مرد وہ نہیں جسے دیکھ کر شہوت ابھرے،یعنی صورت آرائی،شہوت رانی ہے اورصورت آرائی مردانگی نہیں ہے،اس لئے کہ صورت کو کہاں تک بنائیں گے،جو بگڑنے کے لئے ہی بنی ہے،بنانا اس چیز کاضروری ہے جو بن کر بگڑتی نہ ہو اور وہ سیرت،اخلاق فاضلہ اورعلوم وکمالات ہیں۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۲۱) ۱۴۔مدارس دینیہ صرف علم نہیں سکھاتے؛بلکہ ملک میں امن وامان کا سا مان بھی مہیا کرتے ہیں،ان مدارس کی بدولت اگر خداترس ،متدین آدمی پیدا ہوں گے تو نہ ڈکیتی ہوگی نہ چوری نہ زنا کاری اورنہ دوسری معصیات۔ (ملفوظات حکیم الاسلام ؒ،ص:۲۲) ۱۵۔دانش مند کا کام یہ ہے کہ وہ صورت کے سنوارنے کے بجائے سیرت کو سنوارے اور یہی انسان کی حقیقت ہے اور رہ گئی صورت تو وہ چند روزہ بہار ہے،بڑھاپا آجائے،یا کچھ غم لگ جائے،یا کوئی فکر لاحق ہوجائے،یا کوئی بیماری لگ جائے تو سارارنگ وروپ زائل ہوجاتا ہے،تو صورت درحقیقت قابل التفات نہیں؛بلکہ اصل چیز سیرت ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلام ؒ،ص:۲۲) ۱۶۔دین دار حقیقی معنی میں وہی ہے کہ اس کو دنیا جہاں بھی ملے وہ اس میں سے اپنے لئے دین پیدا کرلے، یہ بد عقلی ہے کہ آدمی دین کو بھی دنیا بنالے اور دانش مندی یہ ہے کہ دنیا میں سے اپنے حق میں دین اورخیر نکال لے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۲۵) ۱۷۔جہاں دولت زیادہ ہے مصائب بھی زیادہ ہیں اوردولت ہمیشہ رہنے والی نہیں،بیچ میں جواب دے جاتی ہے،بے وفائی کرتی ہے،تو ایسی بے وفا پر تم آخرت کے بارے میں بھروسہ کئے ہوئے ہو، آخرت تو بعد میں ہے تم دنیا تو سنبھال لو وہ لازمی نہیں سنبھلنی،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چیز چھن جائے تو ساری زندگی ختم۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ ،ص:۳۶) ۱۸۔آپ ﷺ کی زندگی اورزندگی کی سیرت بالاصل نہ ملوکیت تھی نہ ریاست نہ غلبہ وقہر تھی نہ تسلط واستیلا ءنہ تعیش تھی نہ تزین،نہ آرائش تھی نہ زیبائش نہ راحت طلبی نہ آسائش ؛بلکہ سرافگندگی ،نیاز کشی ،عبودیت،طاعت وعبادت تھی،جس میں خوئے ذکر اور بوئے فکر سمائی ہوئی تھی اور جو کچھ بھی زندگی کی نقل وحرکت تھی وہ اسی فکر دائمی اور ذکر دوامی کے رنگ میں تھی۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۵۱) ۱۹۔دنیا کی ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے،یہود ونصاری کا ایک مزاج ہے،مشرکین کا ایک مزاج ہے،مسلمانوں کا بھی ایک مزاج ہے، یہ جب بھی ترقی کریں گے اپنے مزاج کے مطابق چل کر ترقی کریں گے،اگر ایک قوم دوسری قوم کی نقالی کرنے لگے گی کہ جیسے اس کا مزاج ہے میں بھی اس طریقے پر چلو تو وہ نہیں چل سکے گی،اس لئے کہ طبعی طور پر اس کا مزاج یہ نہیں ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلام ؒ،ص:۷۷) ۲۰۔نصیحت کی زینت یہ ہے کہ وہ تنہائی میں ہو، بھرے مجمع میں کسی کو خطاب کرکے نصیحت کرنا اسے شرمندہ ورسواکرنا ہے،اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۷۷) ۲۱۔ایک بندہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ کا غلام ہوں اورپھر اپنی مرضی بھی چلائے تو یہ اجتماع ضدین ہے،بندہ کا کام یہ ہے کہ اپنی مرضی اورتجویز کو تو چھوڑ دے جو انہوں نے قانون بتلادیا ہے اس پر عمل کرنا شروع کردے، اطاعت کا ثمرہ یہ ہے کہ اس سے محبت پیدا ہوجائے،دنیا میں مطیع کو سب کچھ ملا ہے جو طالب ہو اور دعوی کرے اسے کبھی نہیں ملتا،اطاعت کا راستہ اختیار کرے تو خود بخود سب کچھ ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلام ؒ،ص:۸۴) ۲۲۔نیک آدمی کو ساری دنیا نیک کہتی ہے، کسی نے جاکے تو اس کو دیکھا نہیں کہ اس نے کیا کیا نیکیاں کی ہیں،خواہ مخواہ دنیا کی زبان پر یہ ہوتا ہے کہ فلاں بڑا نیک ہے،یہ اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں اوربد ہمیشہ ساری بدیاں چھپا کر کرتا ہے مگر دنیا کی زبانوں پر ہے کہ فلاں آدمی بڑا بدکار،سیاہ کار اوربے ہودہ ہے،یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلوں کو اطلاع دی جاتی ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۸۶) ۲۳۔انسان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں لیکن ساری نعمتوں کی اصل اصول زندگی کی نعمت ہے،جو ہمیں عطا کی گئی ہے،اگر زندگی نہ ہو تو کوئی بھی نعمت نہ ہماری نافع بن سکتی ہے نہ مفید ہوسکتی،ایک زندہ انسان ہی نعمت سے مستفید ہوسکتا ہے،تو ساری نعمتیں ایک طرف اورزندگی کی نعمت ایک طرف ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۱۰۷) ۲۴۔عزت کے بارے میں سنہری اصل یہ ہے کہ جو مقبولیت عوام سے اوپر کی طرف چلتی ہے،وہ بے بنیاد عزت ہوتی ہے،عوام میں پھیل گئی،آگے خواص میں اس کا کوئی خاص وجود نہیں،وہ عزت فرضی ہوتی ہے اور چند دنوں کے بعد زائل ہوجاتی ہے اورجو عزت خواص سے چلے اور عوام کی طرف آئے وہ حقیقی عزت ہوتی ہے،اس کی بنیاد خیالی اورفرضی نہیں ہوتی؛بلکہ قلب کی گہرائی ہوتی ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۱۰۸) ۲۵۔قرآن حکیم علوم و معارف کا ایک سمندر ہے اور اس میں تیرنے کا فن تعلیم ہے،علم سیکھ کر جب آدمی اس میں گھسے گا تو ہزاروں موتی اور علم کے جواہرات نکلیں گے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۱۱۲) ۲۶۔اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو سب سے ڈرنا چھوڑدو گے اوراگر اس سے نہیں ڈرو گے تو سب سے ڈرنا پڑےگا،اگر اس کی عبادت کروگے تو ہر ایک کی عبادت ترک کردوگے اوراگر اس کی عبادت نہیں کروگے تو دردرپہ جھکنا پڑے گا۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۱۸۲) ۲۷۔شریعت نے یہ تعلیم دی ہے کہ اگر کسی سے محبت کرو تو اعتدال سے اور اگر کسی سے عداوت کروتو بھی اعتدال سے کرو،افراط وتفریط سے بچو،نفس کے جذبے سے نہ محبت ہو اورنہ عداوت،اس لئے کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۱۸۲) ۲۸۔دنیا میں کسی قوم کے لئے اسباب عزت چار ہوتے ہیں: ۱۔اس کا اپنا اساسی علم،جس سے اس کی معنویت قائم ہوتی ہے۔ ۲۔اس کی اقتصادی اورمالی حیثیت ،جس سے اس کی مادیت بنتی ہے۔ ۳۔اس کی عرفی حیثیت ،جس سے اس کا وقار قائم ہوتا ہے۔ ۴۔اس کے اندرونی اوربیرونی تعلقات کی نوعیت،جس سے اس کے حلقہ اثر میں وسعت اور بنیادوں میں مضبوطی آتی ہے۔ (ملفوظات حکیم الا سلامؒ،ص:۲۱۷) ۲۹۔موت کے معنی فنا کے نہیں ہیں کہ آدمی موت کے آنے کے بعد فنا ہوگیا یا ختم ہوگیا ایسا نہیں ؛بلکہ موت کے معنی منتقل ہوجانے کے ہیں کہ اس دار سے اس دار میں، اس جہاں سے اس جہاں میں،تو انتقال ایک دار سے دوسرے دار کی طرف، ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف یہ تو ہوتا رہے گا مگر انسان مٹ جائے یہ نہیں ہوسکتا،اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ انسان ازلی تو نہیں لیکن ابدی ضرور ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۲۱۷) ۳۰۔علم کی غایت عمل ہے علم کا جوہر تقویٰ ہے اور علم کا زیور ادب ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۲۴۷) ۳۱۔دنیا میں کوئی قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی،نہ دولت سے چاہے ارب پتی بن جائے اور نہ کوئی قوم عددی اکثریت سے ترقی کرسکتی ہے کہ اس کے پاس افراد زیادہ ہوں اور نہ کوئی محض سیاسی جوڑتوڑ سے ترقی کرسکتی ہے؛بلکہ ملک اورقوم کی ترقی ہوتی ہے اخلاق اورکردار سے،جب یہ ختم ہوجائے تو سب سے بڑا تنزل کا سبب یہ ہے۔ (ملفوظات حکیم الاسلامؒ،ص:۲۷۰) (۱)دین و دنیا کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر اخلاصِ کامل اور نبی کریم ﷺ کی اتباعِ کامل پیدا کریں۔ (۲)جو ایسا بندہ ہو کہ وہ اللہ سے راضی اور اللہ اس سے راضی بندے کا اطلاق اسی پر آئے گا یعنی حقیقی معنی میں بندہ وہی ہے ۔ (۳)مسلمان کی دینی زندگی کے تین شعبے نکل آتے ہیں علم ، اخلاق اور عمل :۔ علم نہ ہو تو راستہ ہی نہیں مل سکتا کہ راہ روی ممکن ہو ، اخلاق نہ ہو تو عمل کی قوت میسر نہیں آسکتی کہ آدمی راہ مستقیم پر رواں دواں ہو ، اور عمل نہ ہوتو معطل قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہوسکتا کہ وہ عزت سے دنیا میں باقی رہے ۔ (۴)سائنس اچھے اچھے سامان پیدا کرسکتی ہے اچھے انسان نہیں پیدا کرسکتی ، اچھے انسان صرف انبیاء علیہم السلام کی تعلیم پیدا کرےگی جس سے کیرکٹر اور اخلاق درست ہو ۔ (۵)اپنی حقیقت کو فراموش مت کرو اور اللہ کی عظمت و بزرگی کو دل سے مت کھوؤ ، جب یہ دونوں چیزیں یاد ہوجائیں گی تو سائنس ، فلسفہ ، اور سامان سب چیزیں اچھی بن جائیں گی ، تمہارا دل اگر مسلم بن جائے تو ہوائی جہاز اور بحری جہاز بھی مسلمان ہوگا اور ساری چیزیں مسلمان ہوں گی، اور اگر تمہارا دل کافر ہے تو یہ ساری چیزیں کفار ہیں اور مضرت رساں ہیں ، تو درست کرنا اپنے آپ کو ہے سامان تو پہلے ہی سے درست ہے ، ان کا کیا درست کرنا ۔ (۶)علمِ دین کا حاصل کیا جانا ضروری ہے اس کے بغیر آدمی کی نہ روحانیت ہی جاگ سکتی ہے ،نہ روحانی مراتب طئے ہوسکتے ہیں، اور نہ اخلاق درست ہوسکتے ہیں ، اس لئے کہ اخلاق کا سرچشمہ حق تعالیٰ کی ذات ہے اور جب تک مذہب و دین نہ ہو آدمی کے اخلاق کبھی تربیت نہیں پاسکتے ، مادّیات سے تربیت نہیں ہوتی ۔ (۷)اسلام اصول پسندی کا نام ہے قوم پرستی کا نہیں ، اصول میں جامع ہونے کی شان ہے کہ وہ متفرق اقوام کو ایک دائرے میں جمع کرسکتا ہے ، اور قومیت میں تفریق کی شان ہے جو جمع شدہ اقوام کو بھی منتشر اور پراگندہ کردیتی ہے اور مختلف قسم کی حد بندیوں اور گروہی دائروں میں بانٹ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتی ہے ۔ (۸)اسلام عالمی دین ہے ، اس نے اپنے پیغام کو جس کا نام قرآن ِ کریم ہے "ذکرٌ لِّلعالمین ‘" فرمایا یعنی وہ سارے جہانوں کے لئے نصیحت ہے ، اپنے کعبہ کو "ھدیً لِّلعالمین " فرمایا کہ وہ جہانوں کے لئے ہدایت ہے ، اپنے رسول کو " رحمۃٌ لِّلعالمین"فرمایا کہ وہ جہانوں کے لئے رحمت ہیں ، اپنے پروردگار کو "ربُّ العالمین" فرمایا کہ وہ جہانوں کا پالنہار ہے ، اپنے دین کو دینِ فطرت کہا کہ جو ساری اولادِ آدم پر یکساں چھائی ہوئی ہے اپنے پیروؤں کو "یاأیّھا النّاس" سے خطاب فرمایا جس کے معنی سارے انسانوں کے ہیں کسی ایک قوم کے نہیں ، اور اپنی جائے نماز پوری زمین کو بتایا جس میں کسی وطن کی قید نہیں ۔