انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** نقض معاہدہ اب تک ان کی جوروش تھی اس سے مسلمانوں کوہروقت یہ خطرہ لاحق تھا کہ معلوم نہیں کس وقت یہ خطرہ لاحق تھا کہ معلوم نہیں کس وقت وہ نقض عہد کرکے ان پرحملہ کردیں؛ اسی خطرہ کی وجہ سے جب تک یہود مدینہ میں رہے، آپ جب کسی غزوہ میں مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تومدینہ کی حفاظت کا پورا انتظام فرماجاتے؛ یہی نہیں؛ بلکہ آہستہ آہستہ وہ معاہدہ کی ان رعایتوں کوبھی ختم کرتے جاتے تھے، جن کا مرعی رکھنا ان کے لیے ضروری تھا، غزوۂ بدر میں معاہدہ کی رُو سے اُن کومسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے تھی؛ مگرانھوں نے کوئی مدد نہی ںکی؛ پھربھی ان کواس پرنہ کوئی شرمندگی ہوئی اور نہ ان کے طرزِ عمل میں کوئی فرق آیا؛ بلکہ بنو قینقاع نے تو غزوۂ بدر کے فوراً بعد ہی نقض معاہدہ کا اعلان کردیا (غزوۂ بدر کے بعد فوراً نقض معاہدہ کی وجہ بجزاس کے کچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ انھوں نے سمجھا کہ مسلمان اس وقت کمزور ہیں؛ اگران پرحملہ کردیا جائے توبآسانی ختم ہوسکتے ہیں) اور اس کا مظاہرہ بھی شروع کردیا، یعنی یہ کہ ایک مسلمان عورت کی کھلے بازار انھوں نے بے حرمتی کی؛ لیکن آپ نے نقض معاہدہ اور اس واقعہ کے بعد بھی ان کے خلاف جارحانہ اقدام نہیں کیا؛ بلکہ اتمامِ حجت کے طور پر ان کوجمع کرکے سمجھانے کی کوشش کی اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی؛ لیکن وہ کسی طرح نہ مانے اور انکار وحجود پرقائم رہے توآخر میں آپ نے فرمایا کہ خدا سے ڈرو، کہیں ایسا نہ ہوکہ قریش کی طرح عذاب الہٰی تم کوبھی پالے؛ انھوں نے کہا ہم قریش نہیں ہیں ہم سے جنگ ہوگی تومعلوم ہوگا؛ چونکہ اس افہام وتفہیم کے بعد اب مزید مہلت کا موقع باقی نہیں رہ گیا تھا اس لیے مسلمانوں نے ان کے مکانوں کا محاصرہ کرلیا، آخرکار انھوں نے مدینہ چھوڑ دینے پراپنی رضامندی کا اظہار کیا اور وہاں سے وادی القریٰ؛ پھرکچھ دنوں کے بعد شام چلے گئے۔ (واقدی:۲۶۲) اس قبیلہ کے بعض افرا دکا اس کے بعد بھی مدینہ میں پتہ چلتا ہے، ممکن ہے جن لوگوں نے معافی مانگ لی ہو، ان کورہنے کی اجازت مل گئی ہو، بنوقینقاع کے اخراج کے بعد بھی یہود کے دوسرے قبائل کوکوئی عبر تحاصل نہیں ہوئی او رنہ اُنھوں نے اپنی روش میں کوئی تبدیلی پیدا کی؛ بلکہ اب پہلے سے بھی زیادہ انھو ںنے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیا ںشروع کردیں، خفیہ سازباز کی، قریش کودرپردہ مدددی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی، غرض معاہدہ کی ایک ایک دفعہ کوانھوں نے عملاً توڑ ڈالا توان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا گیا اور ان کواس کی سزابھگتنی پڑی، اس لیے کہ معاہدہ میں بار بار یہ بات دہرائی گئی تھی کہ جوظلم یانقض معاہدہ کرے گا اس کواس کا وبال اُٹھانا پڑے گا، یعنی سنہ۴ھ میں بنونظیر کا مدینہ سے اخراج ہوا اور سنہ۵ھ میں بنوقریظہ کااستیصال کیا گیا۔ ہم نے یہاں قصداً بہت اختصار سے کام لیا ہے اس لیے کہ اس مختصر مقدمہ میں ان واقعات کی پوری تفصیل کی گنجائش نہیں ہے؛ حالانکہ اس سلسلہ میں عاجز کے مطالعہ میں بع ضایسی چیزیں بھی آئی ہیں جوسیرت کی متداول کتابوں میں نہیں ملتیں؛ مگریہاں ان کے تذکرہ کا بھی موقع نہیں ہے، سنہ۴ھ میں بنونضیر کے اخراج کے بعد مدینہ کی داخلی فضا بڑی حد تک پرسکون ہوگئی مگرمدینہ کے باہر کی فضا مسلمانوں کے حق میں پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوگئی، یہود مدینہ سے نکلے توبنوقینقاع تووادی القریٰ ہوتے ہوئے شام چلے گئے؛ مگربنونضیر خیبر میں قیام پذیر ہوگئے، خیبر مدینہ کے بعد یہود کا دوسرا بڑا مرکز تھا؛ یہاں پہنچ کروہ خاموش نہیں بیٹھے؛ بلکہ اپنی ریشہ دوانیاں برابر جاری رکھیں؛ انھوں نے خیبر کے یہود اور آس پاس کے تمام عرب قبائل کومدینہ پرحملہ کے لیے تیار کیا، ان کا ایک وفد قریش کے پاس بھی گیا، اس وفد کا سرگروہ حیی بن اخطب تھا، اس سے اور قریش سے جوگفتگو ہوئی اسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی ریشہ دوانیوں کا پورا اندازہ ہوجائے: قریش: بنونضیر کے لوگ کہاں ہیں او رکیا کررہے ہیں؟ حیی بن اخطب: تركتهم بين خيبر والمدينة يترددون حتى تأتوهم فتسيروا معهم إلى محمد وأصحابه۔ (مكة والمدينة في الجاهلية وعهد الرسول صلى الله عليه وسلم :۱/۳۶۵،شاملہ، موقع مكتبة المدينة الرقمية۔ مغازی واقدی:۳۰۶۲، مطبوعہ بیسٹ پریس، کلکتہ) ترجمہ: میں نے ان کوخیبر اور مدینہ کے درمیان چھوڑ دیا ہے، وہ گشت کررہے ہیں اور تمہاری آمد کا انتظار کررہے ہیں، تم ان کومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اصحاب پرحملہ میں اپنے ساتھ پاؤ گے۔ قریش: بنی قریظہ کا کیا حال ہے؟ حیی بن اخطب: أقاموا بالمدينة مكرًا بمحمد حتى تأتوهم فيميلوا معكم۔ (مكة والمدينة في الجاهلية وعهد الرسول صلى الله عليه وسلم :۱/۳۶۵،شاملہ، موقع مكتبة المدينة الرقمية۔ مغازی واقدی:۳۰۶۲، مطبوعہ بیسٹ پریس، کلکتہ) ترجمہ:بنوقریظہ مدینہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کودھوکا دے دینے کی غرض سے مقیم ہیں، جب تم مدینہ پہنچو گے تووہ تمہارے ساتھ حملہ کردیں گے۔ اس سے دوباتوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ایک یہ کہ ان کی سازش کا جال کتنی دُور تک پھیلا ہوا تھا، دوسری یہ کہ بنونضیر کے اخراج کے وقت بنوقریظہ جوخاموش تھے تودرحقیقت اس میں ان کی ایک سیاسی چال اور سازش پوشیدہ تھی جوغزوۂ خندق کی صورت میں ظاہر ہوئی جس میں حجاز کے تمام مشہور قبائل شریک تھے؛ لیکن نصرت خداوندی اور مسلمانوں کے حسن تدبیر سے ان کوزبردست شکست ہوئی، بنوقریظہ جس مقصد سے اب تک مدینہ میں رُکے ہوئے تھے اس کا اس موقع پرانھوں نے درپردہ اظہار بھی کیا؛ مگرناکامی کے آثار دیکھ کروہ کھل کرسامنے نہیں آئے؛ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی درپردہ کبادیوں اور فساد انگیزیوں کا چونکہ علم ہوچکا تھا اس لیے غزوۂ خندق کے فوراً بعد ہی مدینہ سے ان کا بالکل استیصال کردیا گیا۔