انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت نافع بن ابی نعیمؒ نام ونسب اسم مبارک نافع اورابو عبدالرحمن یا ابو دریم کنیت تھی،معلوم نسب نامہ یہ ہے:نافع بن عبدالرحمن بن ابی نعیم ،اپنے والد کے بجائے جدا امجد کی طرف منسوب ہوکر مشہور ہیں،بنو لیث کے غلام تھے۔ ولادت ،خاندان اوروطن ۷۰ھ میں پیدا ہوئے،اصلاً اصفہان سے تعلق رکھتے تھے،لیکن چونکہ تا عُمر ان کا مسکن دارالہجرت مدینہ منورہ رہا،اس لیے مدنی کہلاتے ہیں۔ فضل وکمال نافع کا شمار ان جلیل القدر اتباع تابعین میں ہوتا ہے جنہوں نے چمنستان علم وفن کو فردوس نظیر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے،کتاب اللہ کی جن قر أت سبعہ کے تواتر پر امت کا اتفاق واجماع ہے،ان میں امام نافع مدنی کی قرأت بھی شامل ہے۔ اس کے صحیفہ کمال کا سب سے درخشاں باب تجوید وقرأت میں غیر معمولی مہارت ہی ہے،انہیں ستر تابعین سے قرآن پڑھنے کی سعادت حاصل تھی،حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورابی بن کعبؓ جیسے اجلہ روزگار صحابہ کرام کے نامور تلامذۂ قرأت کے سامنے زانو ئے تلمذ تہ کرکے وہ خود بھی اس فن کے امام ہوگئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کچھ صغار صحابہ کے دیدار کا شرف بھی حاصل کیا تھا،لیکن ان سے اکتسابِ فیض نہ کرسکے،اصمعی کا بیان ہے:کان من القراء الفقھاء العباد۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۰۷)وہ قراء فقہاء اورعبادت گزاروں میں تھے۔ شیوخ جیسا مذکور ہوا انہوں نے ستر تابعین کے خرمنِ علم سے خوشہ چینی کی تھی، جن میں ابو جعفر یزید بن قعقاع،شیبہ بن نصاح،عبدالرحمن بن ہرمزالاعرج،فاطمہ بنت علی بن ابی طالب ،زید بن اسلم،ابو الزناد،عامر بن عبداللہ،زبیر بن محمد بن یحییٰ بن حبان بن ابی طالب ،زید بن اسلم،ابو الزناد،عامر بن عبداللہ،زہیر بن محمد بن یحییٰ بن عبان، نافع مولیٰ ابن عمرؓ، صفوان بن سلیم اورربیعہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ تلامذہ امام نافعؒ نے کم وبیش ستر سال تک درس وافادہ کی خدمات انجام دیں،اس طویل ترین مدت میں ہزاروں تشنگان علم ان کے چشمۂ صافی سے سیراب ہوئے،جن میں امام مالک بن انس کے علاوہ اسماعیل بن جعفر، اصمعی ،خالد بن مخلد، سعید بن ابی مریم، محمد بن مسلم المدنی،موسیٰ بن طارق،عیسیٰ بن مینا قالون قعنبی اورعثمان بن سعید الورش کے نام خصوصیت سے لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۰۷) قرآن کثیر التعداد اکابر شیوخ کے فیضان صحبت نے انہیں قرأت قرآن کا نکتہ شناس اوراس کے اسرار و رموز کاسب سے بڑا واقف کار بنادیا تھا اوراسی مہارتِ فنی کے باعث اپنے شیخ ابو جعفر یزید بن قعقاع کے بعد مدینہ منورہ کے بالاتفاق "الامام القراء" تسلیم کیے گئے،لیث کہتے ہیں کہ ۱۳ھ میں جب میں زیارت حرمین کے سلسلہ میں مدینہ پہنچا تو وہاں قرأت کا امام نافع بن ابی نعیم کوپایا،امام مالکؒ کا ارشاد ہے: نافع امام الناس فی القرأۃ (شذرات الذہب:۱/۲۷۰) نافعؒ قرأت کے امام ہیں۔ لیث بن سعد ہی کا دوسرا بیان ہے کہ: ادرکت اھل المدینۃ وھم یقولون قراءۃ نافع سنۃ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۰۸) میں نے اہلِ مدینہ کو یہ کہتے پایا کہ نافع کی قرأت سنت ہے۔ امام مالکؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اہل مدینہ کی قرأت مختار اورپسند ہے،دریافت کیا گیا ،کیا نافع کی قرأت ؟ ہاں نافع کی قرأت حدیث حدیث نبویﷺ میں انہیں کوئی لائق ذکر حیثیت حاصل نہ تھی ،اسی باعث صحاح ستہ میں ان کی کوئی روایت نہیں ملتی، حضرت ابوہریرہؓ کے تلمیذ رشید عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج سے انہوں نے تحصیل قرأت کے علاوہ سوحدیثوں کا سماع بھی حاصل کیا تھا، نافع کے پایہ ثقاہت کے بارے میں علمائے فن کی رائیں بہت اچھی ہیں؛چنانچہ ابن معین،ابو حاتم نسائی، ابن حبان اورابن سعد صراحت کے ساتھ انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں،علامہ ابن حجر رقمطراز ہیں۔ لم أرنی احادیثہ شیئا منکراً وارجو انہ لا بأس بہ (ایضاً:۴۰۷) میں ان کی مرویات میں کوئی منکر بات نہیں دیکھتا اورمیرا خیال ہے ان کے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شمائل قرآن پاک کی تلاوت کرتے وقت ہمیشہ ان کے منہ سے مشک وعنبر کی بو نکلا کرتی تھی،ایک بار کسی نے دریافت کیا، آپ از قسمِ عطر کونسی خوشبو استعمال کرتے ہیں؟ فرمایا ایسی کوئی بات نہیں؛بلکہ میں نے ایک شب عالم رؤیا میں حضور پر نور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی زیارت کی،آپ نے میرے منہ سے منہ ملا کر قرآن پاک کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں، اسی وقت سے یہ خوشبو آنے لگی ہے۔ (شذرات الذہب:۱/۲۷۰) حلیہ نہایت سیاہ فام؛ لیکن ساتھ ہی نہایت خوش نقش تھے،ایک مرتبہ محمد بن اسحاق سیسی نے عرض کیا کہ آپ کے اعضا ء کی ساخت اورنقشہ کس قدر حسین وجمیل ہے،فرمایا آخر کیوں نہ ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں مجھے مصافحہ کا شرف بخشا۔ رواۃ قرأت نافع کی قرأت متو۱تر کے بہت سے رواۃ ہوئے؛لیکن شہرت عام کا تمغہ صرف دو کو حاصل ہوسکا: (۱)عیسیٰ بن مینا قالون،جو ۱۲۰ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اورامام نافع سے بے شمار بار قرآن مجید پڑھا،قوتِ سامعہ سے محروم تھے،لیکن معجز نما بات یہ ہے کہ قرآن پاک سننے میں ذرا بھی دقت اوررکاوٹ محسوس نہ ہوتی تھی،ان کی قرأت کی عمدگی کی وجہ سے امام نافع نے انہیں "قالون" کا لقب دیا تھا جس کے معنی رومی لغت میں عمدہ چیز کےہیں۲۲۰ھ میں مدینہ ہی میں وفات پائی۔ (۲)عثمان بن سعید ورش ۱۱۰ھ میں بمقام مصر متولد ہوئے،گورا رنگ ہونے کی وجہ سے استاذ نے ورش کا لقب دیا تھا،قرآن پڑھنے کے لیے مصر سے شدر حال کرکے مدینہ طیبہ امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر تحصیلِ فن کے بعد مصر واپس جاکر قرأت کے متفقہ امام تسلیم کیے گئے،نہایت خوش الحان تھے، یونس بن عبدالاعلیٰ کا بیان ہے کہ ورش کی قرأت نہایت عمدہ تھی،اوروہ بہت خوش آواز تھے،۱۹۷ھ میں بعمر ۸۷ سال مصر ہی میں رحلت فرمائی۔ وفات امام نافع باختلاف روایت ۱۶۷ھ یا ۱۶۹ھ مدینہ منورہ میں رہ سپار عالم جاودانی ہوئے،انتقال کے وقت ۹۷ یا۹۹ سال کی عمر تھی۔ (شذرات الذہب:۱/۲۷۰ ومرأۃ الجنان:۱/۳۵۹) وصیت جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو صاحبزادگان نے وصیت کی درخواست کی فرمایا: اتقو اللہ واصلحوا ذات بینکم واطیعواللہ ورسولہ ان کنتم مؤ منین (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۰۸)