انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مولانا ابوالکلام آزادؒ (م:۱۹۵۸ء) ۱۔غور کیجئے تو انسان کی زندگی اوراس کے احساسات کا بھی کچھ عجیب حال ہے،تین برس کی مدت ہو یا تین دن کی،مگر جب گزرنے پر آتی ہے تو گزر ہی جاتی ہے،گزرنے سے پہلے سوچئے تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ پہاڑ سی مدت کیونکر کٹے گی،گزرنے کے بعد سوچئے تو تعجب ہوتا ہے کہ جو کچھ گزرچکا ،وہ چند لمحوں سے زیادہ نہ تھا۔ (غبار خاطر،ص:۴۲) ۲۔صبح چار بجے کے وقت گران مایہ کی کرشمہ سازیوں کا بھی کیا حال ہے؟ قیام کی حالت ہو یا سفر کی،ناخوشی کی کلفتیں ہوں یا دل آشوبی کی کاہشیں،جسم کی ناتوانیاں ہوں یا دل و دماغ کی افسردگیاں، کوئی حالت ہو لیکن اس وقت کی مسیحائیاں افتادگان بستر الم سے کبھی تغافل نہیں کرسکتیں۔ (غبار خاطر،ص:۴۴) ۳۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روزگار خراب میں زندگی کو زندگی بنائے رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ غلطیاں بھی ضرور کرنی چاہئیں، غور کیجئے وہ زندگی ہی کیا ہوئی جس کے دامن خشک کو کوئی غلطی ترنہ کرسکے؟وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر معصوم ہو؟اور پھر اگر غور وفکر کا ایک قدم اورآگے بڑھائیے تو سارا معاملہ بالآخر وہیں جاکر ختم ہوجائے گا جہاں کبھی عارف شیراز نے اسے دیکھا تھا: بیا کہ رونق ایں کارخانہ کم نہ شود ززہد ہم چوتوئی یا بفسق ہم چومنی "زاہد آؤ اس امر کی کوشش کریں کہ کار زار ہستی کی رونقیں ماند نہ پڑ جائیں، نہ تیرے زہد کے اثرات اسے متاثر کریں اورنہ مجھ گناہ گار کی خطائیں اسے آلودہ کریں" اوراگر پوچھئے کہ پھر کامرانی عمل کا معیار کیا ہوا، اگر یہ آلودگیاں راہ میں مخل نہ سمجھی گئیں تو اس کا جواب وہی ہے جو عرفاء طریق نے ہمیشہ دیا ہے: ترک ہمہ گیر وآشنائے ہمہ باش "سب سے ہوشیار رہو اورسبھی سے جان پہچان پیدا کرنے کی کوشش میں بھی لگے رہو" یعنی ترک و اختیار دونوں کا نقش عمل اس طرح ایک ساتھ بٹھائیے کہ آلودگیاں دامن ترکریں مگر دامن پکڑنہ سکیں، اس راہ میں کانٹوں کا دامن سے الجھنا مخل نہیں ہوتا دامن گیر ہونا مخل ہوتا ہے، کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائے، بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجئے لیکن آپ کے دست وبازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہئے کہ جب چاہا، اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہے۔ (غبار خاطر،ص:۴۸) ۴۔وقت کے جو حالات ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ان میں اس ملک کے باشندوں کے لئے زندگی بسر کرنے کی دوہی راہیں رہ گئی ہیں، بے حسی کی زندگی بسر کریں یا احساس حال کی،پہلی زندگی ہر حال میں اور ہر جگہ بسر کی جاسکتی ہے مگر دوسری زندگی کے لئے قید خانہ کی کوٹھڑی کے سوا اور کہیں جگہ نہ نکل سکی، ہمارے سامنے بھی دونوں راہیں کھلی تھیں،پہلی ہم اختیار نہیں کرسکتے تھے،ناچار دوسری اختیار کرنی پڑی۔ رند ہزار شیوہ را طاعت حق گراں نہ بود ایک صنم بہ سجدہ درناصیہ مشترک نخواست "اس شراب کے خوگر کے لئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کوئی مشکل بات نہ تھی لیکن بات اتنی ہے کہ صنم نہیں چاہتا کہ ایک ہی پیشانی دو طرح کے سجدوں کی عادی بن جائے" زندگی میں جتنے جرم کئے اوران کی سزائیں پائیں، سوچتا ہوں تو ان سے کہیں زیادہ تعداد ان جرموں کی تھی جو نہ کرسکے اورجن کے کرنے کی حسرت دل میں رہ گئی، یہاں کردہ جرموں کی سزائیں تو مل جاتی ہیں لیکن ناکردہ جرموں کی حسرتوں کا صلہ کس سے مانگیں: ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب ! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے (غبار خاطر،ص:۶۴) ۵۔سائنس عالم محسوسات کی ثابت شدہ حقیقتوں سے ہمیں آشنا کرتا ہے اورمادی زندگی کی بے رحم جبریت کی خبر دیتا ہے،اس لئے عقیدہ کی تسکین اس کے بازار میں بھی نہیں مل سکتی،وہ یقین اورامید کے سارے پچھلے چراغ گل کردے مگر کوئی نیا چراغ روشن نہیں کرے گا،پھر اگر ہم زندگی کی ناگواریوں میں سہارے کے لئے نظر اٹھائیں تو کس کی طرف اٹھائیں؟ کون ایسا ہے جسے دست ہو دل سازی میں ؟ شیشہ ٹوٹے تو کریں لاکھ ہنر سے پیوند ہمیں مذہب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے،یہی دیوار ہے جس سے ایک دکھتی ہوئی پیٹھ ٹیک لگاسکتی ہے۔ دل شکستہ دراں کوچہ می کنند درست چنانکہ خود نشناسی کہ ازکجا بشکست "اس بستی میں شکستہ دلوں کی مسیحائی کی جاتی ہے اوردل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے لیکن تو اس بات سے بے خبر ہے کہ دل کہاں کہاں سے ٹوٹا ہے" (غبار خاطر،ص:۶۶) ۶۔بلاشبہ مذہب کی وہ پرانی دنیا جس کی مافوق الفطرت کارفرمائیوں کا یقین ہمارے دل ودماغ پر چھایا رہتا تھا، اب ہمارے لئے باقی نہیں رہی،اب مذہب بھی ہمارے سامنے آتا ہے تو عقلیت اورمنطق کی ایک سادہ اوربے رنگ چادر اوڑھ کر آتا ہے اورہمارے دلوں سے زیادہ ہمارے دماغوں کو مخاطب کرنا چاہتا ہے، تاہم اب تھی تسکین اوریقین کا سہارا مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔ درد یگرے بنما کہ یکجاروم چوبرانیم؟ "جب تو ہی ہم کو دھتکاردے تو پھر تو ہی بتا کہ وہ کونسا در ہے جس کا ہم رخ کریں؟" ۷۔فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بند نہیں کرسکے گا،سائنس ثبوت دے دے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا، لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے اگرچہ ثبوت نہیں دیتا اوریہاں زندگی بسر کرنے کے لئے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ؛بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے،ہم صرف انہی باتوں پر قناعت نہیں کرسکتے جنہیں ثابت کرسکتے ہیں اور اس لئے مان لیتے ہیں، ہمیں کچھ باتیں ایسی بھی چاہئیں جنہیں ثابت نہیں کرسکتے لیکن مان لینا پڑتا ہے۔ By Faith and Faith alone embrace Believing where we cannot prove (غبار خاطر،ص:۶۷) ۸۔زندگی کی ناگواریاں میں مذہب کی تسکین صرف ایک سلبی تسکین ہی نہیں ہوتی ؛بلکہ ایجابی تسکین ہوتی ہے؛کیونکہ وہ ہمیں اعمال کے اخلاقی اقدار (Moral Values) کا یقین دلاتا ہے اوریہی یقین ہے جس کی روشنی کسی دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی ،وہ ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی ایک فریضہ ہے،جسے انجام دینا چاہئے،ایک بوجھ ہے جسے اٹھانا چاہئے،لیکن کیا یہ بوجھ کانٹوں پر چلے بغیر اٹھایا جاسکتا ہے؟ نہیں اٹھایا جاسکتا کیونکہ یہاں خود زندگی کے تقاضے ہوئے جن کا ہمیں جواب دینا ہے اورخود زندگی کے مقاصد ہوئے جن کے پیچھے والہانہ دوڑنا ہے،جن باتوں کو ہم زندگی کی راحتوں اور لذتوں سے تعبیر کرتے ہیں وہ ہمارے لئے راحتیں اور لذتیں ہی کب رہیں گی، اگر ان تقاضوں اورمقصدوں سے منہ موڑلیں؟بلاشبہ یہاں زندگی کا بوجھ اٹھاکے کانٹوں کے فرش پر دوڑنا پڑا، لیکن اس لئے دوڑنا پڑا کہ دیبا ومخمل کے فرش پر چل کر ان تقاضوں کا جواب نہیں دیا جاسکتا تھا، کانٹے کبھی دامن سے الجھیں گے کبھی تلوؤں پر چبھیں گے لیکن مقصد کی خلش جو پہلوئے دل میں چبھتی رہے گی،نہ دامن تار تار کی خبر لینے دے گی، نہ زخمی تلوؤں کی اور پھر زندگی کی جن حالتوں کو ہم راحت والم سے تعبیر کرتے ہیں،ان کی حقیقت بھی اس سے زیادہ کیا ہوئی کہ اضافت کے کرشموں کی ایک صورت گری ہے؟ یہاں نہ مطلق راحت ہے نہ مطلق الم،ہمارے تمام احساسات سرتا سراضافی ہیں۔ (غبار خاطر،ص:۷۰،۷۱) ۹۔راحت والم کا احساس ہمیں باہر سے لاکر کوئی نہیں دے دیا کرتا،یہ خود ہمارا ہی احساس ہے جو کبھی زخم لگاتا ہے کبھی مرہم بن جاتا ہے،طلب وسعی کی زندگی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی لذت ہے بشرطیکہ کسی مطلوب کی راہ میں ہو۔ (غبار خا طر،ص:۷۱) ۱۰۔ایوان ومحل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں، دیبا ومخمل کا فرش نہ ملے تو سبزۂ خودروکے فرش پر جابیٹھیں،اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں ہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے؟اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہوگئی ہیں تو ہوجائیں صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی، چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی،لیکن اگر دل زندہ پہلو میں نہ رہے تو خدارا بتلائیے اس کا بدل کہاں ڈھونڈیں؟ اس کی خالی جگہ بھرنے کے لئے کسی چولہے کے انگارے کام دیں گے: مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگی عبارت ہے تیرے جینے سے (غبار خاطر،ص:۹۵) ۱۱۔میں آپ کو بتلاؤں ،اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا، کوئی حالت ہو،کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہانِ زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدۂ خلوت کے دم سے ہیں، یہ اجڑا اورساری دنیا اجڑ گئی،باہر کے سارے سازوسامان عشرت مجھ سے چھن جائیں لیکن جب تک یہ نہیں چھنتا،میرے عیش وطرب کی سرمستیاں کون چھین سکتا ہے۔ (غبار خاطر،۹۶) ۱۲۔لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کےلئے کام میں لائیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی، یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا، یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اوراس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہئے،جس نے یہ مشکل حل کرلی ،اس نے زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ انجام دے دیا۔ ۱۳۔اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا تو یقین کیجئے کہ زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا، اب اس کے بعد اس سوال کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ آپ نے اورکیا کیا سیکھا؟خود بھی خوش رہئے اوردوسروں سے بھی کہتے رہئے کہ اپنے چہروں کو غمگین نہ بنائیں۔ (مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے:غبار خاطر،ص:۹۸) ۱۴۔ہماری زندگی ایک آئینہ خانہ ہے،یہاں ہر چہرہ کا عکس بیک وقت سینکڑوں آئینوں میں پڑنے لگتا ہے،اگر ایک چہرے پر غبار آجائے گا تو سینکڑوں چہرے غبار آلودہوجائیں گے،ہم میں سے ہر فرد کی زندگی محض ایک انفرادی واقعہ نہیں ہے،وہ پورے مجموع کا حادثہ ہے،دریا کی سطح پر ایک لہر تنہا اٹھتی ہے لیکن اسی ایک لہر سے بے شمار لہریں بنتی چلی جاتی ہیں،یہاں ہماری کوئی بات بھی صرف ہماری نہیں ہوئی،ہم جو کچھ اپنے لئے کرتے ہیں اس میں دوسروں کا حصہ ہوتا ہے،ہماری کوئی خوشی بھی ہمیں خوش نہیں کرسکے گی اگر ہمارے چاروں طرف غمناک چہرے اکٹھے ہوجائیں گے،ہم خود خوش رہ کر دوسروں کو خوش کرتے ہیں اور دوسروں کو خوش دیکھ کر خود خوش ہونے لگتے ہیں،یہی حقیقت ہے ،عرفی نے اپنے شاعرانہ پیرایہ میں ادا کیا تھا: بدیدار تو دل شادند باہم دوستان تو تراہم شادماں خواہم چوروئے دوستاں بینی "اے محبوب!تیرے چاہنے والے تیری دید سے اپنے دلوں کو سرشار کرلیا کرتے ہیں ہماری آرزو ہے کہ جب تو اپنے احباب کا چہرہ دیکھے تو اس سے تیرے دل کی دنیا بھی خوشیوں سے لبریز ہوجایا کرے" (غبار خاطر،ص؛۹۹) ۱۵۔کھانے پینے اور سازوسامان کی تکلیفیں ان کو پریشان نہیں کرسکتیں جو جسم کی جگہ دماغ کی زندگی بسر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں،آدمی اپنے آپ کو احساسات کی عام سطح سے ذرا بھی اونچا کرلے تو پھر جسم کی آسائشوں کا فقدان اسے پریشان نہیں کرسکے گا،ہرطرح کی جسمانی راحتوں سے محروم رہ کر بھی ایک مطمئن زندگی بسر کی جاسکتی ہے اورزندگی بہر حال بسر ہوہی جاتی ہے۔ رغبت جاہ چہ ونفرت اسباب کدام؟ زیں ہوسہا بگزریا نگزر،می گزرد! "اس کارخانۂ حیات میں جاہ ومنصب کی آرزو اورمال ودولت سے نفرت کوئی معنی نہیں رکھتے،تو ان خواہشات سے دستبردار ہوجا یا نہ ہو زندگی کے دن پورے ہوکر ہی رہیں گے"۔ ۱۶۔بار بار مجھے خیال ہوا کہ ہم خدا کی ہستی کا اقرار کرنے پر اس لئے بھی مجبور ہیں کہ اگر نہ کریں تو کارخانہ ہستی کے معمے کا کوئی حل باقی نہیں رہتا اورہمارے اندر ایک حل کی طلب ہے جو ہمیں مضطرب رکھتی ہے۔ (غبار خاطر،ص؛۱۲۷) ۱۷۔اس بزم سودوزیاں میں کامرانی کا جم کبھی کوتاہ دستوں کے لئے نہیں بھراگیا، وہ ہمیشہ انہی کے حصے میں آیا جو خود بڑھ کر اٹھا لینے کی جرأت رکھتے ہیں،شاد عظیم آبادی مرحوم نے ایک شعر کیا خوب کہا تھا: یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں،مینا اسی کا ہے (غبار خاطر،ص:۲۱۹) ۱۸۔اصحاب حق واقتصاد کا طریقہ ہے کہ تمام ائمہ سلف کو حق وراستی پر یقین کرتے ہیں اورتمام ائمہ مجتہدین اہل سنت کو اپنے مجتہدات میں برسر حق وبصیرت سمجھتے ہیں اور سب کی محبت وتعظیم اورعموم حسن ظن کو اہل سنت کے لئے ایک علامت بتاتے ہیں سب کا علم و عمل کتاب وسنت پر تھا کوئی نہیں جس نے بلاکسی دلیل وبصیرت کے اجتہاد کیا ہو، البتہ عصمت صرف انبیاء کے لئے ہے۔ (تذکرہ،ص:۲۲۹)