انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وادیٔ اوطاس میں مشورہ وادیٔ اوطاس میں پڑاو ڈالنے کے بعد لوگ اپنے سپہ سالار کے پاس مشورہ کے لئے جمع ہوئے جس میں قبیلہ جشم کے کہنہ مشق اور میدان کارزار کے تجربہ کار سپاہی دُرید بن صمہ کو بھی شریک کیاگیا، وہ بہت بوڑھا ہوچکاتھااور بقول علامہ شبلی اس کی عمر سوسال سے زیادہ تھی، اس لئے مشورہ دینے کے لئے اسے پلنگ پر لایاگیاتھا، بوجہ ضعف وہ مشورہ کے سوا کچھ کرنے کے لائق نہ تھا اس لئے کہ اصلاًوہ بڑا بہادر اور ماہر جنگجو رہ چکا تھا، چونکہ شرکائے جنگ اپنے اموال و مویشی اور اہل و عیال ساتھ لائے تھے اس لئے میدان کے ایک کونے سے اونٹوں کے بلبلانے کی آوازیں آرہی تھیں ، گدھوں کی ہنہناہٹ سے فضا مکدر تھی ، بکریوں کی ممیاہٹ سے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے اور بچوں کی چیخ و پکار سے دشت و جبل گونج رہے تھے، یہ مختلف آوازیں سن کر دُرید بن صمہّ نے سپہ سالار ہوازن مالک بن عوف سے پوچھا کہ مویشی اور بال بچے ہمراہ لانے میں کیا مصلحت ہے؟ مالک نے کہا کہ سپاہی جنگ سے منہ نہ موڑیں او ر انہیں دیکھ کر جم کر مقابلہ پر ڈٹے رہیں ، دُرید نے کہا ! خدا کی قسم ! یہ چیزیں اکھڑے ہوئے قدم نہیں جما سکتیں، ایسے موقع پر صرف فوج ، تلوار اور تیر کام آتے ہیں، اے مالک! تم نے بنو ہوازن کی عورتوں اور بچوں کو ساتھ لاکر کوئی صحیح کام نہیں کیا ہے ، انہیں ان کے علاقہ کے محفوظ مقامات میں بھیج دو، اس کے بعد گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر بد دینوں سے ٹکر لو ، اگر تم نے فتح حاصل کی تو پیچھے والے تم سے آ ملیں گے اور اگر تمہیں شکست ہوئی تو تمہارے اہل و عیال اور مویشی تو محفوظ رہیں گے، لیکن سپہ سالار مالک بن عوف نے اس مرگ پیر کی رائے پر عمل نہ کیا اور لشکر نے بھی درید کی بجائے اس تیس سالہ نوجوان سپہ سالار کی اطاعت کو ترجیح دی جو ان کے نزدیک عزم و ارادہ اور شجاعت میں بے مثل تھا ، درید بن صمہ نے اپنے مدت العمر کے تجربہ کے خلاف ہوتا ہوا دیکھ کر خاموشی اختیار کرلی،