انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ذاتی حالات مسکن ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت اوس بن ثابت ؓ کے مہمان ہوئے اور غالباً عرصہ تک ان ہی کے مکان میں مقیم رہے، اس کے بعد اپنے عہد خلافت میں مسجد نبوی کے قریب ایک محل تعمیر کرایا، جو عظمت وشان میں مدینہ کی تمام عمارتوں سے ممتاز تھا، یہ جگہ اب بھی سیدنا عثمان کے نام سے مشہور ہے اور کچھ حصہ مغربی حاجیوں کا زاویہ ہے اور یہاں ایک کتب خانہ ،کتب خانہ سیدنا عثمان ؓ کے نام سے قائم ہے،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر گلی کی دوسری طرف ایک مکان کے دروازے پر مشہد سید نا عثمان ؓ کا کتبہ لگاہوا ہے۔ وسائل معاش معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا،عرب میں کوئی ان سے بڑا دولتمند تاجر نہ تھا،اس غیر معمولی دولت وثروت کے باعث ان کو غنی کا خطاب دیا گیا تھا۔ جاگیر فتح خیبر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو جو اس معرکہ میں شریک تھے،جاگیریں عطا کی تھیں، حضرت عثمان ؓ کے حصہ میں ایک قطعۂ زمین آیا تھا، اس کے علاوہ انہوں نے مختلف مقامات میں جائدادیں خریدی تھیں، مدینہ سے قریب مقام بقیع میں بھی ایک نہایت وسیع قطعہ خریدا تھا جس کو انہوں نے قبرستان کے لئے وقف فرمادیا تھا۔ زراعت جہاں تک معلوم ہے کہ حضرت عثمان ؓ خود زراعت نہیں فرماتے تھے،البتہ اپنی زمین کو بٹائی پر دیتے تھے کہ پیداوار میں سے دوثلث کاشت کارکو ملتا تھا اورصرف ایک ثلث آپ کا حق ہوتا تھا۔ غذا ضعف اورپیری کے باعث غذا عموماً نرم ،ہلکی اورزود ہضم تناول فرماتے تھے، دسترخوان پر عموماً اعزہ واحباب کا مجمع رہتا تھا۔ صفائی مزاج میں نفاست اورطہارت تھی، جب سے مسلمان ہوئے روزانہ غسل کیا کرتے تھے،(ابن حنبل ۱،۶۷) ہمیشہ اچھے کپڑے پہنتے تھے اورعطر لگاتے تھے۔ لباس ابن سعد نے آپ کے لباس کا خاص عنوان باندھا ہے،گوآپ اچھے کپڑے استعمال فرماتے تھے ؛لیکن اس میں تکلفات کو دخل نہیں ہوتا تھا،ایسے کپڑوں سے نہایت پرہیز کرتے تھے ،جس سے مزاج میں غرور،تکبر اورخود بینی کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے،نفط ایک خاص قسم کا رومی کپڑا تھا جو امرائے عرب میں عموماً نہایت مطبوع تھا ؛لیکن انہوں نے اس کو کبھی استعمال نہیں کیا اور نہ اپنی بیویوں کو پہننےدیا، تمام عمر پائجامہ نہیں پہنا، صرف شہادت کے وقت ستر کے خیال سے پہن لیا تھا، عموماً تہ بند باندھا کرتے ،ایک تابعی روایت کرتے ہیں کہ جمعہ کے روز منبر پر ان کو دیکھا تو جوموٹا تہ بندوہ پہنے تھے اس کی قیمت پانچ درہم (ایک روپیہ) سے زیادہ نہ تھی۔ (مسدرک حاکم،۳/۹۲) حلیہ صورۃ خوش رواورخوب صورت تھے،(ابن حنبل ج اول : ۷۳ ومستدرک حاکم ج ۳ : ۹۶) رنگ گندم گوں، قد معتدل ،ناک بلند اورخم دار رخسار پر گوشت اوران پر چیچک کے ہلکے ہلکے داغ، داڑھی گھنی اورطویل ،سرکے بال گھنے اور بڑے بڑے،یہاں تک کے زلف کانوں تک پہنچتی تھی،بعض روایات کے مطابق بالوں میں خضاب فرماتے تھے،دانت پیوستہ اورچمکدار تھے جن کو سونے کے تار سے باندھ کر مضبوط کیا گیا تھا۔ ازواج واولاد مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، پہلی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ تھیں، حبشہ کی ہجرت میں وہ آپ کے ساتھ تھیں، واپس آکر مدینہ منورہ کی ہجرت میں شریک ہوئیں،ایک سال زندہ رہیں، ۲ھ میں غزوۂ بدر کے موقع پر وفات پائی، ان سے عبداللہ نامی ایک فرزند تولد ہوا تھا جس نے پچپن ہی میں وفات پائی، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ سے ۳ھ میں نکاح ہوا، انہوں نے بھی نکاح کے چھ سات برس بعد ۹ھ میں وفات پائی، ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ اس کے بعد حسب ذیل نکاح کئے: فاختہ بنت غزوان،ان کے بطن سے بھی ایک فرزند تولد ہوا، عبداللہ نام تھا ؛لیکن وہ بھی بچپن ہی میں فوت ہوگیا۔ ام عمروبنت جندب، ان کے بطن سے عمرو،خالد،ابان،عمراورمریم پیدا ہوئے۔ فاطمہ بنت ولید، یہ حضرت عثمان کے صاحبزادے ولید اورسعید کی ماں ہیں۔ ام لبنین بن عیتیہ، ان سے عبدالملک پیدا ہوئے، انہوں نے بچپن ہی میں وفات پائی۔ رملہ بنت شیبہ، عائشہ،ام ابان اورام عمر و؛ان کے بطن سے تولد ہوئیں۔ نائلہ بنت الفرافصہ،شہادت کے وقت موجود تھیں، ان کے بطن سے مریم بنت عثمان ؓ پیدا ہوئیں۔ صاحبزادوں میں سے نامور حضرت ابان ہوئے، انہوں نے بنوامیہ کے عہد میں خاصا اعزاز حاصل کیا۔رضی اللہ تعالی عنہم