انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نقدِ حدیث کا درایتی معیار حدیث کے ثبوت واستناد کے لیے جہاں نقدِ رجال یعنی راویانِ حدیث کا ثقہ اور عادل ہونا ضروری ہوتا ہے وہیں درایتِ متن یعنی حدیث معارضہ، نسخ یاعلت خفیہ وغیرہ سے محفوظ ہے یانہیں اس کا بھی معلوم کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ یہ دونوں چیزیں حدیث پرعمل کرنے سے مانع ہوتی ہیں، قرآنِ کریم کی آیت: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَافَعَلْتُمْ نَادِمِينَ۔ (الحجرات:۶) ترجمہ: اے ایمان والو! اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کرآئے توتحقیق وتفتیش کرو، مبادا تم نادانی میں کسی قوم پرچڑھ دوڑو اور اپنے کئے پرنادم ہوجاؤ۔ اس آیت سے راوی کا عادل اور راست گوہونے کی تحقیق کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے، اس ذمہ داری کوطبقۂ محدثین نے بحسن وخوبی انجام دیا اور آیتِ کریمہ ہے: وَلَوْلَا إِذْسَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَايَكُونُ لَنَاأَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ۔ (النور:۱۶) ترجمہ:یقینا تم نے اسے سنا تھا تویہ کیوں نہ کہہ دیا تھا کہ ہمارے لیے زیب نہیں دیتا کہ ہم اس حوالےسے بات کریں، تیری ذات پاک ہے یہ توبہتانِ عظیم ہے۔ اس آیت میں روایت شدہ مضمون کی اندرونی حالت کی تحقیق کرنے کا حکم ہے، کیا یہ روایت شانِ نبوت یامزاجِ شریعت سے میل بھی کھاتی ہے یانہیں؟ اس ذمہ داری کوفقہائے امت نے انجام دیا۔ درایتِ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ محدثین کے وضع کردہ اصولِ روایت پرحدیثوں کوپرکھ لیے جانے کے بعد مقبول احادیث کے معنی مرادی تک پہنچنے کی کوشش کرنا غیرمقبول کے خارجی مؤیدات تلاش کرکے اس کا مقبول ہونا معلوم کرنا، اس سلسلہ میں جوعلوم درکار ہوں انہیں استعمال کرتے ہوئے حدیث کے قابل عمل یاناقابل عمل ہونے کا فیصلہ کرنا؛ پھرعقیدہ وعمل کے باب میں اس کے ساتھ مناسب معاملہ کرنا۔ ۱۔مذکورہ بالا آیت کا مطلب یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جوتہمت لگائی گئی وہ حرمِ نبوی کے بالکل شایانِ شان نہیں تھی؛ کیونکہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ نبی کی نکاح میں معاذ اللہ کوئی غلط کارفاحشہ عورت ہو، قرآن کہتا ہے اس بات کوسنتے ہی فوراً اس کا انکار کردیتے؛ خواہ اس کا بیان کرنے والا کتنا ہی ثقہ اور بااعتماد شخص کیوں نہ ہو؛ معلوم ہوا کہ کسی بات کا بیان کرنے والا اگرثقہ وبااعتبار ہو اور وہ کوئی ایسی بات بیان کرے جوعقلاً وشرعاً محال ہوتو یہ بات اب بھی غیرمقبول ہی ہوگی۔ ۲۔وجوب درایت یعنی اصولِ درایت پرحدیث کوپرکھ کراس کے مقبول یاغیرمقبول ہونے کومعلوم کرنا ازبس ضروری ہے، اس کی دوسری دلیل حضرت ابوحمید وابواسید رضی اللہ عنہم سے منقول یہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: إِذَاسَمِعْتُمْ الْحَدِيثَ عَنِّي تَعْرِفُهُ قُلُوبُكُمْ وَتَلِينُ لَهُ أَشْعَارُكُمْ وَأَبْشَارُكُمْ وَتَرَوْنَ أَنَّهُ مِنْكُمْ قَرِيبٌ فَأَنَا أَوْلَاكُمْ بِهِ وَإِذَاسَمِعْتُمْ الْحَدِيثَ عَنِّي تُنْكِرُهُ قُلُوبُكُمْ وَتَنْفِرُ أَشْعَارُكُمْ وَأَبْشَارُكُمْ وَتَرَوْنَ أَنَّهُ مِنْكُمْ بَعِيدٌ۔ (مسنداحمدبن حنبل،مسند المكيين، حديث أبي أسيد الساعديؓ،حدیث نمبر:۱۶۱۰۲، صفحہ نمبر:۳/۴۹۷، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:اگرتم کو میرے حوالے سے کوئی حدیث پہونچے جس کوتمہارے قلوب اوپری اور انوکھی نہ جانیں؛ نیز اس حدیث کے مضمون سے تمہارے بال وکھال نرم ہوجائیں (یعنی وہ تمہارے ظاہر کومتاثر کرے) اور وہ حدیث تمہارے دین سے تمھیں قریب نظر آئے تومیں اس حدیث کے بولنے کا زیادہ مستحق ہوں اور اگرمعاملہ برعکس ہوتو ایسی حدیث کے صدور سے میں زیادہ بعید ہوں (یعنی وہ میری حدیث نہیں ہوسکتی)۔ حافظ ابن کثیر (۷۷۴ھ) نے اپنی تفسیر میں اسے جیدالاسناد کہا ہے۔ (تفسیرابنِ کثیر:۲/۲۸۸، شاملہ،الناشر:دارطيبة للنشر والتوزيع،الطبعة: الثانية ۱۴۲۰ھ) یعنی نبی کریمﷺ نے حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جومزاج شناسِ نبوت تھے ان کودرایتِ حدیث (متن حدیث کوپرکھنے) کی ترغیب دی؛ خواہ اس کا روایت کرنے والا ثقہ اور پراعتماد کیوں نہ ہو۔ ۳۔حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین جوکہ براہِ راست فیضانِ نبوت سے فیضیاب اشخاص تھے؛ اگران کوحدیثِ رسول کے پہونچنے میں درمیانی کوئی واسطہ بھی ہوتا تووہ صحابی ہی کا ہوتا تھا، جن سے کذب اور غلط بیانی کا امکان نہیں؛ لیکن وہ یہاں پربھی حدیث کواصولِ درایت پرپرکھنا اور جانچنا ضروری خیال کرتے تھے۔ (الف)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ بتایا گیا کہ حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت نقل کرتے ہیں (ترجمہ: کہ میت کواس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے) توام المؤمنین نے فرمایا خدا عمرؓ پر رحم کرے! قسم بخدا! حضوراکرمﷺ نے یوں نہیں کہا؛ بلکہ فرمایا: اللہ تعالیٰ کافر کواس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ عذاب دیتے ہیں؛ پھرفرمایا: تم کواس قول کی سچائی کوجاننے کے لیے یہ کافی ہے یعنی قرآنی آیت وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (الأنعام:۱۶۴)۔ (بخاری،كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب قَوْلِ النَّبِيِّﷺ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبَعْضِ، حدیث نمبر:۱۲۰۶، شاملہ، موقع الإسلام) (ب)اسی طرح حضرت ابن عباسؓ کے پاس ایک کتاب لائی گئی جوحضرت علیؓ کے قضایا (فیصلوں) کا مجموعہ تھی، حضرت ابنِ عباسؓ نے اسے غور سے دیکھا؛ پھرایک ذراع کے بقدر چھوڑ کرسب کومٹایا اور فرمایا: علی نے یہ فیصلےنہیں کیےہوں گے الا یہ کہ وہ گمراہ ہوگئے ہوں۔ (مقدمہ مسلم،حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو الضَّبِّيُّ:۱/۲۸) حضرت ابنِ عباسؓ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ان فیصلوں کواس وجہ سے ردفرمایا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جلالتِ شان، ان کی منشأ نبویﷺ اور مرادِ نبویﷺ کو جاننے کی لیاقت؛ پھران فیصلوں کامزاج شریعت سے میل نہ کھانا وغیرہ امور اس کوقابل رد قرار دینے کی وجہ تھے۔ درایتِ حدیث کی ضرورت واہمیت پرعلماء کے اقوال اصولِ روایت کے ساتھ اصولِ درایت کی ضرورت واہمیت کا نہ صرف جمہور علماء ومحدثین نے اعتراف کیا ہے؛ بلکہ اہمیت کے ساتھ اس کی تائید کی ہے اور عملی طور پراصولِ درایت پربعض روایتوں کوپرکھا بھی ہے: (۱)چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنی بے مثال تصنیف الرسالۃ میں فرماتے ہیں: ولايستدل على أكثر صدق الحديث وكذبه فلا بصدق المخبر وكذبه إلافي الخاص القليل من الحديث وذلك أن يستدل على الصدق والكذب فيه بأن يحدث المحدث مالايجوز أن يكون مثله أومايخالفه ماهوأثبت وأكثر دلالات بالصدق منه۔ (الرسالۃ:۳۹۹، شاملہ، موقع یعسوب) ترجمہ:یعنی اکثر حدیثوں کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار توراوی کا صادق یاکاذب ہونا ہی ہے؛ مگرچند مخصوص حدیثیں کہ ان کا صحیح اور غلط ہونا بایں طور بھی جانا جاتا ہے کہ حدیث بیان کرنے والا ایسی حدیث بیان کرے کہ اس جیسا مضمون عقلاً ممکن نہ ہویاایسی حدیث بیان کرے جواس سے مضبوط درجہ کی دلیل یاایسی حدیث کے معارض ہو جس میں صدق اور صحت کے قرائن اس سے زیادہ ہوں۔ (۲)علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الفروسیۃ میں لکھا ہے: وقد عُلِمَ أن صحة الإسناد شرط من شروط صحة الحديث، وليست موجبة لصحة الحديث، فإن الحديث إنمايصح بمجموع أمور منها: صحة سنده، وانتفاء علته، وعدم شذوذه ونكارته، وأن لايكون راويه قد خالف الثقات أوشذ عنهم۔ (الفروسیۃ:۲۴۵،شاملہ، الناشر:دارالأندلس،السعودية،حائل) ترجمہ:یعنی یہ مسلم ہے کہ حدیث کی سندکا صحیح ہونا متن کے صحیح ہونے کے شرائط میں سے ہے؛ لیکن اس کے صحیح ہونے کوواجب کرنے والا یہی ہے؛ کیونکہ متنِ حدیث کی صحت چند امور کے مجموعہ سے ثابت ہوتی ہے، جن میں اس کی سند کا صحیح ہونا، اس میں علتِ خفیہ کا نہ ہونا، اس کا شاذ اورمنکر نہ ہونا اور یہ بات ہے کہ اس کے راوی نے دیگرثقات سے الگ ہوکر ان کی مخالفت نہ کی ہو۔ بہرِحال جمہور علماء اصطلاح محدثین کے مطابق حدیث کی صحت کی جانکاری پراکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ حدیث کودیگرادلۂ شرعیہ بالخصوص اس باب میں وارد دیگراحادیث جوپائہ ثبوت کوپہونچ رہی ہیں ان سے موازنہ کرکے یہ معلوم کریں کہ یہ حدیث معارض ہے۔ صحتِ سند کے باوجود حدیث کے ناقابل عمل ہونے کی صورتیں صحتِ سند کے باوجود حدیثیں بسااوقات ناقابل عمل ہوتی ہیں، یعنی اصول روایت کی روشنی میں تووہ حدیث راوی کے عادل اور صادق ہونے اور جمیع شروطِ صحت کوجامع ہونے کی وجہ سے بالکل صحیح ہوتی ہیں؛ لیکن اصولِ درایت کی روشنی میں وہ حدیث بچند وجوہ درست نہیں ہوتی، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں: جب کوئی ثقہ اور مامون شخص متصل سند سے کوئی حدیث روایت کرے تودرجِ ذیل صورتوں میں ناقابل قبول شمارکی جائے گی: (۱)حدیث کا خلافِ عقل ہونا پہلی صورت یہ ہے کہ حدیث موجباتِ عقلیہ یعنی عقلِ سلیم جس بات کوضروری قرار دے رہی ہو یہ حدیث اس کے خلاف ہوتورد کردی جائے گی؛ چونکہ شریعت ممکناتِ عقلیہ کوبیان کرتی ہے محالات کونہیں، مثلاً حدیث: وَلَدُ الزِّنَا شَرُّ الثَّلَاثَةِ۔ (مستدرک، كتاب العتق،حدیث نمبر:۲۸۵۳، شاملہ، الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت) یعنی زنا سے پیدا ہونے والی اولاد زانی، مزنیہ اور ولد تینوں میں بدترین ہے۔ اِس حدیث کوحاکم نیساپوری نے مستدرک:۳۱/۱۱۲، میں روایت کرکے اس کوصحیح کہا ہے اور حافظ ذھبی رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت کی ہے؛ مگرحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کوعقل کی کسوٹی پرپرکھتے ہوئے رد فرمارہے ہیں، فرماتے ہیں: لوكان شر الثلاثة مااستوني بأمه أن ترجم حتى تضعه۔ (سیراعلام النبلاء:۴/۳۰۰، شاملہ،موقع یعسوب) ترجمہ:اگریہ تینوں میں بدترین ہوتا تواس کی ماں کورجم کیئے جانے میں اتنی مہلت نہ دی جاتی کہ وہ اسے جن لے۔ (۲)قرآن کے خلاف ہونا دوسری صورت یہ کہ وہ حدیث قرآن کریم کی کسی آیت سے معارض ہوتو سمجھا جائے گا کہ اس حدیث کی یاتوکوئی بنیادہی نہیں ہے یاپھروہ منسوخ ہے یامؤوّل ہے، مثلاً حدیث: ولد الزنا لايدخل الجنة إلى سبعة أبناء۔ (اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة:۲/۱۶۴،شاملہ، المؤلف:جلال الدين السیوطی،الناشر:دارالكتب العليمة) ترجمہ:کہ زنا کی اولاد سات نسل تک جنت میں نہیں جائیگی۔ (الف)یہ حدیث قرآنِ کریم کی آیت: وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى۔ (الانعام:۱۶۴) ترجمہ:اورکوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی اور کابوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) کے صریح معارض ہے؟ اس لیے علماءِ امت نے اس کوموضوع قرار دیا ہے۔ (ب)حدیث فاطمہ بنتِ قیس جس کے بموجب مطلقہ بائنہ کی عدت کاخرچہ اور رہائش کا انتظام اس کے طلاق دینے واے شوہر پرنہیں جس کوحضرت عمرؓ نے آیتِ کریمہ: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ۔ (الطلاق:۶) ترجمہ:ان عورتوں کواپنی حیثیت کے مطابق اُسی جگہ رہائش مہیا کرو جہاں تم رہتے ہو۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) کے معارض قرار دے کر رد فرمارہے ہیں۔ امام مسلمؒ نے ابواسحاق سبعی سے روایت کیا، فرماتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے ساتھ کوفہ کی مسجدِاعظم میں بیٹھا تھا، ہمارے ساتھ عامرشعبی بھی تھے، توشعبی نے فاطمہ بنتِ قیس کی حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے ان کے لیے رہائش اور نفقہ (شوہرپر) مقرر نہیں فرمایا، تواسود نے ایک مٹھی کنکرلےکر شعبی کومارا اور کہا کہ: ناس ہو تمہارا! تم اس جیسی حدیث بیان کرتے ہو؛ جب کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کونہیں چھوڑسکتے، ایک ایسی عورت کے بیان پر جس کے متعلق ہم نہیں جانتے کہ آیا اس نے بات صحیح یادرکھی یابھول گئی، مطلقہ بائنہ کے لیے رہائش اور نفقہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَاتُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَايَخْرُجْنَ إِلَّاأَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ۔ (الطلاق:۱) ترجمہ:اُن عورتوں کو اُن کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، اِلاّ یہ کہ وہ کسی کھلی بے حیائی کا اِرتکاب کریں۔ (توضیح القرآن، مفتی تقی عثمانی) (۳)سنتِ مشہورہ کے خلاف ہونا تیسری صورت یہ ہے کہ وہ حدیث کسی سنتِ مشہورہ سے معارض ہورہی ہوتویہ سمجھا جائے گا کہ وہ حدیث یاتومنسوخ ہے یامؤول ہے یاغیرثابت ہے،مثلاً: إِذَانُودِيَ لِلصَّلَاةِ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَأَحَدُكُمْ جُنُبٌ فَلَايَصُمْ يَوْمَئِذٍ۔ إسناده صحيح على شرط الشيخين۔ (مسنداحمدبن حنبل،مسند أبي هريرة رضي الله عنه،حدیث نمبر:۸۱۳۰، صفحہ نمبر:۲/۳۱۴، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:اگرجنابت کی حالت میں کسی کی صبح ہوجائے تواس دن وہ شخص روزہ نہ رکھے، اِس کا روزہ نہیں ہوگا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت منقول ہے علامہ بوصیریؒ نے الزوائد میں اس کی سند کوصحیح اور رجال کوثقہ کہا ہے؛ لیکن جمہور نے اس حدیث کوسنتِ مشہورہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ترک کردیا ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اورام المؤمنین ام سلمہؓ سے کثیر طرق سے اس مضمون کی حدیثیں مروی ہیں کہ خود رسول اللہﷺ کی اس حال میں صبح ہوتی تھی اور آپﷺ غسل فرماکر نمازِ فجرپڑھانے کے لیے برآمد ہوتے تھے اور اس دن کا روزہ بھی رکھتے تھے۔ (شرح معانی الآثار للامام الطحاوی، باب الرجل یصبح فی یوم من شھر رمضان جنبا ھل یصوم أم لا؟، شاملہ، موقع الإسلام) (۴)اجماع کے خلاف ہونا چوتھی صورت یہ ہے کہ وہ حدیث اجماع کے خلاف ہو جس سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ یاتومنسوخ ہے یااس کی کوئی بنیاد نہیں ہے یااس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں؛ بلکہ اس میں ایک قسم کی تاویل ہے؛ چونکہ اگروہ حدیث واقعتاً ثابت ہو اور منسوخ یامؤول بھی نہ ہوتوممکن ہی نہیں کہ امت اس کے خلاف پرمتفق ہوجائے مثلاً حدیث: مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ۔ (ترمذی، کتاب الحدود عن رسول اللہﷺ ، باب ماجاء من شرب الخمر فاجلدوہ ومن عاد فی الرابعۃ فاقتلوہ، حدیث نمبر:۱۳۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:کہ شراب پینے والے کوکوڑے لگاؤ؛ اگرپھربھی باز نہ آئے توچوتھی مرتبہ میں اسے قتل کردو۔ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کونقل کرنے کے بعد فرمایا، شروع میں حکم ایسے ہی تھا؛ پھربعد میں منسوخ ہوگیا، محمدبن اسحاق نے محمدبن منکدر کے واسطہ سے حضرت جابر کی حدیث نقل کی ہے، فرماتے ہیں، حضوراکرمؐ نے فرمایا تھا کہ جوشخص شراب پئے اسے کوڑے لگاؤ؛ اگرچوتھی بار پی لے تواسے قتل کردو؛ پھراس کے بعد ایک شخص آپ کے پاس لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی تھی توآپ نے پٹائی کرکے اُسے چھوڑدیا، قتل نہیں فرمایا، حضرت قبیصہ بن ذویب سے بھی یہی مضمون منقول ہے، اس کے بعد امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَانَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ (ترجمہ:چوتھی مرتبہ شراب پینے والے کوقتل نہ کرے) پرتمام اہلِ علم کا عمل ہے اس سلسلہ میں متقدمین ومتأخرین میں سے کسی کااختلاف ہمارے علم میں نہیں ہے۔ (۵)حدیث کا شاذہونا پانچویں صورت یہ ہے کہ کوئی ایک شخص کسی ایسی بات کے روایت کرنے میں منفرد ہو جس کا علم تمام یااکثرلوگوں کوہونا چاہیے تھا؛ پھربھی ایک ہی شخص کا روایت کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ اس کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کی کوئی اصل ہواور بے شمار لوگوں میں سے صرف اسی کومعلوم ہو، فقہائےکرام اس طرح کی احادیث کوشاذ سے تعبیر کرتے ہیں، حدیث قلتین، جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہیں کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: إِذَاكَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلْ الْخَبَثَ۔ (ترمذی، كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْهُ آخَرُ،حدیث نمبر:۶۲،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:پانی جب دوقلہ (دومٹکوں کے بقدر) ہوجائے تواس میں ناپاکی سرایت نہیں کرتی یعنی وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ یہ حدیث گرچہ متعدد سندوں سے مروی ہے؛ لیکن تمام کامرجع دوسندیں ہیں، ایک سند ولید بن کثیر، عن محمد بن جعفر بن الزبیر عن عبداللہ بن عبداللہ عن ابن عمر اور دوسری سند الولید بن کثیر عن محمد بن عباد بن جعفر عن عبیداللہ بن عبداللہ عن ابن عمر ہے اور اس میں روایت کا اختلاف ہے؛ اسی وجہ سے بعض ناقدین نے اسپراضطراب کا حکم لگایا ہے، حافظ ابنِ قیمؒ نے تہذیب سنن ابی داؤد، صفحہ نمبر:۱/۶۲ پرکئی نقد کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے، جہاں تک شذود کا تعلق ہے تویہ حدیث حلال وحرام اور طاہروناپاک کے درمیان ایک ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے، پانی کی طہارت ونجاست کے تعلق سے اسکا وہی مقام ہے جوزکوٰۃ میں مالوں کے نصاب اور وسق وغیرہ کی ہے؛ پھرکیوں یہ حدیث صحابہؓ کے درمیان معروف نہیں ہوئی کیوں امت کواس حدیث کوجاننے کی زکوٰۃ کے نصاب کوجاننے سے زیادہ ضرورت تھی؛ چونکہ پاکی وناپاکی سے یہ امیروغریب کوواسطہ پڑتا ہے، اس کے مقابل زکوٰۃ کے نصاب وغیرہ کی جانکاری صاحب نصاب کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ صرف اُس روایت کو حضرت ابن عمرؓ سے ان کے صاحبزادے عبداللہ اس روایت کونقل کرتے ہیں، ان کے دیگر تلامذہ نافع، سالم، ایوب اور سعید بن جبیر وغیرہ کہاں گئےاتنی اہمیت کی حامل حدیث جوپاکی وناپاکی کے درمیان ایک ضابطہ اور رابطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس کو اہلِ مدینہ کے درمیان خوب چرچا ہونا چاہیے تھا، اس سے پتہ چلا کہ حضرت عمرؓ کے پاس کوئی ایسی سنت سرے سے تھی ہی نہیں۔ (۶)حدیث کا کسی ایسے مسئلہ سے متعلق ہونا جوتواتر کا متقاضی ہو چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی ایک شخص کسی ایسی بات کے نقل کرنے میں منفرد ہو جس کوبطریق تواتر منقول ہونا چاہیے تھا اور اس جیسی بات عادتا تواتر کے ساتھ ہی منقول ہوا کرتی ہے؛ چنانچہ اس منفرد شخص کی یہ حدیث قبول نہیں کی جائیگی؛ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس جیسے قضیہ میں صرف یہی شخص روایت کرے، مثلاً: وہ حدیث عقائد کے باب سے تعلق رکھتی ہو، یاکسی کلام کوقرآن کی آیت بتلاتی ہو جس کا آیت ہونا تواتر سے منقول نہ ہو؛ چنانچہ قرأت شاذہ کوقرآن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا؛ خواہ ان کی روایت صحیح اور متصل سند ہی کیوں نہ ہو۔ حدیث کی تقویت میں اصولِ درایت کا اثر مذکورہ بالا امور سے حدیث کا ناقابل عمل یامرجوح ہونا معلوم ہوتا ہے، جب کہ کچھ قرائن اور دلائل ایسے بھی ہوتے ہیں جواصولِ درایت کی روشنی میں غیرمقبول حدیث کومقبول اور قابل عمل بنادیتے ہیں؛ چنانچہ خطیب بغدادی اپنی کتاب الکفایہ میں لکھتے ہیں: أماالضرب الأول، وهومايعلم صحته، فالطريق إلى معرفته إن لم يتواتر حتى يقع العلم الضروري به أن يكون مماتدل العقول على موجبه، كالإخبار عن حدوث الأجسام، وإثبات الصانع، وصحة الأعلام التي أظهرها الله عزوجل على أيدي الرسل، ونظائر ذلك، مماأدلة العقول تقتضي صحته، وقد يستدل أيضا على صحته بأن يكون خبرا عن أمر اقتضاه نص القرآن أوالسنة المتواترة، أواجتمعت الأمة على تصديقه، أوتلقته الكافة بالقبول، وعملت بموجبه لأجله۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ،باب الكلام في الاخبار وتقسيمها:۱/۱۷،شاملہ،الناشر: المكتبة العلمية،المدينة المنورة) ترجمہ:پہلی قسم جس سے حدیث کی صحت کا علم ہوتا ہے، اس کی جانکاری کی راہ ہے اگروہ روایت متواتر نہ ہو کہ جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے کہ وہ روایت مقتضائے عقل کے مطابق ہو، کبھی اس کی صحت یوں معلوم ہوتی ہے کہ وہ خبرنص قرآنی یاسنت مشہورہ کے مطابق ہو یاامت نے اس روایت کودرست گردانا ہو اور اس پرعمل درآمد کیا جاتا رہا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ گرچہ حدیث اخبارِ آحاد سے تعلق رکھتی ہولیکن اس کے ساتھ وہ مقتضائے عقل کے مطابق ہو یانص قرآنی کے موافق ہو، یاسنتِ متواترہ کے موافق ہو، یاامت کا اس کے مطابق اجماع ہو، یاعمومی طور پراس حدیث کولوگوں نے قبولیت کے ہاتھوں لیا ہو اور اس کے تقاضے پر عمل کیا ہو یہ تمام قرائن اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے؛ گرچہ اصولِ روایت کے مطابق اس میں کچھ خلل اورکمزوری کیوں نہ ہو۔ مجموعی گفتگو سے پتہ چلا کہ علمائے امت نے جس طرح اصولِ روایت کواپناکر حدیث کے سلسلہ اسناد کے احوال کومعلوم کیا ہے اسی طرح اصولِ درایت پر، پرکھ کراسکے متن کے قابل عمل یاناقابل عمل ہونے کا پتہ بھی چلایا ہے۔ علومِ درایتِ حدیث درایتِ حدیث ایک مشکل اور دشوار گذار کام ہے، اس کے انجام دینے کے لیے بہت سے علوم میں مہارت درکار ہوتی ہے، جن کے بغیر درایت کا علم ناقص اور ناتمام رہ جاتا ہے، یوں توان علوم کی تعداد بہت ہے؛ مگریہاں صرف ان خاص علوم کا ذکر کیا جاتا ہے جن کاراست تعلق اصولِ درایت سے ہے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ درایتِ حدیث کا نمبرروایت کے بعد کا ہے، یعنی درایت حدیث کا عمل انجام دینے کے لیے اولاً روایتِ حدیث کے جملہ علوم پرمہارتِ تامہ ضروری ہوتی ہے؛ پھراس کے بعد درایت کے علوم میں۔ (۱)علم مختلف الحدیث ومشکلہ(متعارض ومشکل نصوص کے حل کی جانب رہنمائی کرنے والا علم) یہ دوعلم ہیں جن میں آپس میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے۔ علم مختلف الحدیث:نام ہے ان قواعد وضوابط کی جانکاری کا جن کی مدد سے ایسی دوحدیثوں کے درمیان جو آپس میں بظاہر معنی اور مفہوم میں متعارض ہوں تطبیق یاترجیح دی جائے۔ علم مشکل الحدیث:نام ہے ان قواعد وضوابط کا جن کی رو سے کسی ایسی حدیث کی مراد واضح کی جاسکے جس کی مراد کسی وجہ سے مخفی رہ گئی تھی، بالفاظِ دیگر مشکل الحدیث اس مقبول حدیث کوکہتے ہیں جس کی مراد مخفی ہوگئی ہو بایں طور کہ ظاہری لفظ کسی محال معنی پردلالت کررہا ہے یاوہ قواعد شرعیہ یاعرفیہ کے معارض ہے۔ مختلف الحدیث میں تعارض دوحدیثوں کے درمیان ہوتا ہے اور مشکل الحدیث میں اولاً تعارض کا ہونا ضروری نہیں، صرف معنی مرادی واضح نہیں ہوتا اور اگرتعارض ہوتا ہے توعموم کے ساتھ کہ اس کا تعارض قرآن سے بھی ہوسکتا ہے، حدیث سے بھی اور ان کے علاوہ دیگرادلۂ شرعیہ سے بھی۔ حدیث کے مشکل ہونے کا اسباب عام طور سے حدیث کے مشکل ہونے کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں: (۱)دویاچند حدیثوں کے درمیان باہم تعارض۔ (۲)ظاہر حدیث کا قرآن کے ظاہر سے یااجماع سے یاواقعۂ تاریخی سے یاعقل سے متعارض ہونا۔ (۳)حدیث کے معنی کا مخفی ہوجانا لفظ کے غریب اور نامانوس ہونے کی وجہ سے یامعنی لغوی اور معنی مرادی کے درمیان مناسبت کے بعید ہونے کی وجہ سے۔ (۴)حدیث سے حکم شرعی کے مستنبط کرنے میں فقہائے کرام کے نقطہائے نظر کامختلف ہونا؛ چونکہ بسااوقات یوں ہوتا ہے کہ دومختلف نظریہ کے حامل فقہاء اپنے موقف کی تائید میں ایک ہی حدیث کوپیش کرتے ہیں، فرق صرف طریقۂ استدلال کا ہوتا ہے، اس وقت اہلِ علم کے لیے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ حدیث واقعی کس کی تائید کررہی ہے۔ مختلف الحدیث کی مثال (۱)حدیث لَاعَدْوَى وَلَاطِيَرَةَ (بخاری،كِتَاب الطِّبِّ، بَاب الْجُذَامِ) اور حدیث وَفِرَّمِنْ الْمَجْذُومِ كَمَاتَفِرُّ مِنْ الْأَسَدِ (بخاری،كِتَاب الطِّبِّ،بَاب الْجُذَامِ) دونوں حدیثیں باہم متعارض ہیں؛ کیونکہ پہلی حدیث کے بموجب مرض کا تعدیہ نہیں ہوتا جب کہ دوسری کے بموجب تعدیہ ہوتا ہے۔ (۲)حدیث إِذَابَلَغَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ (سنن دارِقطنی، حدیث نمبر:۱۸، شاملہ،موقع وزارة الأوقاف المصرية) اور حدیث إلَّامَاغَيَّرَطَعْمَهُ أَوْلَوْنَهُ أَوْرِيحَهُ۔ (مجمع الزوائد، باب ماجاء فی الماء حدیث:۱/۲۶۴، حدیث نمبر:۱۰۶۸) یہ دونوں حدیثیں بھی آپس میں متعارض ہیں؛ کیونکہ پہلی حدیث کا تقاضا ہے کہ جب پانی دوقلے (دومٹکے) یا اس سے زیادہ ہوجائے توناپاک نہیں ہوتا؛ خواہ اس کا کوئی وصف بدلے یانہ بدلے، جب کہ دوسری حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ پانی کا کوئی وصف نجاست گرنے کی وجہ سے بدل جائے تووہ ناپاک ہوجائے گا؛ خواہ دوقلہ سے کم ہویازیادہ۔ مشکل الحدیث کی مثال یوں تومشکل الحدیث کی بہت سی صورتیں ہیں؛ لیکن یہاں صرف دومثالیں پیش کی جارہی ہیں، ایک مثال حدیث کے قرآن سے متعارض ہونے کی اور دوسری معنی لغوی اور معنی مرادی کے درمیان مناسبت کے بعید ہونے کی: (۱)إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَاتَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ لَاتُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ۔ (بخاری، كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ،بَاب فَضْلُ صَلَاةِ الْعَصْرِ،حدیث نمبر:۵۲۱، شاملہ، موقع الإسلام) اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت میں مؤمنین کواللہ تعالیٰ کا کھلے طور پر دیدار ہوگا جومعارض ہے آیتِ شریفہ: لَاتُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَيُدْرِكُ الْأَبْصَارَ۔ (الانعام:۱۰۳) ترجمہ:نگاہیں اس کو نہیں پاتیں اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس آیت میں بظاہر رؤیتِ باری تعالیٰ کی نفی ہے۔ (۲)شَهْرَا عِيدٍ لَايَنْقُصَانِ۔ (بخاری،كِتَاب الصَّوْمِ، بَاب شَهْرَا عِيدٍ لَايَنْقُصَانِ، شاملہ، موقع الإسلام) اس حدیث کے الفاظ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس کا لغوی معنی محتاجِ بیان ہو اور نہ ہی اس حدیث کا کسی دلیل شرعی سے تعارض ہے، صرف عادت اور حس کے خلاف معلوم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں اس کومستقل عنوان سے ذکر کرکے نصوص کی روشنی میں اس کو بیان فرمائی ہے۔ اس فن کی بعض مشہور کتابیں خصوصی طور پر اس فن کے تعلق سے بعض کتابیں لکھی گئی ہیں جومتعارض اور مشکل المفہوم احادیث کے تعارض وتناقض کودور کرنے کا کام انجام دیتی ہیں: (۱)اس موضوع پرسب سے پہلے سیدنا امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) نے اپنی کتاب اختلاف الحدیث تالیف فرمائی اس میں آپ نے استیعاب کا التزام کیے بغیر مختلف متعارض احادیث کے درمیان جمع وتطبیق یاترجیح کاعمل انجام دیا ہے اور کچھ ایسے اصول ایسے بیان کیے ہیں جن کی مدد سے دیگرمتعارض نصوص کے درمیان بھی جمع وتطبیق وترجیح کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ (۲)ابن قتیبہ دینوری (۲۷۶ھ) کی تاویل مختلف الحدیث اس میں انھوں نے ایمانیات واخلاقیات سے متعلق بعض عقل پسند طبائع کی جانب سے پیش کردہ اشکالات کا دفعیہ کیا ہے۔ (۳)پھراس موضوع پرمبسوط اور تفصیلی کام ابوحعفراحمد بن محمدبن سلامہ مصری طحاوی (۳۲۱ھ) نے کیا، آپ نے مختلف الحدیث اور مشکلات الحدیث دونوں موضوعات پرکام کیا اور بالکل حق ادا کردیا، خاص احادیثِ احکام کے تعلق سے ان کی کتاب شرح معانی الآثار لاجواب تصنیف ہے۔ اس سے بڑی اورمبسوط کتاب جوجمیع ابواب دین سے متعلق ممکنہ حد تک تمام ہی مشکل یامتعارض احادیث کی تشریح اور تاویل کے سلسلہ میں موسوعہ کی حیثیت رکھتی ہے، وہ آپ کی کتاب بیان مشکل الآثار ہے۔ (۲)علم ناسخ الحدیث ومنسوخہ (متعارض حدیثوں میں ناسخ ومنسوخ کا علم) درایتِ حدیث کے لیے جوعلوم درکار ہیں، ان میں دوسرا اہم علم ناسخ ومنسوخ کی معرفت ہے، جب تک فقیہ کواس علم میں مہارتِ تامہ نہیں ہوتی وہ متعارض نصوص کے درمیان متوازن رائے قائم نہیں کرسکتا۔ نسخ کے لغوی معنی ختم کرنا، زائل کرنا اور مٹادینا ہے اور اصطلاحِ شریعت میں اس کی حقیقت یہ ہے کہ شارع کی جانب سے حکم سابق کی مدت ختم ہوجانے کوبتلانا؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں بعض احکام موقت ہوتے ہیں، مدت کے پورے ہونے پرحکم انتہاء کوپہنچ جاتا ہے اور حکم سابق کی جگہ دوسرا حکم دیا جاتا ہے۔ نسخ ایسے حکم میں ہوتا ہے جومدت اور وقت کی تعیین کا احتمال رکھتا ہو؛ اگراس میں وقت کی تعیین کابالکل احتمال نہ ہوتووہ نسخ کامورد نہ ہوگا، نسخ کبھی تدریجی ہوتا ہے اور کبھی یکبارگی، تدریجی مثلاً: کنوئیں کے احکام میں رفتہ رفتہ کرکے شدت سے خفت کی جانب لایا گیا اور کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے؛ جیسا کہ نماز کے منافی اعمال میں حرمت کے تعلق سے خفت سے شدت کی جانب لے جایا گیا۔ نسخ کی قسمیں نسخ کی بنیادی طور پردوقسمیں ہیں (۱)نسخ منصوص (۲)نسخ اجتہادی۔ (۱)نسخِ منصوص: یعنی دلیل نسخ خود کسی مرفوع حدیث میں وارد ہوتی ہو، مثلاً: حدیث مرفوع جس کے راوی حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ فَأَمْسِكُوا مَابَدَا لَكُمْ وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ النَّبِيذِ إِلَّافِي سِقَاءٍ فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا وَلَاتَشْرَبُوا مُسْكِرًا۔ (مسلم، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ،حدیث نمبر:۱۶۲۳،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:کہ میں تم کوقبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو، میں نے تم کوقربانی کاگوشت تین دن سے زیادہ رکھنے کومنع کیا تھا، اب تم اس کوجتنے دن چاہو رکھو، میں تم کوچمڑوں کے مشکیزوں کے علاوہ میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا، اب تم جس برتن میں چاہو بناؤ مگرنشہ کا مشروب نہ پینا۔ دوسرے یہ کہ وہ نسخ کسی ایسی دلیل سے ثابت ہوجونسخ منصوص کے قائم مقام ہوتی ہے، مثلاً اجماع، یاصحابی کے نسخ کی خبردینا جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو، بعض لوگوں کا خیال ہے صحابی کا بیان نسخِ اجتہادی ہے، نسخِ منصوص کے قائم مقام نہیں ہے۔ اجماع کے ذریعہ ثابت نسخ کی مثال حضرت اسلم بن زید کی یہ مرفوع حدیث ہے: لَارِبًا إِلَّافِي النَّسِيئَةِ یا لَارِبوا فِیْمَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ۔ (بخاری، كِتَاب الْبُيُوعِ،بَاب بَيْعِ الدِّينَارِ بِالدِّينَارِ نَسَاءً،حدیث نمبر:۲۰۳۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ایک جنس کی چیزوں کو ادھار فروخت کرنے میں سود ہے یاہاتھ درہاتھ لین دین کی صورت میں کمی بیشی کرنا سود نہیں ہے۔ یہ حدیث اس حدیث کے معارض ہے جس کوحضرت عبادہ بن صامتؓ وغیرہ صحابہؓ روایت کرتے ہیں: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ إِلَّاسَوَاءً بِسَوَاءٍ عَيْنًا بِعَيْنٍ فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى۔ (مسلم، كِتَاب الْمُسَاقَاةِ،بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا،حدیث نمبر:۲۹۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) جس کا مقتضاء یہ ہے کہ اشیاء ستہ کا جس کے اتحاد کی صورت میں کمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت کرنا جائز نہیں ہے؛ اگرچہ دونوں عوض کی ادائیگی نقد ہو، امام نوویؒ شرح صحیح مسلم میں حدیث اسامہؓ کے متعلق فرماتے ہیں: وَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى تَرْك الْعَمَل بِظَاهِرِهِ ، وَهَذَا يَدُلّ عَلَى نَسْخه۔ (شرح النووي على صحيح مسلم، حدیث نمبر:۱۳۹۲،شاملہ، الناشر: دار إحياء التراث العربي،بيروت) ترجمہ:کہ مسلمانوں کا حدیث اسامہ کے مطابق عمل نہ کرنے پراجماع ہوگیا ہے؛ پس یہ اجماع اس کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے۔ (۲)نسخ اجتہادی: دومتعارض دلیلوں میں سے ایک کامؤخر ہونا کسی صحابی کے قول سے یاتاریخ سے یاممانعت سے یاقواعد کلیہ کے ساتھ معارض ہونے سے یانص متواتر یامشہور کے ساتھ تعارض سے، یااس صحابی کے عمل کے خلاف ہونے سے ۔ (الف) صحابی کے قول سے نسخ کا علم ہونے کی مثال: حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ: كَانَ آخِرَ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْكُ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ۔ (نسائی، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ،حدیث نمبر:۱۸۵، شاملہ، موقع الإسلام) کہ آگ پرپکی ہوئی چیز سے وضو کرنا اور نہ کرنا دونوں رسول اللہﷺ کا عمل تھا اور بعد والا عمل وضو نہ کرنا ہے۔ (ب)تاریخ کے ذریعہ نسخ کا علم، حضرت شداد بن اوس رحمہ اللہ کی حدیث : أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ،حدیث نمبر:۷۰۵، شاملہ، موقع الإسلام) پچھنے لگانے اور لگوانے والا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ جومعارض ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث: احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ،حدیث نمبر:۷۰۶، شاملہ، موقع الإسلام) رسول اللہﷺ نے روزے اور احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دوسری حدیث پہلی حدیث کے لیے ناسخ ہے؛ کیونکہ دوسری حدیث حجۃ الوداع سنہ۱۰ھ کے موقع کی ہے اور پہلی حدیث سنہ۸ھ میں فتح مکہ کے موقع کی ہے۔ (ج)ممانعت کے ذریعہ نسخ کے علم کا مطلب یہ ہے کہ دوحدیثیں محرم اور مبیح اکٹھا ہوں، ایک کی دلالت اباحت اصلیہ پرہے اور دوسری کی ممانعت پر؛ توچونکہ اصل اشیاء میں اباحت ہے، اس لیے مبیح کومنسوخ مانا جائے گا اور محرم کوناسخ قرار دیا جائےگا، مثلاً: عبدالرحمن بن شبل کی حدیث گوہ کی حرمت پر دلات کرتی ہے راجح قرار دی جائے گی، حضرت خالد بن ولید کی حدیث پر جس سے اس کا حلال ہونا معلوم ہوتا ہے: عبدالرحمن بن شبل کی حدیث یہ ہے: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ۔ (سنن ابوداؤد،كِتَاب الْأَطْعِمَةِ،بَاب فِي أَكْلِ الضَّبِّ،حدیث نمبر:۳۳۰۲، شاملہ، موقع الإسلام) اور حضرت خالد بن ولید کی حدیث یہ ہے: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ سَيْفُ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَيْدَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ فَقَدَّمَتْ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ قَلَّمَا يُقَدَّمُ إِلَيْهِ طَعَامٌ حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ وَيُسَمَّى لَهُ فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ إِلَى الضَّبِّ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ النِّسْوَةِ الْحُضُورِ أَخْبِرْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ قُلْنَ هُوَ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ قَالَ خَالِدٌ فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ يَنْظُرُ فَلَمْ يَنْهَنِي۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت خالد بن ولید جن کو سیف اللہ کہا جاتا ہے وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ ام المؤمنین حضرت میمونہ کے پاس گئے، جو حضور اکرمﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں اور وہ حضرت خالد کی خالہ ہوتی تھیں اور ابن عباس کی بھی خالہ تھیں، ان کے پاس بھنا ہوا گوہ دیکھا تھا جس کو میمونہ کی بہن حفیدہ بنت حارث نجد سے لائی تھیں،پھر گوہ کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیاگیا اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ کوئی چیز رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھانے کے لیے پیش کی جائے اور اس کا نام نہ بتایا جائے،رسول اللہﷺ نے گوہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایاوہاں جو عورتیں حاضر تھیں ان میں سے کسی نہ کہا کہ یہ گوہ ہے یا رسول اللہ! رسول اللہﷺ نے اس کو اپنے سامنے سے ہٹادیا ،حضرت خالد بن ولید نے پوچھا کہ کیا گوہ حرام ہے یا رسول اللہ! آپﷺ نے فرمایا نہیں؛ لیکن یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے مجھ کو اس سےکراہت ہوئی، حضرت خالد کہتے ہیں کہ میں نے اس کو اپنی طرف کھینچا اور کھایا اور رسول اللہﷺ دیکھ رہے تھے اور منع نہیں فرمایا۔ (د)اسی طرح فقہاء کسی حدیث کے شرعی قواعد کلیہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے بھی اس کے منسوخ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں؛چنانچہ سلمہ بن محبق کی حدیث کہ رسول اللہﷺ نے ایک ایسے شخص کے متعلق جواپنی بیوی کی باندی سے وطی کربیٹھا تھا یہ فیصلہ دیا کہ اگراس نے زبردستی کی ہے توباندی آزاد ہوگئی اور اس پر اس کی مالکن کے لیے اس باندی کا مثل دینا واجب ہے اور اگر اس باندی کی مرضی سے اس نے یہ کام کیا توباندی اس شخص کی ہوگی اور مالکن کے لیے اس باندی کا مثل اس پرواجب ہے۔ (سنن الکبری للبیہقی، باب ماجاء فیمن أتی جاریۃ، حدیث نمبر:۶۸۵۲، شاملہ، مکتبۃ دارالباز، مکتۃ المکرمۃ) امام خطابی فرماتے ہیں میں نہیں جانتا کہ فقہاء میں سے کوئی بھی اس حدیث کا قائل ہوگا؛ کیونکہ اس میں چند چیزیں اصول کے خلاف ہیں: (۱)حیوان کاضمان مثل سے واجب کرنا۔ (۲)زنا کے ذریعہ ملکیت حاصل کرنا۔ (۳) حدساقط کرکے مالی سزاواجب کرنا۔ یہ تمام باتیں انوکھی ہیں، اس لیے اگریہ بات اصول روایت کے مطابق صحیح اور ثابت بھی ہو تومنسوخ کیے جانے کے زیادہ مستحق ہے۔ (۳)علم غریب الحدیث(مشکل اور نامانوس الفاظ کے معانی کا علم) متن میں پائے جانے والے مشکل الفاظ جوقلیل الاستعمال ہونے یامختلف معانی کا احتمال نکلنے کی وجہ سے ان کے معانی ومراد سمجھ میں نہ آتی ہو،اسے غریب الحدیث کہتے ہیں اس سلسلے کی سب سے پہلی تصنیف ابوعبیدہ معمر تمیمی بصری (۲۱۰ھ)کی ہے، ان کے بعد ابوعبیدقاسم بن سلام (۲۲ھ) نے غریب الحدیث والآثار نامی کتاب لکھی؛ پھرابراہیم بن اسحاق حربی (۲۸۵ھ) اور امام سلیمان بن احمد الخطابی (۳۷۸ھ)نےلکھی،ان دونوں کی کتابیں غریب الحدیث کےحوالے سے بہترین کتابیں ہیں؛ پھربعد کے زمانے میں امام ابوالسعادات مبارک بن محمد بن محمدشیبانی معروف بہ ابن الاثیر جزری (۶۰۶ھ) نے اپنی جامع کتاب النھایۃ فی غریب الحدیث لکھی، یہ کتاب کتبِ غریب الحدیث میں سب سے جامع اور سب سے زیادہ مشہور ہے۔ (۴)علم فقہ الحدیث(حدیث سے مستنبط ہونے والے احکام ومسائل کا علم) علم فقہ الحدیث سے مراد ان احکامِ شرعیہ کی جانکاری حاصل کرنا ہے جونصوصِ حدیث میں صراحتا یادلالۃ یااشارۃ پائے جاتے ہیں، فقہ الحدیث کے حوالہ سے سیرحاصل گفتگو ان کتب میں کی جاتی ہے، جوحدیث کی کسی کتاب کی شرح میں لکھی جاتی ہیں، جیسے: (۱)المفہم فی شرح مااشکل من تلخیص صحیح مسلم للقرطبی (۶۷۱ھ)۔ (۲)المنھج علی صحیح مسلم ابن الحجاج المعروف بشرح النووی (۶۷۶ھ)۔ (۳)فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر (۸۵۲ھ)۔ (۴)عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری لبدرالدین العینی (۸۵۵ھ)۔ (۵)بذل المجھود فی حل سنن أبی داؤد للشیح خلیل احمد السھارنفوری (۱۳۴۶ھ)۔ (۶)اوجز المسالک الی مؤطامالک للشیخ محمد زکریا الکاندھلوی (۱۴۰۲ھ)۔ (۷)اعلاء السنن للمحدث الفقیۃ العلامۃ ظفراحمد التھانوی (۱۳۹۴ھ)۔ علم اسباب ورودالحدیث(حدیث کے شانِ نزول اور پسِ منظر کا علم) حدیث کا سبب وروداور ہے؛یعنی پسِ منظر اور محرک جس کے پیشِ نظرنبی کریمﷺ نے کوئی بات ارشاد فرمائی یاکوئی عمل کیا،اسے علم اسباب ورود الحدیث کہتے ہیں، اس علم کے ذریعہ بھی حدیث کے معنی ومفہوم سمجھنے اور اس کی صحیح حقیقت تک پہونچنےمیں کافی مدد ملتی ہے؛ بسااوقات شانِ نزول اور حدیث کا پسِ منظر نہ معلوم ہونے سے آدمی حدیث کوغلط سمجھ کرخطرناک نتائج سے دوچار ہوتا ہے، جیسےحدیث میں ہے: أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ۔ (مسلم، كِتَاب الْفَضَائِلِ،بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَاقَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَاذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا،حدیث نمبر:۴۳۵۸، شاملہ، موقع الإسلام) اس حدیث کوبعض روشن خیال لوگوں نے معاشیات، سیاسیات واقتصادیات میں اپنی من گھڑت اسکیموں اور تدبیروں کے جواز کے لیے دلیل اور حجت بنائی ہےاور وہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دنیاوی معاملات میں کسی طرح کا دخل نہیں دیا ہے؛ اگراس حدیث کا پسِ منظر اور شانِ ورود کا علم ہوتا تووہ اس طرح کی بات ہرگز نہیں کہہ سکتے، اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضورﷺ نے انصارِ مدینہ کونراور مادہ درختوں میں جفتی کراتے دیکھا توفرمایا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو؟ انھوں نے ایک سال یہ عمل نہیں کیا توپھل اچھے نہیں آئے، آپ سے شکایت کی گئی توآپ نے فرمایا: أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ معلوم ہوا کہ یہ حدیث ایک خاص محل اور پسِ منظر میں بطورِ مشورہ کے کہی گئی ہے، جس کا قانون سازی سے کوئی تعلق نہیں؛ ورنہ اقتصادیات ومعاشیات کے تعلق سے تمام آیات واحادیث کا باطل ہونا لازم آئے گا۔ یہ پانچ قسم کے علوم ہیں جودرایتِ حدیث کے عمل کے دوران ان کی ضرورت پیش آتی ہے۔