انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبادات نماز نماز کی اہمیت اور اس کی تاثیر اللہ ورسول پر ایمان لانے اور توحید ورسالت کی گواہی دینے کے بعد سب سے پہلا اور سب سے بڑا فرض اسلام میں نماز ہے،نماز اللہ تعالی کی خاص عبادت ہے،جو دن میں پانچ دفعہ فرض کی گئی ہے،قرآن شریف کی پچاسوں آیتوں میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں حدیثوں میں نمازکی بڑی سخت تاکید فرمائی گئی ہے اور اس کو دین کا ستون اور دین کی بنیاد کہا گیا ہے۔ نماز کی یہ خاص تاثیر ہے کہ اگر وہ ٹھیک طریقے سے ادا کی جائے اور اللہ تعالی کو حاضروناظر سمجھتے ہوئے پورے دھیان سے خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھی جائے تو اس سے آدمی کا دل پاک صاف ہوتا ہے اور اس کے زندگی درست ہوجاتی ہے اور برائیاں اس سے چھوٹ جاتی ہیں اور نیکی اور سچائی کی محبت اور خدا کا خوف اس کے دل میں پیداہوجاتا ہے، اسی لیے اسلام میں دوسرے تمام فرضوں سے زیادہ اس کی تاکید ہے اور اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جب کوئی شخص آپ کے پاس آکر اسلام قبول کرتا تو آپ توحید کی تعلیم کے بعد پہلا عہد اس سے نماز ہی کالیا کرتے تھے، الغرض کلمہ کے بعدنماز ہی اسلام کی بنیاد ہے۔ نماز پڑھنےاور نماز نہ پڑھنے والے رسول اللہﷺ کی نظر میں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نماز نہ پڑھنے کو کفرکی بات اور کافروں کا طریقہ قراردیتے تھے؛ چنانچہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:"بندہ کے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑدینے ہی کا فاصلہ ہے"۔ (صحیح مسلم،اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوۃ،حدیث نمبر:۱۱۶، شاملہ،موقع الإسلام) مطلب یہ ہے کہ بندہ اگر نماز چھوڑدے گا تو کفر سے مل جائے گا اور اس کا یہ عمل کافروں کا سا عمل ہوگا ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے کہ :"اسلام میں اس کا کچھ بھی حصہ نہیں جو نماز نہ پڑھتا ہو"۔ (مسند احمد،باقی المسند السابق،حدیث نمبر:۲۳۹۶۸، موقع الإسلام) نماز پڑھنا کتنی بڑی دولت اور کیسی نیک بختی ہے اور نماز چھوڑنا کتنی بڑی ہلاکت اور کیسی بدبختی ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ایک حدیث اورپڑھئے ؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: "جو کوئی نماز کو اچھی طرح اور پابندی سے اداکرے گا،تو اس کے واسطے قیامت میں وہ نورہوگی اور اس کے لیے (ایمان واسلام کی) دلیل ہوگی اور نجات دلانے کا ذریعہ بنے گی اور جو کوئی اس کو خیال سے اور پابندی سے ادا نہیں کرے گا تو وہ اس کے لیے نہ نور ہوگی اور نہ دلیل بنے گی اور نہ وہ اس کے عذاب سے نجات دلائے گیاور وہ شخص قیامت میں قارون،فرعون،ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا"۔ (مسنداحمد،مسند عبداللہ بن عمر وبن العاص،حدیث نمبر:۶۲۸۸، شاملہ، موقع الإسلام) بھائیو!ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہئیے کہ اگرہم نے اچھی طرح اور پابندی سے نماز پڑھنے کی عادت نہ ڈالی،تو پھرہمارا حشراور ہماراانجام کیا ہونے والا ہے۔ نماز نہ پڑھنے والوں کی میدان حشر میں رسوائی نماز نہ پڑھنے والوں کی قیامت کے دن سب سے پہلے جو سخت ذلت و رسوائی اٹھانا پڑے گی اس کو قرآن مجید کی ایک ا ٓیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے: "یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَo خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ o وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ"۔ (القلم:۴۳،۴۲) اس آیت کا مطلب اور خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن(جب کہ نہایت سخت گھڑی ہوگی اور شروع دنیا سے لے کر قیامت تک کے سارے انسان محشر میں جمع ہوں گے) تو اللہ تعالی کی ایک خاص تجلی ظاہر ہوگی اور اس وقت پکارا جائے گا کہ سب لوگ اللہ کے حضور میں سجدے میں گرجائیں ، توجوخوش نصیب اہل ایمان دنیا میں نمازیں پڑھتے تھے اور اللہ کو سجدے کیا کرتے تھے وہ تو فوراًسجدے میں چلے جائیں گے،لیکن جو لوگ تندرست اور اچھے ہٹے کٹے ہونے کے باوجود نمازیں نہیں پڑھتے تھے ان کی کمریں اس وقت تختے کی مانند سخت کردی جائیں گی اور وہ کافروں کے ساتھ کھڑے رہ جائیں گے،سجدہ نہ کرسکیں گے اور ان پر سخت ذلت وخواری کاعذاب چھا جائے گا اور انکی نگاہیں نیچی ہونگی اور وہ آنکھ اٹھاکر کچھ دیکھ بھی نہ سکیں گے، دوزخ کے عذاب سے پہلے ذلت وخواری کا یہ عذاب انہیں سرمحشر اٹھانا ہوگا، اللہ تعالی ہم سب کو اس عذاب سے بچائے۔ دراصل نماز نہ پڑھنے والا شخص ایک طرح سے خداکا باغی ہے اور وہ جس قدر بھی ذلیل ورسواکیا جائے اور جتنا بھی اس کو عذاب دیا جائے بلاشبہ وہ اس کا مستحق ہے، امت کے بعض اماموں کے نزدیک تو نماز چھوڑنے والے لوگ دین سے خارج اور مرتدوں کی طرح قتل کیئے جانے کے قابل ہیں ۔ بھائیو! ہم سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ نماز کے بغیر اسلام کا دعویٰ بے ثبوت اور بے بنیاد ہے،نماز پڑھنا ہی وہ خاص اسلامی عمل ہے جو اللہ تعالی سے ہمارا تعلق جوڑتا ہے اور ہم کو اسکی رحمت کا مستحق بناتا ہے۔ نماز کی برکتیں جوبندہ پانچ وقت اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہو کر دست بستہ کھڑا ہوتا ہے،اس کی حمدوثنا کرتا ہے،اس کے سامنے جھکتا ہے اور سجدے میں گرتا ہے اور اس سے دعائیں کرتا ہے،تووہ اللہ تعالی کی خاص محبت ورحمت کا مستحق ہوجاتا ہے اور ہرہروقت کی نماز سے اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اس کے دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور اسکی زندگی گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہوجاتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بڑی اچھی مثال دے کر فرمایا: "بتلاؤاگرتم میں سے کسی کے دروازے پر نہر جاری ہو جس میں وہ ہردن میں پانچ دفعہ نہاتا ہو،تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل رہے گا؟لوگوں نے عرض کیا:حضور!کچھ بھی نہیں رہےگا آپ نے ارشاد فرمایا:بس پانچوں نمازوں کی مثال ایسی ہی ہے، اللہ تعالی ان کی برکت سے گناہوں اورخطاؤں کومٹادیتا ہے"۔ (بخاری ،الصلوۃ خمس کفارۃ،حدیث نمبر:۴۹۷۔ مسلم،حدیث نمبر:۱۱۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) جماعت کی تاکید اور فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اصل فضیلت اور برکت حاصل ہونے کے لیے جماعت کے ساتھ نمازپڑھنے بھی شرط ہےاوراس کی اتنی سخت تاکید ہے کہ جو لوگ غفلت سے یاسستی سے جماعت میں حاضر نہیں ہوتے تھے ،ان کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ارشاد فرمایاتھا کہ:"میراجی چاہتا ہے کہ میں ان کے گھروں میں آگ لگوادوں"۔ (بخاری،بَاب وُجُوبِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ،حدیث نمبر:۶۰۸، شاملہ، موقع الإسلام) بس اسی ایک حدیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جماعت کا چھوڑنا اللہ اور رسول کو کس قدر ناپسند ہے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ: "جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب تنہا پڑھنے سے ۲۷/ گنازیادہ ہوتا ہے"۔ (بخاری، باب فضل صلوۃ الجماعۃ حدیث نمبر،:۶۰۹، شاملہ، موقع الإسلام۔ مسلم،حدیث نمبر:۱۰۳۸، شاملہ، موقع الإسلام) پابندی کے ساتھ جماعت سے نمازپڑھنے میں آخرت کے ثواب کے علاوہ اور بھی بڑے بڑے فائدے ہیں،مثلا یہ کہ جماعت کی پابندی سے آدمی میں وقت کی پابندی کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،دن رات میں پانچ دفعہ محلہ کے سب مسلمان بھائیوں کا ایک جگہ اجتماع ہوجاتا ہے، جس سے بڑے بڑے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں،جماعت کی پابندی سےنماز کی پوری پابندی نصیب ہوجاتی ہے اور جو لوگ جماعت کی پابندی نہیں کرتے اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان کی نمازیں کثرت سے قضا ہوتی ہیں اورایک بہت بڑافائدہ یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ نمازپڑھنے والے ہر آدمی کی نماز پوری جماعت کی نمازکاجزوبن جاتی ہے، جس میں اللہ کے ایسے نیک اور صالح بندے بھی ہوتے ہیں جن کی نمازیں بڑی اچھی خشوع وخضوع والی ہوتی ہیں اور اللہ تعالی ان کو قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالی کی شان کریمی سے یہی امید ہے کہ جب وہ جماعت کے کچھ لوگوں کی نمازیں قبول فرمائے گا تو ان ہی کے ساتھ نمازپڑھنے والے دوسرے لوگوں کی بھی قبول فرمائے گا؛اگرچہ ان کی نمازیں اس درجہ کی نہ ہوں؛ پس ہم میں سے ہر شخص کو سوچنا چاہئے کہ بالاکسی سخت مجبوری کے جماعت کھودینا کتنے بڑے ثواب سے اور کتنی برکتوں سے اپنے کومحروم کردینا ہے۔ خشوع وخضوع کی اہمیت خشووخضوع کے ساتھ نمازپڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حاضرناظر سمجھتے ہوئے نمازاس طرح پڑھی جائےکہ دل اس کی محبت سے بھراہواہو اور اس کے خوف سے اور اس کی بڑائی وعظمت کے خیال سے سہماہواہو،جیسے کوئی مجرم کسی بڑے سے بڑے حاکم وبادشاہ کے سامنے کھڑاہوتاہے،کھڑاہوتوخیال کرے کہ میں اپنے اللہ کے سامنے حاضرہوں اور اس کی تعظیم میں کھڑاہوں رکوع کرے توخیال کرے کہ میں اسی کے آگے جھک رہاہوں؛اسی طرح جب سجدہ کرے تو خیال کرے کہ میں اس کے حضور میں سجدہ کررہاہوں اور اس کے سامنے اپنی ذلت اور عاجزی ظاہر کررہا ہوں اور بہت اچھا تو یہ ہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں اوررکوع وسجدے میں جو کچھ پڑھے اس کوسمجھ سمجھ کر پڑھے دراصل نماز کا اصلی مزہ جب ہی ہے کہ جو کچھ اس میں پڑھا جائے اس کے معنی مطلب سمجھ کر پڑھا جائے(نماز میں جو کچھ پڑھاجاتا ہے اس کے معنی یادکرلینابڑاآسان ہے)۔ نمازمیں خشوع وخضوع اور اللہ تعالی کی طرف دل کی توجہ دراصل نماز کی روح اور اس کی جان ہے اور اللہ کے جو بندے ایسی نماز پڑھیں انکی نجات اور کامیابی یقینی ہے،قرآن شریف میں ہے: قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ o الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ۔ (المؤمنون:۲،۱) کامیاب اوربامرادہیں وہ ایمان والے جو اپنی نمازیں خشوع کے ساتھ اداکرتے ہیں۔ اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "پانچ نمازیں اللہ تعالی نے فرض کی ہیں جس نے اچھی طرح ان کے لیے وضو کیااور ٹھیک وقت پر ان کو پڑھااوررکوع سجدہ بھی جیسے کرنا چاہئے ویسے ہی کیااورخوب خشوع کے ساتھ ان کواداکیا؛توایسے شخص کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو بخش دےگا اور جس نے ایسا نہ کیا یعنی جس نے اتنی اچھی طرح نماز نہ پڑھی تو اس کے لیے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے،چاہے گا تو اس کو بخشدے گا اور چاہے گا تو سزادے گا"۔ (مسند احمد ،حدیث نمبر۲۱۶۳۵، شاملہ، موقع الإسلام۔سنن ابوداؤد،باب فی المحافظ علی وقت الصلوۃ،حدیث نمبر:۳۶۱، شاملہ، موقع الإسلام) پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ آخرت کےعذاب سے نجات پائیں اور اللہ تعالی ضرورہی ہم کو بخش دیں تو ہمیں چاہئے کہ اس حدیث شریف کے مضمون کے مطابق پانچوں وقت کی نماز ہم اچھے سے اچھے طریقے سے پڑھاکریں۔ نماز پڑھنے کاطریقہ جب نمازکاوقت آئے تو ہمیں چاہئے کہ پہلے اچھی طرح وضوکریں اور یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی کے دربار کی حاضری کے لیے اور اس کی عبادت کے لیے یہ پاکی اور یہ صفائی ضروری ہے اللہ تعالی کا یہ احسان ہے کہ اس نے وضو میں بھی ہمارے لیے بڑی رحمتیں اور برکتیں رکھی ہیں،حدیث شریف میں ہے کہ:وضو میں جسم کے جو حصے اور جو اعضاء دھوئے جاتے ہیں ،ان اعضاء سے ہونے والے گناہ وضوہی کی برکت سے معاف ہوجاتے ہیں اور ان گناہوں کا ناپاک اثرگویاوضو کے پانی سے دھل جاتا ہے۔ (ابن حبان،ذکر حط الخطایا بالوضو،حدیث نمبر:۱۰۴۰،الناشر:مؤسسة الرسالة) وضو کے بعد جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگیں تو چاہئے کہ خوب اچھی طرح دل میں یہ خیال جمائیں کہ ہم گناہ گاراور روسیاہ بندے اپنے اس مالک ومعبود کے سامنے کھڑے ہورہے ہیں جو ہمارے ظاہروباطن اور کھلے چھپے سب حالات جانتا ہے اور قیامت کے روز ہم کو اس کے سامنے پیش ہونا ہے ،پھر جس وقت کی نماز پڑھنی ہو خاص اسی وقت کی نیت کرکے اور قاعدے کے مطابق کانوں تک ہاتھ اٹھاکے دل وزبان سے کہنا چاہئے: اللہ اکبر اللہ بہت بڑاہے۔ پھر ہاتھ باندھ کے اور اللہ تعالی کے سامنے حاضری کا پورادھیان کرکے پڑھنا چاہئے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتعَالیٰ جَدُّکَ وَلاَاِلہ غَیْرُکَ۔ اے میرے اللہ!پاک ہے تیری ذات اور تیرے ہی لیے ہے ہر تعریف اور برکت والا ہے تیرانام ،اونچی ہے تیری شان اور تیرے سواکوئی معبود نہیں۔ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔ میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں شیطان مردود سے۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑی رحمت والا نہایت مہربان ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ o اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُoاِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَoصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ، آمین۔ (سورۃالفاتحۃ) اے اللہ میری یہ دعاقبول فرمالے،سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو سب جہانوں کا پروردگار ہے،بڑی رحمت والا اور نہایت مہربان ہے،جزاکے دن کا مالک ہے،ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں،اے اللہ!ہم کو سیدھے راستےپر چلا،ان اچھے بندوں کے راستہ پر جن پر تونے فضل فرمایا،نہ ان پر تیرا غضب وغصہ ہواور نہ وہ گمراہ ہوئے۔ اس کے بعد کوئی سورۃ یا کسی سورۃ کا کچھ حصہ پڑھیں، ہم یہاں قرآن شریف کی چھوٹی چھوٹی چار سورتیں ترجمہ کے ساتھ درج کرتے ہیں: وَالْعَصْرِ oاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَا صَوْابِالصَّبْرِ۔ (سورۃالعصر) قسم ہے زمانہ کی کہ سارے انسان ٹوٹےمیں ہیں(اوران کاانجام بہت برا ہونے والا ہے ) سواان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اورایک دوسرے کو حق کی اورصبر کی وصیت کی. قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ o اَللہُ الصَّمَدُ o لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ o وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔ (سورۃالاخلاص) کہو! اللہ ایک ہے ،اللہ بے نیاز ہے وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں نہ اس کے اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ o مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ o وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ o وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ o وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔ (سورۃالفلق) کہو میں صبح کی روشنی کے رب کی پناہ لیتاہوں اس کی سب مخلوق کے شر سے اور اندھیرے کے شرسے جب وہ چھپائے اور پھونکنے والیوں کے شرسے گرہوں میں (یعنی ٹونے ٹوٹکے کرنے والی عورتوں کے شرسے)اورحسدکرنے والے کے شرسے جب وہ حسدکرے۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ o مَلِکِ النَّاسِ o اِلٰہِ النَّاسِ o مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔ (سورۃالناس) کہو میں پناہ لیتاہوں سب آدمیوں کے رب کی ،سب کے بادشاہ اورسب کے معبودکی ،براخیال ڈالنے والےپیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے، جو آدمیوں کے دلوں میں برے خیال ڈالتا ہے، خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا آدمیوں میں سے۔ الغرض الحمد شریف کے بعد قرآن شریف کی کوئی سورۃ یا اس کا کچھ حصہ پڑھناچاہئے،ہرنمازمیں اتنی قرأت یعنی اتنا قرآن پڑھنا ضروری ہے،جب یہ قرأت کرچکے تو اللہ کی شان کی بڑائی اورکبریائی کادھیان کرتے ہوئے دل وزبان سے اَللہُ اَکْبَرْ کہتاہوا رکوع میں چلاجائے اور باربار کہے: سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پاک ہے میرا پروردگار جو بڑی شان والاہے۔ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پاک ہے میراپروردگارجوبڑی شان والاہے۔ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پاک ہے میراپروردگار جو بڑی شان والاہے۔ جس وقت شروع میں اللہ کی پاکی اور بڑائی کا یہ کلمہ زبان پر جاری ہو اس وقت دل میں بھی اس کی پاکی اورعظمت کا پورا پورا دھیان ہوناچاہئے،اس کے بعد رکوع سے سراٹھائے اورکہے: سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہْ اللہ نے اس بندہ کی سن لی جس نے اس کی تعریف بیان کی۔ اس کے بعدکہے: رَبَّنَالَکَ الْحَمْدُ اے ہمارے مالک اور پروردگار سب تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ اس کے بعد پھر دل وزبان سے اَللہُ اَکْبَرُ کہے اور اپنے مولا کے سامنے سجدے میں گرجائےاوریکے بعد دیگرے دوسجدے کرے اور ان سجدوں میں اللہ تعالی کا پورادھیان کرکے اور اپنے سامنے اس کو حاضر ناظر جان کے اور اس کو اپنا مخاطب بناکر زبان سے اور زبان کے ساتھ دل وجان سے کہےاور باربار کہے: سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پاک ہے میرا پروردگار جو بہت اونچی شان والا ہے۔ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پاک ہے میراپروردگارجوبہت اونچی شان والاہے۔ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پاک ہے میراپروردگارجوبہت اونچی شان والا ہے۔ سجدے کی حالت میں جس وقت یہ کلمہ زبان پرہواس وقت دل میں اپنی عاجزی اورکمتری کا اوراللہ کی پاکی اور بیحد بلندی کاپوراپورا دھیان ہوناچاہئے،یہ دھیان اوریہ خیال جتنازیادہ اورجتناگہراہوگا،نماز اتنی ہی زیادہ اچھی اور زیادہ قیمتی ہوگی،کیونکہ یہی نمازکی روح ہے۔ یہ صرف ایک رکعت کابیان ہوا،پھرجتنی رکعت نمازپڑھنی ہواسی طرح پڑھنی چاہیے،البتہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ صرف پہلی ہی رکعت میں پڑھاجاتاہے۔ نمازکے آخری میں اوردرمیان میں جب بیٹھتے ہیں تو اَلتَّحِیَّاتْ پڑھتے ہیں جو گویانمازکا خلاصہ اور جوہرہے اوروہ یہ ہے: اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلاَم ُعَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَاوَعَلیٰ عِبَادِاللہِ الصّٰلِحِیْنَ، اَشْھَدُاَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ (بخاری،من سمی قوما اوسلم فی الصلوۃ،حدیث نمبر:۱۱۲۷،شاملہ، موقع الإسلام) ادب وتعظیم کے سب کلمے اللہ ہی کے لیے ہیں اور سب عبادتیں اور صدقے اللہ ہی کے واسطے ہیں،سلام ہو تم پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے سب نیک بندوں پر میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے قابل نہیں سوائےاللہ کے اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد(ﷺ ) اس کے بندے اور پیغمبر ہیں۔ تین رکعت اور چاررکعت والی نمازوں میں جب دوسری رکعت پر بیٹھتے ہیں تو صرف یہ اَلتَّحِیَّاتْ ہی پڑھی جاتی ہے اور آخری رکعت پر جب بیٹھتے ہیں تو اَلتَّحِیَّاتْ کے بعد درودشریف اورایک دعابھی پڑھتے ہیں،ہم ان دونوں کو بھی یہاں درج کرتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ،اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَابَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ (بخاری،باب قول اللہ تعالی واتخذاللہ ،حدیث نمبر:۳۱۱۹،شاملہ، موقع الإسلام) اے اللہ! حضرت محمدﷺ پر اور ان کی آل پر خاص رحمت فرما،جیسے تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر رحمت کی، توبڑی تعریفوں والاہے بزرگی والاہے۔ اے اللہ! حضرت محمدﷺ پر اور ان کی آل پر برکتیں نازل فرما،جیسے تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر برکتیں نازل کیں،توبڑی تعریفوں والا ہے بزرگی والاہے۔ یہ درود شریف دراصل رسول اللہﷺ کے لیے اور آپ کی آل کے لیے (یعنی آپ کے گھر والوں اور آپ سے خاص دینی تعلق رکھنے والوں کے لیے) رحمت اوربرکت کی دعاہے ہم کودین کی نعمت اور نماز کی دولت چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے واسطے سے ملی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس احسان کے شکریئے کہ طورپر ہمارے ذمہ مقرر کیا ہے کہ جب نماز پڑھیں تو اس کے آخر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خاص متعلقین کے لیے رحمت وبرکت کی دعابھی کریں۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہر نمازکے آخر میں اَلتَّحِیَّاتْ پڑھنےکے بعد ہم حضورﷺ کے اس احسان کو یاد کرکے دل سے ان پر یہ درود شریف پڑھیں اور ان کے واسطے رحمت وبرکت کی دعامانگیں،پھر درودشریف کے بعد اپنے لیے یہ دعاکریں اور اس کے بعد سلام پھیردیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمَا کَثِیْرًاوَّاِنَّہٗ لاَیَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ۔ (بخاری،باب الدعا قبل السلام،حدیث نمبر:۷۹۰،شاملہ، موقع الإسلام) اے میرے اللہ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا(اورتیری فرمانبرداری اورعبادت میں مجھ سے بڑاقصورہوا)اورتیرے سواکوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں،پس تو مجھے محض اپنے فضل سے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما،توبخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ اس دعامیں اپنے گناہوں اور قصوروں کا اقرارہے اور اللہ تعالی سے بخشش اوررحم کی التجا ہے ،درحقیقت بندہ کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ نماز جیسی عبادت کرکے بھی اپنے قصور کا اقرارکرے اوراپنے کوگناہگاراورقصوروارسمجھے اور اللہ کی بخشش اوراس کی رحمت ہی کو اپنا سہارا سمجھے اور عبادت کی وجہ سے کوئی غرور اس میں پیدا نہ ہوکیونکہ اللہ تعالی کی عبادت کاحق ہم سے کسی طرح بھی ادا نہیں ہوسکتا ۔ اس سبق میں نماز کے متعلق جو کچھ بیان کرنا تھا وہ سب بیان کیا جاچکا آخر میں ہم پھر کہتے ہیں کہ نماز وہ کیمیااثر عبادت ہے کہ اگراس کو دھیان کے ساتھ اور سمجھ سمجھ کے اور خشوع وخضوع سے اداکیا جائے (جیساکہ اوپر ہم نے بتلایاہے) تو وہ انسان کو اعمال واخلاق میں فرشتہ بناسکتی ہے،بھائیو! نماز کی قدروقیمت کو سمجھو۔ رسول اللہﷺ کو امت کے نماز پر قائم رہنےکی اتنی فکر تھی کہ بالکل آخروقت میں جبکہ حضورﷺ اس دنیا سے رخصت ہورہے تھے اور زبان سے کچھ فرمانا بھی مشکل تھا اس وقت بھی آپ نے اپنی امت کو نماز پر قائم رہنے اور نماز کو قائم رکھنے کی بڑی تاکید کے ساتھ وصیت فرمائی تھی؛ پس جو مسلمان آج نماز نہیں پڑھتے اور نماز کو قائم کرنے اور رواج دینے کی کوئی کوشش نہیں کرتے،وہ خدارا سوچیں کہ قیامت میں وہ کس طرح حضوﷺ کے سامنے جاسکیں گےاور کس طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے آنکھ ملاسکیں گے،جبکہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت کو بھی پامال کررہے ہیں، آو ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الفاظ میں دعاکریں۔ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِo رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ (ابراہیم:۴۱،۴۰) اے پروردگار!آپ مجھ کو اورمیری نسل کو نماز قائم کرنے والا بنادیجئے،اے رب میری دعا کوقبول کرلیجئے اے پروردگار مجھ کو اور میرے والدین کو اور سب ایمان والوں کو قیامت کے دن بخش دیجئے۔