انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۲۰)امام ابوعبداللہ الحاکم (۴۰۵ھ) امام ابوعبداللہ محمدبن عبداللہ الحاکم (صاحب مستدرک حاکم) نیشاپور کے رہنے والے تھے، نیشاپور ان دنوں علم وفضل کا مرکز تھا، امام مسلم (صاحب صحیح) اسی علاقہ کے رہنے والے تھے، حاکم نے نیشاپور میں ایک ہزار کے قریب اساتذہ سے استفادہ کیا، طلب حدیث میں خراسان، ماوراء النہر اور دیگر کئی علاقوں کے سفر کیے اور دوہزار کے قریب شیوخ سے حدیث سنی، آپ کے تلامذہ میں امام بیہقی (۴۵۸ھ)، ابوالقاسم القشری (۴۶۵ھ) اورابوذرہروی جیسے ائمہ فن تھے، صحیح بخاری جن حضرات سے آگے چلی ان میں یہ ابوذرہروی بھی ہیں جوامام حاکم کے شاگرد تھے، ان پرتشیع کا الزام بھی لگا؛ لیکن ان دنوں اس لفظ سے روافض مراد نہ لیئے جاتے تھے، نہ یہ لوگ حضورﷺ کے بعد کسی آسمانی سلسلہ امامت کے قائل تھے، علامہ تاج الدین السبکی نے طبقاتِ شافعیہ میں اس الزام کی پرزور تردید کی ہے، خطیب بغدادی نے انہیں ثقہ کہا ہے؛ مگرانہوں نے بھی ان پرشیعیت کی جرح کی۔ مستدرک حاکم کی کھلی روایات ان کی شیعیت کی تردید کررہی ہیں، روافض کی بناء آسمانی عقیدہ امامت عقیدہ تحریفِ قرآن اور انکارِ خلافت خلفاء ثلثہ پر ہے اور ظاہر ہے کہ حاکم ان عقائد سے بالکل پاک تھے، جوشحص اہل بیت اور ذریتِ طیبہ کی محبت میں ذرا زیادتی کرلے ان دنوں اسے بھی شیعہ کہہ دیتے تھے، حاکم کی بات بھی کچھ اس سے بڑھ کرنہیں، حاکم کی کتاب چار ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، حاکم تصحیح میں متساہل ہیں، علماء اس کا اعتبار نہیں کرتے، اس کے ذیل میں علامہ ذہبی کی تلخیص المستدرک ہے، اس کی تائید کے بغیر مستدرک کی کسی روایت کوعلی شرط الشیخین نہ سمجھنا چاہیے۔ امام حاکم بہت بڑے مصنف تھے، ابن خلکان نے ان کی تالیفات ڈیڑھ ہزار کے قریب بتلائی ہیں، علم تفسیر میں ان کی کتاب "الاکلیل" اپنے فن کی بہت معرکۃ الآراء کتاب ہے۔