انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہ ؓ میں فقہائے حدیث صحابہ کرامؓ میں فقہائے حدیث بڑی تعداد میں تھے؛ لیکن بطورِ نمونہ ہم یہاں دس بزرگوں کا تذکرہ کرتے ہیں، فقہ حدیث کی ریاست اُن پر تمام تھی؛ یہی قمررسالت کا علمی ہالہ اور علمِ رسالت کا عملی اُجالاتھے، حضرت معاذ بن جبلؓ (م۳۲ھ)، حضرت ابی بن کعبؓ (م۱۹ھ)، فقیہ عراق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (م۳۲ھ)، فقیہ شام حضرت ابوالدرداءؓ (م۳۲ھ)، فقیہ عراق حضرت علیؓ (م۴۰ھ)، حضرت زید بن ثابتؓ (م۴۵ھ)، حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ (م۵۲ھ)، فقیہ مکہ، ترجمان القرآن، حضرت عبداللہ بن عباسؓ (م۶۸ھ)، فقیہ مدینہ، حبرالامۃ حضرت عبداللہ بن عمرؓ (م۷۴ھ) اور حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؓ (م۷۸ھ)۔ پیشتر اس کے کہ ہم ان فقہائے حدیث کا علیٰحدہ علیٰحدہ ذکر کریں ناانصافی ہوگی؛ اگر اس شخصیت کریمہ کا ذکر نہ کیا جائے جن کی طرف کل فقہائے صحابہؓ اپنی مشکلات میں رجوع کرتے تھے اور اُنہیں بلاتامل فقہائے صحابہؓ کا علمی مرکز سمجھا جاتاتھا، ہماری مراد یہاں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں جواہلِ بیتِ رسالت میں اس نوعمری میں لائی گئیں کہ معارف رسالت کواس عمر میں پوری طرح حفظ کرنے کی ان سے بجا طور پر اُمید کی جاسکے، اس عمر میں آپؓ نے علمِ رسالت کواپنے پاس اس طرح محفوظ کرلیا کہ حضوراکرمﷺ کے بعد دُنیائے اسلام نصف صدی تک اُن کے علم سے منور ہوتی رہی، ہم نے دوسرے فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی فہرست میں اُن کا ذکر نہیں کیا کہ ماں ہرجہت سے بچو ں میں ممتاز رہے اور یہ مرکزِ علم اپنے تمام اطراف میں برابر کا ضیا بار رہے۔ حافظ شمس الدین الذہبیؒ (م۷۴۸ھ) حفاظِ حدیث کے تذکرہ میں حضرت ام المؤمنینؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: "أم عبد الله حبيبة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أبي بكر الصديق رضي الله عنه: من أكبر فقهاء الصحابة، كان فقهاء أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يرجعون إليها"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶) ترجمہ:اُمِّ عبداللہ حضورِ پاکﷺ کی حبیبہ، رسول اللہﷺ کے خلیفہ کی بیٹی بڑے فقہائے صحابہؓ میں سے تھیں، فقہائے صحابہؓ (اپنے مسائل میں) اُن کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اب ہم فقہائے صحابہؓ کا مندرجہ بالاترتیب سے ذکرکریں گے، یہ ترتیب ان کے مراتب کی نہیں، سنینِ وفات سے لی گئی ہے۔