انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** میاں نذیر حسین صاحب دہلوی (بانی مسلک جنھیں جماعت شیخ الکل کہتی ہے) آپ سنہ۱۲۲۰ھ کوموضع سورج گڑھ ضلع مونگیر (بہار) میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۳۲۰ھ میں سوسال کی عمرپاکر وفات پائی، آپ کے استاد خسر مولانا عبدالخالق صاحب (متوفی:۱۲۶۱ھ) آپ کے سخت خلاف ہوگئے تھے، آپ پہلے رفع یدین نہ کرتے تھے؛ حالانکہ آپ حدیث پڑھ چکے تھے، سرسیداحمد خان سنہ۱۸۵۵ھ کی تحریک سے آپ نے رفع یدین شروع کی اور ایک مسلک کی بنیاد ڈالی، سرسیدایک خط میں لکھتے ہیں: "جناب مولوی سیدنذیر حسین صاحب دہلوی کو میں نے ہی نیم چڑھا وہابی بنایا ہے، وہ نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے؛ مگراس کو "سنت ہدیٰ" جانتے تھے میں نے عرض کیا کہ نہایت افسوس ہے کہ جس بات کوآپ نیک جانتے ہیں لوگوں کے خیال سے اس کونہیں کرتے، میرے پاس سے اُٹھ کرجامع مسجد میں نماز عصر پڑھنے گئے اور اس وقت سے رفع یدین کرنے لگے"۔ (موجِ کوثر:۵۱، مؤلفہ: شیخ محمداکرم صاحب) پھرحکومت نے آپ کوشمس العلماء کا خطاب دے دیا، مولوی فضل حسین صاحب بہاری نے "الحیاۃ بعدالمماۃ" کے نام سے ایک پرایک کتاب لکھی ہے، اس میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز سرکار آپ کے بارے میں کس طرح سوچتی تھی، کسے پتہ نہیں کہ سرسیداحمد خان کے حکومت سے کیا روابط تھے، ان کے کہنے سے رکوع کے وقت رفع یدین کرنا اور حکومت سے سنہ۱۸۹۷ء میں شمس العلماء کا خطاب پانا اس پورے پس منظر کوواضح کررہا ہے، رہی یہ بات کہ حضرت شاہ محمداسحاق نے پھرانہیں سندِحدیث کیوں دی؛ سویہ خود محل بحث ہے، مولوی فضل حسین بہاری لکھتے ہیں: "آپ نے میاں صاحب کوصرف اطراف صحاح کی سند دی تھی، میاں صاحب نے استیعاباً نہ آپ سے صحاح ستہ پڑھیں نہ ان کی سند لی، میاں صاحب خود اس سند کوچپٹراس کہتے تھے"۔ (دیکھئے، الحیات بعدالممات:۶۸) آپ مطلق تقلید کے قائل تھے، فقہ حنفی سے فتویٰ دینا جائز سمجھتے تھے، ائمہ کی شان میں گستاخ نہ تھے اور اس پہلو سے آپ کا احترام ہرحلقے میں موجود تھا، غیرمقلدحلقوں میں گستاخ اور تفرقہ انگیز انداز کے داعی عبدالحق بنارسی اور ابوالحسن محی الدین تھے، یہ دونوں نومسلم تھے، جومسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے داخل کئے گئے تھے، اصلاً یہ ہندو تھے، عبدالحق بنارسی کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے، میاں صاحب کے شاگرد قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی ان سے نقل کرتے ہیں، عبدالحق نے کہا: "عائشہ علی سے لڑی اگرتوبہ نہ کی تومرتد مری"۔ (معاذ اللہ) (کشف الحجاب:۴۲) زبان اور زندقہ دونوں ملاخطہ ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے شیعہ بھی ترک تقلید کی اس تحریک کے پیچھے بڑی سرگرمی سے کام کررہے تھے اور اہلِ سنت نہ جانتے تھے کہ ان کے حلقوں میں آزاد خیالی کی ہوا کہاں سے تیز کی جارہی ہے، ابوالحسن محی الدین جس نے "الظفرالمبین" لکھ کراس آگ کواور بھڑکایا اس کا اصل نام ہری چند تھا، یہ دیوان چند قوم کتھری سکنہ علی پور ضلع گوجرانوالہ کا بیٹا تھا، اس کے اثرات اب تک علی پور چھٹہ میں موجود ہیں، وہاں منکرینِ حدیث کافی تعداد میں پیدا ہوچکے ہیں اور ترکِ تقلید کی یہ روش اب انہیں کفر کی سرحد کے بہت قریب لاچکی ہے، تفسیرالقرآن بالقرآن وہیں لکھی گئی ہے، جس پرمؤلف کا نام نہیں ہے۔