انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حُسن معاشرت مصالحت اور صفائی اگر بہ مقتضائے فطرتِ انسانی صحابیات رضی اللہ عنھن کسی سے ناراض ہوجاتی تھیں توان کواس چندروز ناگواری پرنہایت افسوس ہوتا تھا، ایک معاملہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئیں اور بات چیت نہ کرنے کی قسم کھالی؛ لیکن عفوتقصیر کے بعد جب ان کویہ قسم یاد آتی تھی تواس قدر روتی تھیں کہ ڈوپٹہ ترہوجاتا تھا۔ (بخاری، كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب الْهِجْرَةِ) صلہ رحم حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنے اعزہ واقارب کے ساتھ نہایت سلوک کرتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ وَأَتْقَى لِلَّهِ وَأَصْدَقَ حَدِيثًا وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ ۔ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ، بَاب فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا ،حدیث نمبر:۴۴۷۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے زیادہ دیندار، زیادہ پرہیزگار، زیادہ سچی اور زیادہ صلہ رحمی کرنے والی عورت نہیں دیکھی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ایک جائداد وراثتہ پائی تھی اور ان کوایک لاکھ کی رقم حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دی تھی؛ لیکن انہوں نے اس مال وجائداد کوحضرت قاسم بن محمد اور حضرت ابن ابی عتیق پرجوان کے قرابت دار تھے، ہبہ کردیا۔ (بخاری، كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا،بَاب هِبَةِ الْوَاحِدِ لِلْجَمَاعَةِ) صحابیات کی صلہ رحمی صرف مسلمان اعزہ کے ساتھ محصوص نہ تھی؛ بلکہ وہ کافرقرابت داروں کی قرابت کا بھی لحاظ رکھتی تھیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ہجرت کرکے مدینہ آئیں توان کی والدہ جوکافرہ تھیں ان کے پاس آئیں اور مالی مدد مانگی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں (مسلم، كِتَاب الزَّكَاةِ، بَاب فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الْأَقْرَبِينَ وَالزَّوْجِ وَالْأَوْلَادِ وَالْوَالِدَيْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِينَ) چنانچہ انہوں نے ان کومدد دی، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک یہودی قرابت دار کے لیے ایک جائداد کی وصیت کی تھی۔ (مسند دارمی، کتاب الوصایا، باب الوصیۃ لاہل الذمہ) ہدیہ دینا حدیث شریف میں آیا ہے کہ ہدیہ ازدیادِ محبت کا ذریعہ ہے اس لیے صحابیات ایک دوسرے کے پاس عموماً ہدیہ بھیجا کرتی تھیں، حضرت نسیبہ انصاریہ رضی اللہ عنہا اس قدر مفلس تھیں کہ ان پرصدقہ کا مال حلال تھا؛ تاہم اس حالت میں بھی وہ ازواجِ مطہرات کی خدمت میں ہدیہ بھجتی تھیں، ایک بار ان کے پاس صدقہ کی بکری آئی توانہوں نے اس کا گوشت حضرت عائشہ رضی للہ عنہا کے پاس ہدیۃً بھیجا (بخاری،كِتَاب الزَّكَاةِ،بَابُ قَدْرُ كَمْ يُعْطَى مِنْ الزَّكَاةِ وَالصَّدَقَةِ وَمَنْ أَعْطَى شَاةً) حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی جوصدقہ میں آتا تھا وہ ازواجِ مطہرات کوہدیۃً دے دیا کرتی تھیں۔ (مسلم،كِتَاب الزَّكَاةِ، بَاب إِبَاحَةِ الْهَدِيَّةِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ وَإِنْ كَانَ الْمُهْدِي مَلَكَهَا بِطَرِيقِ الصَّدَقَةِ) خادموں کے ساتھ سلوک صحابیات رضی اللہ عنھن خادموں کے ساتھ جیسا سلوک کرتی تھیں، اس کا اندازہ صرف اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ ایک بار رات کوعبدالملک اٹھا اور اپنے خادم کوآواز دی، اس نے آنے میں دیرکردی تواس نے اس پرلعنت بھیجی، حضرت اُم الدرداء رضی اللہ عنہ اس کے محل میں تھیں، صبح ہوئی توکہا کہ تم نے رات اپنے خادم پرلعنت بھیجی؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لعنت بھیجنے والے قیامت کے دن شفعاء یاشہدا نہ ہونگے۔ (مسلم،كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ،بَاب النَّهْيِ عَنْ لَعْنِ الدَّوَابِّ وَغَيْرِهَا) باہمی اعانت صحابیات رضی اللہ عنھن مصیبت میں دوسروں کی اعانت فرماتی تھیں اور ہمسایہ صحابیات اپنی پڑوسنوں کوہرقسم کی مدد دیتی تھیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کوروٹی پکانا نہیں آتی تھی؛ لیکن ان کی پڑوسنیں ان کی روٹی پکایا کرتی تھیں۔ (مسلم، كِتَاب الْآدَابِ،بَاب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) اگرعورتوں کواپنے شوہروں سے شکایت پیدا ہوتی تووہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا درد دکھ کہتی تھیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہایت پرزور طریقہ سے ان کی سفارش کرتی تھیں، ایک بار ان کی خدمت میں ایک عورت سبزڈوپٹہ اوڑھ کرآئی اور جسم کھول کردکھایا کہ شوہر نے اس قدر مارا ہے کہ بدن پرنیل پڑگئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمان عورتیں جومصیبت برداشت کررہی ہیں ہم نے ایسی مصیبت نہیں دیکھی، دیکھئے اس کا چمڑا اس کے ڈوپٹے سے زیادہ سبز ہوگیا ہے، بخاری کی اس روایت کے آخر میں عموماً عورتوں کی نسبت یہ الفاظ ہیں: وَالنِّسَاءُ يَنْصُرُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا۔ (بخاری، كِتَاب اللِّبَاسِ،بَاب ثِيَابِ الْخُضْرِ،حدیث نمبر:۵۳۷۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: عورتوں کی یہ فطر ت ہے کہ ایک دوسرے کی اعانت کرتی ہیں۔ ایک شخص کی بی بی بیمار تھیں وہ حضرت اُم الدردا رضی اللہ عنہا کے پاس آئے؛ انہوں نے حال پوچھا توانہوں نے کہا کہ بی بی بیمار ہے اب انہوں نے ان کوبٹھاکرکھانا کھلایا اور جب تک ان کی بی بی بیمار رہیں حال پوچھتی اور کھانا کھلاتی رہیں۔ (ادب المفرد، باب عیادۃ الصبیان) عیادت صحابیات رضی اللہ عنھن ہرممکن طریقہ سے مریضوں کی عیادت کرتی تھیں، ایک بار اہلِ صفہ میں سے ایک صحابی بیمار تھے، حضرت اُم الدرداء رضی اللہ عنہا اونٹ پرسوار ہوکر آئیں اور ان کی عیادت کی۔ (اداب المفرد، باب عیادۃ النساء الرجل المریض) تیمارداری صحابیات نہایت دلسوزی سے مریضوں کی تیمارداری کرتی تھیں حضرت عبداللہ بن مظعون رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے توحضرت ام الحسلا رضی اللہ عنہا اور ان کے تمام خاندان نے ان کی تیمارداری کی ان کا انتقال ہوگیا توکفن پہنانے کے بعد حضرت اُم الحسلا رضی اللہ عنہا نے محبت کے لہجے میں کہا: تم پرخدا کی رحمت ہو، میں شہادت دیتی ہوں کہ خدا نے تمہاری عزت کی۔ (بخاری، كِتَاب الشَّهَادَاتِ،بَاب الْقُرْعَةِ فِي الْمُشْكِلَاتِ) حضرت زینب رضی اللہ عنہا مرض الموت میں بیمار ہوئیں توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہرات سے پوچھوایا کہ کون ان کی تیمارداری کریگا؟ تمام بی بیوں نے کہا: ہم، اُن کا انتقال ہوا توپھر دریافت کیا کہ کون ان کوغسل وکفن دے گا؟ تمام بی بیوں نے کہا: ہم۔ (طبقات ابن سعد، تذکرۂ حضرت زینب رضی اللہ عنہا) تعزیت صحابیات رضی اللہ عنھن تعزیت کواپنا فرض خیال کرتی تھیں ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کودفن کرکے آرہے تھے، راہ میں دیکھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جارہی ہیں، پوچھا گھر سے کیوں نکلیں؟ بولیں اس گھر میں تعزیت کے لیے گئی تھی۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب فِي التَّعْزِيَةِ) عزاداری عرب جاہلیت میں عزاداری کا طریقہ یہ تھا کہ عورتیں برادری میں جاکر باہم مردوں پرنوحہ کرتی تھیں؛ لیکن اسلام نے جاہلیت کی اس رسم کومٹادیا؛ چنانچہ عورتیں اسلام لاتی تھیں توان سے اس رسم کے چھوڑنے کا معاہدہ لیا جاتا تھا، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے یہ معاہدہ لینا چاہا توبولیں، فلاں خاندان نے زمانۂ جاہلیت میں ہمارے مردے پرنوحہ کیا ہے مجھے اس کا معاوضہ ادا کرنا ضروری ہے؛ چنانچہ آپ نے ان کواجازت دے دی۔ (مسلم،كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب التَّشْدِيدِ فِي النِّيَاحَةِ) محبتِ اولاد صحابیات بچوں سے نہایت محبت رکھتی تھیں، ایک بار ایک صحابی نے بی بی کوطلاق دی اور بچے کواس سے لینا چاہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ میرا پیٹ اس کا ظرف، میری چھاتی اس کا مشکیزہ اور میری گود اس کا گہوارہ تھا اور اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اس کومجھ سے چھیننا چاہتا ہے آپ نے فرمایا جب تک تم دوسرا نکاح نہ کرلو تم بچے کی سب سے زیادہ مستحق ہو (ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَنْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ) اگرچہ یہ وصف عموماً تمام صحابیات میں پایا جاتا تھا؛ لیکن اس باب میں قریش کی عورتیں خاص طور پرممتاز تھیں؛ چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس خصوصیت کی مدح فرمائی: خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ صَالِحُ نِسَاءِ قُرَيْشٍ أَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ۔ (بخاری،كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب إِلَى مَنْ يَنْكِحُ وَأَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ وَمَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يَتَخَيَّرَ،حدیث نمبر:۴۶۹۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: قریش کی عورتیں کس قدر اچھی ہیں بچوں سے محبت رکھتی ہیں اور شوہروں کے مال واسباب کی نگرانی کرتی ہیں۔ بھائی بہن سے محبت صحابیات رضی اللہ عنھن اپنے بھائی اور بہنوں سے نہایت محبت رکھتی تھیں، حضرت عبداللہ ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا مقام حبش میں انتقال ہوا اور لاش مکہ میں دفن ہوئی توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرطِ محبت سے ان کی قبرتک آئیں اور ایک مشہور مرثیہ کے چند اشعار پڑھے ؎ وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً مِنْ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا ترجمہ:اور ہم دونوں ایک مدت تک جذیمہ کے دونوں ہم نشینوں کی طرح ساتھ رہے؛ یہاں تک کہ لوگوں نے کہا: ان میں کبھی جدائی نہ ہوگی۔ فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا ترجمہ:لیکن جب جدائی ہوئی توایسی کہ گویا ہم نے اور مالک نے باوجود طویل ملاقات کے ایک رات بھی ساتھ بسرنہیں کی تھی۔ (ترمذی، كِتَاب الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ،حدیث نمبر:۹۷۵، شاملہ، موقع الإسلام) حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں شریک ہوئے توان کی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آئیں کہ مقتل میں ان کا پتہ لگائیں لیکن لوگوں نے ان کی پریشانی کے خیال سے نہیں بتایا؛ بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں توآپ کوخوف پیدا ہوا کہ اس واقعہ سے کہیں ان کی عقل نہ جاتی رہے اس لیے ان کے سینہ پرہاتھ رکھا توانہوں نے إِنَّالِلّٰہِ پڑھا اور رونے لگیں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرۂ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ) حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا توتمام عورتیں رونے لگیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کی قبر کے پاس روتی تھیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھوں سے اُن کے آنسو پونچھتے تھے۔ (مسندابوداؤد طیالسی:۳۵۱) حمایت والدین صحابیات رضی اللہ عنھن والدین کی حمایت سے سخت موقعوں پربھی اغماض نہیں کرتی تھیں ایک بار کفار نے حالتِ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں اونٹ کی اوجھ ڈالدی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دوڑ کے آئیں اس کوآپ کی گردن سے نکال کرپھینک دیا اور کفار کوبرابھلا کہا۔ (بخاری، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب الْمَرْأَةِ تَطْرَحُ عَنْ الْمُصَلِّي شَيْئًا مِنْ الْأَذَى) یتیموں کی پرورش یتیموں کی پرورش بڑی نیکی کا کام ہے، حدیث شریف میں آیا ہے: أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب فِي مَنْ ضَمَّ الْيَتِيمَ،حدیث نمبر:۴۴۸۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والے جنت میں اس قدر قریب ہونگے جس قدر یہ دونوں انگلیاں قریب قریب ہیں۔ اس لیے صحابیات رضی اللہ عنھن یتیموں کی پرورش اپنا فرض سمجھتی تھیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا متعدد یتیموں کی پرورش کرتی تھیں ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور پوچھا کہ میں انپے شوہر اور ان یتیموں پرصدقہ کروں توجائز ہے؟ دوسری صحابیہ بھی اس غرض سے درِدولت پرکھڑی تھیں، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اطلاع کی توآپ نے فرمایا کہ اس کا دوہرا ثواب ملے گا، ایک قرابت کا اور دوسرا صدقہ کا۔ (بخاری،كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالْأَيْتَامِ فِي الْحَجْرِ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے بچے یتیم ہوگئے توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی پرورش فرماتی تھیں۔ (مؤطا امام مالک، کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ فیہ من الحلی والتبر والعنبر) یتیموں کے مال کی نگہداشت خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں یتیموں کے مال کی حفاظت ونگہداشت کے متعلق ایک نہایت مفصل آیت نازل فرمائی ہے: وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَابَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَاتَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا۔ (النساء:۶) ترجمہ:اور یتیموں کوجانچتے رہو؛ یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کوپہنچ جائیں؛ تواگرتم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے توان کے مال انہی کے حوالے کردو اور یہ مال فضول خرچی کرکے اور یہ سوچ کرجلدی جلدی نہ کھابیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے) جوخود مال دار ہووہ تواپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں اگروہ خود محتاج ہوتومعروف طریقِ کار کوملحوظ رکھتے ہوئے کھالے (یتیموں کے سرپرست کواپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے بہت سی خدمات انجام دینی پڑتی ہیں، عام حالات میں جب سرپرست خود کھاتا پیتا شخص ہو، اس کے لیے ان خدمات کا کوئی معاوضہ لینا درست نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتا ہے؛ لیکن اگروہ خود تنگدست ہے اور یتیم کی ملکیت میں اچھا خاصا مال ہے تواس کے لیے جائز ہےکہ وہ اپنا ضروری خرچ بھی یتیم کے مال سے لے لے؛ مگرپوری احتیاط سے اتنا ہی لے جتنا عرف اور رواج کے مطابق ضروری ہے، اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے) پھرجب تم ان کے مال انہیں دوتوان پرگواہ بنالو اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ اس بناپر صحابیات رضی اللہ عنھن نہ صرف ان کے مال کی حفاظت کرتی تھیں؛ بلکہ اس کوترقی دیتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یتیموں کے مال لوگوں کودیتی تھیں کہ تجارت کے ذریعہ سے اس کوترقی دیں۔ (موطا امام مالک، کتاب الزکوٰۃ، باب اموال الیتامی ولتجارۃ فیہا) بچوں کی پرورش صحابیات رضی اللہ عنھن بچوں کی پرورش میں اپنے عیش وآرام کوبھی فراموش کردیتی تھیں، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں توحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بچے تھے اس لیے انہوں نے یہ عزم بالجزم کرلیا کہ جب تک ان کی نشوونما کامل طور پرنہ ہوجائے گی وہ دوسرا نکاح نہ کریں گی؛ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ خود سپاس گذارانہ لہجے میں اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری ماں کوجزائے خیردے کہ اس نے میری ولایت کا حق ادا کیا۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابیات کودنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب تھے؛ لیکن بایں ہمہ جب آپ نے حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام دیا توانہوں نے معذرت کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے میری آنکھوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں؛ لیکن شوہر کا حق بہت زیادہ ہے، اس لیے مجھے خوف ہے؛ اگرمیں شوہر کا حق ادا کروں گی توبچوں کی طرف سے بے پروائی کرنا پڑے گی اور اگربچوں کی پرورش میں مصروف رہوں گی توشوہر کا (یعنی آپ سے اگرنکاح کرلوں گی تو)حق ادا نہ کرسکوں گی۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنہا) شوہر کے مال واسباب کی حفاظت زن وشوہر کے معاشرتی تعلقات پراس کا نہایت عمدہ اثر پڑتا ہے کہ بیوی نہایت دیانت کے ساتھ شوہر کے مال واسباب اور گھربار کی حفاظت کرے اور صحابیات میں یہ دیانت پائی جاتی تھی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی شادی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی وہ گھر میں تھیں کہ ایک غریب سوداگر آیا اور کہا کہ اپنے سایۂ دیوار کے نیچے مجھ کوسودا بیچنے کی اجازت دیجئے وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہوئیں فیاضی اور کشادہ دلی سے اجازت دینا چاہتی تھی؛ لیکن شوہر کی اجازت کے بغیر اجازت نہیں دے سکتی تھیں، بولیں اگرمیں اجازت دیدوں اور زبیر رضی اللہ عنہ انکار کردیں تومشکل پڑے گی،زبیر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آؤ اورمجھ سے سوال کرو، وہ اسی حالت میں آیا اور کہا: یا اُم عبداللہ! میں محتاج آدمی ہوں آپ کی دیوار کے سایہ میں کچھ سودا بیچنا چاہتا ہوں، بولیں تم کومدینہ میں میرا ہی گھرملتا تھا، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارا کیا بگڑتا ہے، جوایک محتاج کوبیع وشراء سے روکتی ہو؟ وہ توچاہتی ہی تھیں، اجازت دیدی (مسلم، كِتَاب السَّلَامِ،بَاب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَاأَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) وہ نہایت فیاض تھیں اس لیے صدقہ وخیرات کرنا بہت پسند کرتی تھیں؛ لیکن شوہر کے مال کے سوا ان کے پاس اور کچھ نہ تھا اور شوہر کے مال میں بلااجازت تصرف نہیں کرسکتی تھیں، مجبوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ میں زبیر رضی اللہ عنہ کی آمدنی میں سے کچھ صدقہ کروں توکیا کوئی گناہ کی بات ہے؟ ارشاد ہوا جوکچھ ہوسکے دو۔ (مسلم،كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب الْحَثِّ عَلَى الصَّدَقَةِ وَلَوْبِالْقَلِيلِ وَلَاتَمْتَنِعُ مِنْ الْقَلِيلِ لِاحْتِقَارِهِ) ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت لی توان میں سے ایک خاتون اُٹھیں اور کہا کہ ہم اپنے باپ بیٹے اور شوہر کے محتاج ہیں ان کے مال میں سے ہمارے لیے کس قدر لینا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا اس قدر کہ کھاپی لواور ہدیہ دو۔ (ابوداؤد،كِتَاب الزَّكَاةِ، بَاب الْمَرْأَةِ تَتَصَدَّقُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا) اگرچہ یہ وصف عموماً تمام صحابیات رضی اللہ عنھن میں پایا جاتا تھا؛ لیکن اس باب میں قریش کی عورتیں خاص طور پرممتاز تھیں؛ چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے ان کی اس خصوصیت کوان الفاظ میں نمایاں کیا: خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ صَالِحُ نِسَاءِ قُرَيْشٍ أَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ۔ (بخاری،كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب إِلَى مَنْ يَنْكِحُ وَأَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ وَمَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يَتَخَيَّرَ،حدیث نمبر:۴۶۹۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: قریش کی عورتیں کس قدر اچھی ہیں بچوں سے محبت رکھتی ہیں اور شوہروں کے مال واسباب کی نگرانی کرتی ہیں۔ شوہر کی رضا جوئی صحابیات رضی اللہ عنھن اپنے شوہروں کی رضامندی اور خوشنودی کا نہایت خیال رکھتی تھیں، حضرت حولا رضی اللہ عنہا عطر فروش تھیں ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئیں اور کہا کہ میں ہررات کوخوشبولگاتی ہوں، بناؤ سنگار کرکے دلہن بنجاتی ہوں اور خالصۃ لوجہ اللہ اپنے شوہر کے پاس جاکر سورہتی ہوں؛ لیکن اس پربھی وہ متوجہ نہیں ہوتے اور منہ پھیرلیتے ہیں؛ پھران کومتوجہ کرتی ہوں اور وہ اعراض کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے توآپ سے بھی اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی رہو۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت حولا رضی اللہ عنہا) ایک روز آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں چاندی کے چھلے دیکھے توفرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا یہ کیا ہے؟ بولیں میں نے اس کواس لیے بنایا ہے کہ آپ کے لیے بناؤ سنگارکروں۔ (ابوداؤد، كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب الْكَنْزِ مَاهُوَوَزَكَاةِ الْحُلِيِّ) ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا آپ کی حدمت میں حاضر ہوئیں ان کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوپہننے سے منع فرمایا، بولیں؛ اگرعورت شوہر کے لیے بناؤ سنگار نہ کرے گی تو اس کی نگاہ سے گرجائے گی۔ (سنن النسائی، كِتَاب الزِّينَةِ) شوہر کی محبت صحابیات رضی اللہ عنھن اپنے شوہروں سے نہایت محبت رکھتی تھیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ابوالعاص سے ہوئی تھی وہ حالتِ کفر میں تھے کہ بدر کا معرکہ پیش آگیا اور وہ گرفتار ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اسیرانِ جنگ کوفدیہ لے کررہا کرنا چاہا، توحضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنا ایک یادگار ہار، جس کوحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کورخصتی کے وقت دیا تھا، ابوالعاص کے فدیہ میں بھیج دیا۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْجِهَادِ،بَاب فِي فِدَاءِ الْأَسِيرِ بِالْمَالِ) حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کواپنے شوہر کی شہادت کا حال معلوم ہوا توفرطِ محبت سے چیخ اُٹھیں۔ (سنن ابن ماجہ، كِتَاب مَاجَاءَ فِي الْجَنَائِزِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواہل وعیال کے ساتھ بہت زیادہ شغف نہ تھا؛ تاہم ان کی بی بی حضرت عاتکہ روزے کے دنوں میں بھی فرطِ محبت سے ان کے سرکابوسہ لیتی تھیں۔ (موطا، کتاب الصیام، باب ماجاء فی الرخصۃ فی القبلۃ للصیام) حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہ کواپنے پہلے شوہر حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے نہایت محبت تھی؛ چنانچہ جب وہ طائف میں شہید ہوئے توحضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا نے ایک پردرد مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے ؎ فَآلَيْت لَا تَنْفَكُّ عَيْنِي حَزِينَةً عَلَيْك وَلَا يَنْفَكُّ جِلْدِي أَغْبَرَا میں نے قسم کھائی ہے کہ تیرے غم میں میری آنکھ ہمیشہ پرنم اور جسم ہمیشہ غبار آلود رہے گا اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی، دعوتِ ولیمہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی شریک تھے؛ انہوں نے عاتکہ کویہ شعر یاددلایا توروپڑیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی توان کا بھی نہایت پردرد مرثیہ لکھا اس کے بعد اُن سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے شادی کی اور وہ بھی شہید ہوئے توعاتکہ رضی اللہ عنہا نے ان کا بھی مرثیہ لکھا۔ (اسدالغابہ، تذکرۂ عاتکہ رضی اللہ عنہا بنت زید) شوہر کی خدمت صحابیات رضی اللہ عنھن شوہر کی خدمت نہایت دل سوزی کے ساتھ کرتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمال طہارت کی وجہ سے مسواک کوبار بار دھلوالیا کرتے تھے اور اس پاک خدمت کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ادا فرماتی تھیں (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب غَسْلِ السِّوَاكِ) ایک بار آپ کمبل اوڑھ کرمسجد میں آئے،ایک صحابی نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پردھبہ نظر آتا ہے، آپ نے اس کوغلام کے ہاتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کٹورے میں پانی منگایا؛ خوداپنے ہاتھ سے دھویا اور خشک کیا اور اس کے بعد آپ کے پاس بھیج دیا (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب الْإِعَادَةِ مِنْ النَّجَاسَةِ تَكُونُ فِي الثَّوْبِ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے یااحرام کھولتے تھے توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جسم مبارک میں خوشبو لگاتی تھیں۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْمَنَاسِكِ، بَاب الطِّيبِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ) جب آپ خانہ کعبہ کی ہدی بھیجتے تھے تووہ ان کے گلے کا قلادہ بٹتی تھیں۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْمَنَاسِكِ،بَاب مَنْ بَعَثَ بِهَدْيِهِ وَأَقَامَ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جب تمام دنیا کی خدمت واعانت سے محروم ہوجاتے تھے تواس بے کسی کی حالت میں صرف ان کی بی بیاں ان کا ساتھ دیتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تخلف غزوۂ تبوک کی بناپرحضرت ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوئے اور اخیر میں تمام مسلمانوں کی طرح ان کی بی بی کوبھی تعلقات کے منقطع کرلینے کا حکم دیا تووہ حاضرِ خدمت ہوئیں اور کہا کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں، ان کے پاس نوکر چاکر نہیں اگرمیں ان کی خدمت کروں توآپ ناپسند فرمائیں گے؟ ارشاد ہوا، نہیں۔ (بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهِيَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ) عورت کتنی ہی اطاعت گذار اور فرماں بردار ہو؛ لیکن اگرا س سے تعلقات منقطع کرلیے جائیں تووہ شوہر کی طرف مائل نہیں ہوسکتی؛ لیکن صحابیات نے اس فطری اصول کوبھی توڑ دیا تھا، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنی بی بی سے ظہار کیا یعنی ایک مدتِ معینہ کے لیے اُن کواپنے اوپر حرام کرلیا؛ تاہم اس حالت میں بھی وہ ان کی خدمت گذاری میں مصروف رہتی تھیں۔