انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمیر بنؓ سعد نام ونسب عمیر نام، نسیج وحدہ لقب، سلسلۂ نسب یہ ہے، عمیر بن سعد بن عبید بن نعمان بن قیس بن عمرو بن عوف باپ نے جن کا نام سعد بن عبید تھا، حضرت عمیرؓ کی صغر سنی میں انتقال کیا ،ماں نے جلاس بن سوید سے نکاح کرلیا، عمیرؓ بھی اپنی ماں کے ساتھ جلاس کی زیر تربیت رہے،جلاس نے نہایت ناز و نعمت کے ساتھ حقیقی اولاد کی طرح پرورش کی ۔ سعد بن عبید کے نام سے مورخین نے دھوگا کھایا، حضرت ابوزید ؓ جو انصار کے ان چار قاریوں میں جن کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے، ان کا نام نامی بھی سعد بن عبید تھا، اس بناء پر لوگوں نے حضر ت عمیرؓ کو ان کا فرزند تصور کرلیا، لیکن یہ سخت غلطی ہے زمانہ اور سنین وفات کے فرق کے علاوہ صاف بات یہ ہے کہ عمیرؓ کے والد قبیلہ اوس سے تھے اور حضرت ابو زیدؓ جیسا کہ حضرت انسؓ نے تصریح کی ہے، ان کے رشتہ کے چچا ہوتے تھے،ظاہر ہے کہ حضرت انسؓ قبیلہ خزرج سے تھے، اس لئے حضرت ابو زیدؓ قبیلہ اوس سے کیونکر ہوسکتے ہیں۔ اسلام جلاس مسلمان ہوگئے تھے، یہ بھی غالباً اسی زمانہ میں اسلام لائے۔ غزوات اگرچہ کم سن تھے ،تاہم جلاس کے ہمراہ جہاد میں جاتے تھے، غزوہ تبوک کی ہمراہی کا واضح طور پر ذکر آیا ہے،لیکن باایں ہمہ وہ کسی غزوہ میں شرکت کا شرف نہ حاصل کرسکے اور درحقیقت وہ کم عمری کی وجہ سے اس قابل بھی نہ تھے۔ فتوحات شام میں البتہ حصہ لیا اورحضرت عمرؓ نے ان کو شام کے ایک لشکر کا افسر بنایا کچھ دنوں کے بعد حمص کے حاکم مقرر ہوئے اورحضرت عمرؓ کی وفات تک اسی منصب پر سرفراز رہے۔ وفات حمص میں انہوں نے مستقل اقامت اختیار کرلی تھی؛چنانچہ ابن سعد کے خیال کے مطابق حضرت امیر معاویہؓ کے عہد حکومت میں یہیں فوت بھی ہوئے۔ اولاد حسب ذیل اولاد چھوڑی،عبدالرحمن ،محمد فضل وکمال صحابہؓ میں فضل و کمال کے لحاظ سے ممتاز سمجھے جاتے تھے،حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے "کاش! مجھ کو عمیرؓ جیسے چند آدمی مل جاتے تو امور خلافت میں بڑی مدد ملتی" حضرت عمرؓ ان کی قابلیت پر تعجب کرتے تھے، نسیج وحدہ(یکتا ویگانہ) کا لقب اسی حیرت انگیز لیاقت کی وجہ سے دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے تھے کہ عمیرؓ سے بہتر شام میں ایک شخص بھی نہ تھا۔ سلسلۂ روایت میں ان سے چند حدیثیں مروی ہیں جن کے راوی حسب ذیل حضرات ہیں، ابو طلحہ خولانی ،راشد بن سعد، حبیب بن عبید، ابو ادریس خولانی،زبیر بن سالم وغیرہ۔ اخلاق اخلاقی حیثیت سے حضرت عمیرؓ نہایت بلند پایہ تھے،زہد تقویٰ میں ان کا مثل بمشکل مل سکتا تھا، جوش ایمان اور حب رسول کی دولت صغرسنی سے ملی تھی،چنانچہ غزوہ تبوک میں جبکہ نہایت خورد سال تھے اورجہاد میں محض تماشائی کی حیثیت رکھتے تھے ،جلاس نے ایک موقع پر کہا کہ "اگر محمد ﷺ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بد تر ہیں" تو عمیرؓ نے بلا کسی خیال کے فوار اًجواب دیا کہ وہ ضرور سچے ہیں اور تم یقیناً گدھوں سے بد تر ہو" جلا س کو سخت ناگوار گذرا اورانہوں نے عہد کرلیا کہ اب عمیرؓ کی کفالت سے قطع تعلق کرلیں گے۔ حضرت عمیرؓ نے جلاس کو جواب دےکر آنحضرتﷺ کو بھی خبر کردی کہ اس کے چھپانے میں حبط اعمال اور قرآن نازل ہونے کا خوف تھا، آنحضرتﷺ نے عمیر اورجلاس کو بلا کر واقعہ پوچھا،جلاس نے قطعی انکار کیا، لیکن وحی والہام کی دسترس سے کب کوئی چیز باہر رہ سکتی تھی؛ چنانچہ حضرت عمیرؓ کی اس سے تائید ہوئی ،آنحضرتﷺ نے سر اٹھا کر یہ آیت پڑھی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔ (التوبہ:۷۴) یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بات نہیں کہی ؛حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہی ہے اور اپنے اسلام لانے کے بعد انہوں نے کفر اختیار کیا ہے، انہوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور انہوں نہ صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے مال دار بنایا ہے، اب اگر یہ توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگااور اگر یہ منہ موڑیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی یارہوگا نہ مددگار۔ جلاس نے بے ساختہ کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اس کے بعد جلاس حقیقی طور پر مسلمان ہوگئے اور پھر کوئی ناگوار طرز عمل اختیار نہیں کیا، توبہ قبول ہونے کی خوشی میں حضرت عمیرؓ کی کفالت نہ کرنے کی جو قسم کھائی تھی توڑدی اورپھر ہمیشہ ان کی کفالت کرتے رہے،آیت اترنے پر آنحضرتﷺ نے عمیرؓ کا کان پکڑ اور فرمایا لڑکے !تیرے کان نے ٹھیک سنا تھا۔