انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اہل جہنم کا خدا تعالی سے مکالمہ اہل جہنم کی فریاد محاد بن کعب قرظی فرماتے ہیں اہل دوزخ پانچ دعائیں کریں گے ان میں چار کا جواب دیا جائے گااور پانچویں کے جواب سے محروم رہیں گے اور ان سے کوئی کلام نہ کیا جائے گا۔ "رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ" (غافر:۱۱) (ترجمہ)اے ہمارے پروردگار(ہم جو دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کیا کرتے تھے اب ہم کو اپنی غلطی معلوم ہوگئی؛چنانچہ دیکھ لیا کہ) آپ نے ہم کو دو مرتبہ مردہ رکھا(ایک مرتبہ پیدائش سے پہلے کہ ہم بے جان مادہ کی صورت میں تھےاور دوسری مرتبہ اس عالم میں آنے اور زندہ ہونے کے بعد متعارف موت سےمردہ ہوئے)اوردو مرتبہ زندگی دی(ایک دنیا کی زندگی اوردوسری آخرت کی زندگی) سو ہم اپنی خطاؤں کا(جن میں اصل مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا انکار تھا،باقی سب اسی کی فروع تھیں)اقرار کرتےہیں،توکیا(یہاں سے)نکلنے کی کوئی صورت ہے (کہ دنیا میں دوبارہ جاکر ان خطاؤں کا تدارک کرلیں؟ توان کو جواب میں ارشاد ہوگا "ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ کَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا" (مؤمن:۱۲) (ترجمہ)کہ تمہارے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی؛بلکہ ہمیشہ یہیں رہنا ہوگا اور)وجہ اس کی یہ ہے کہ جب صرف اللہ کا نام لیا جاتا تھا(یعنی توحید کا ذکر ہوتا تھا)تو تم انکار کیا کرتے تھے اوراگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے، اس لئے یہ فیصلہ اللہ کا(کیا ہوا) ہے،جو عالی شان(اور)بڑے مرتبہ والا ہے(یعنی چونکہ اللہ تعالی کے علوو کبریاء کے اعتبار سے یہ جرم عظیم تھا اس لئے فیصلہ میں سزا بھی عظیم ہوئی یعنی ہمیشہ کے لئے جہنم) اس کے بعد وہ عرض کریں گے "رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ" (السجدہ:۱۲) (ترجمہ)اے ہمارے پروردگار بس(اب)ہماری آنکھیں اور کان کھل گئے(اور یہ معلوم ہوگیا کہ پیغمبروں نے جو کچھ کہا سب حق تھا)سو ہم کو(دنیا میں)پھر بھیج دیجئے ہم اب کے جاکر خوب)نیک کام کیا کریں گے (اب) ہم کو پورا یقین آگیا۔ تو انہیں جواب دیا جائے گا "وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا" (السجدہ:۱۳)الی آخر الا یتین۔ (ترجمہ)اگر ہم کو(یہ)منظور ہوتا(کہ ضرور ہی یہ راہ پر آئیں)تو ہم ہر اس شخص کو اس (کی نجات) کا راستہ (مقصود تک پہنچا دینے کے درجہ میں ضرور) عطاء فرماتے (جیسا کہ ہدایت بمعنی مطلوب کا راستہ دکھانا ان کو عطاء فرمائی ہے)لیکن میری(تو)یہ(ازلی تقدیری)بات (بہت سی حکمتوں سے)محقق ہوچکی ہے کہ میں جہنم کو جنات وانسان دونوں(میں جو کافر ہوں گے ان) سے ضرور بھروں گا تو(ان سے کہا جائے گا کہ) اب اس کا مزہ چکھو جو ایک دو روز کا نہیں؛بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ)اپنے اعمال(بد)کی بدولت ابدی عذاب کا مزہ چکھو۔ اس کے بعد وہ عرض کریں گے "رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ" (ابراھیم:۴۴) (ترجمہ)اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مدت کے لئے مہلت دے دے کہ تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کی پیروی کرلیں۔ تو جواب میں ارشاد ہوگا۔ "أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ" (ابراھیم:۴۴) (ترجمہ)کیاتم پہلے قسم نہ کھاتے تھے کہ تم نے(دنیا)سے کہیں جانا ہی نہیں ہے اس کے بعد وہ درخواست کریں گے۔ "رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ" (فاطر:۳۷) (ترجمہ)اے ہمارے پروردگار ہم کو(یہاں سے)نکال لیجئے ہم(اب خوب)اچھے اچھے)کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو(پہلے )کیا کرتے تھے۔ جواب میں ارشاد ہوگا: "أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَکَرُ فِيهِ مَنْ تَذَکَرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ" (فاطر:۳۷) (ترجمہ)کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور(صرف عمر ہی دینے پر اکتفاء نہیں کیا؛بلکہ)تمہارے پاس (ہماری طرف سے)ڈرانے والا(یعنی پیغمبر)بھی پہنچا تھا(خواہ بواسطہ یا بلاواسطہ مگر تم نے ایک نہ سنی سو اب اس نہ ماننے کا مزہ چکھو) وہ پھر درخواست کریں گے "رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ ، رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ" (المؤمنون:۱۰۶،۱۰۷) (ترجمہ)اے ہمارے رب ہماری بد بختی نے ہم کو گھیر لیا تھا اور ہم گمراہ لوگ تھے،اے ہمارے رب ہم کو اس سے نکال دیجئے پھر اگر ہم دوبارہ(ایسا)کریں تو ہم بے شک پورے قصوروار ہیں۔ جواب میں ارشاد ہوگا: "قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُکَلِّمُونِ،إِنَّهُ کَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ،فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّى أَنْسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ " (المؤمنون:۱۰۸،۱۱۰) (ترجمہ)اسی(جہنم)میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو،میرے بندوں میں ایک گروہ(ایمانداروں کا)تھا جو(بیچارے ہم سے) عرض کیا کرتے تھے کہ ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو بخش دیجئے اور ہم پر رحمت فرمائیے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں سو تم(دوزخیوں)نے ان کا مذاق اڑایا(اور)یہاں تک (اس کا مشغلہ کیا) کہ ان کے مشغلہ نے تم کو ہمارے یاد بھی بھلادی اور تم ان سے ہنسی کرتے رہے۔ محمد بن کعبؒ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ(ایسی)گفتگو نہیں کریں گے۔ (خرجہ آدم بن ابی ایاسؒ وابن ابی حاتمؒ) دوزخیوں کی فریادوں سے جواب تک کازمانہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ اہل دوزخ(داروغہ جہنم)مالک (فرشتہ)سے درخواست کریں گے کہ تمہارا رب ہمیں موت دیدے تو(انہیں پکارتے پکارتے)چالیس سال گذر جائیں گے تو وہ انہیں جواب دے گا کہ تم کو(اب)یہیں رہنا ہے،تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال دے اس کے بعد اگر ہم ایسا کریں تو بے شک ہم ظالم ہوں گے،فرمایا (انہیں پکارتے پکارتے)دنیا کی عمر جتنا زمانہ گذر جائے گا،تو اللہ تعالی ان کو جواب میں ارشاد فرمائیں گے، اسی جہنم میں راندے ہوئے پڑے رہو میرے ساتھ بات بھی نہ کرو،فرمایا کہ اس کے بعد ان پر جہنم کو بند کردیا جائے گا اور اس کلمہ کے بعد اہل دوزخ نا امید ہوجائیں گے اور سوائے چیخ وپکار کے کچھ نہ ہوگا۔ دوزخیوں کی فریاد اورفرشتوں کی جواب سے لاپرواہی حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب اہل دوزخ مالک فرشتہ کو پکاریں گے کہ تمہارا رب ہمیں موت دیدے،تو وہ انہیں ایک ہزار سال تک جواب نہ دے گا(اس کے بعد کہے گا کہ تم کو یہیں رہنا ہے۔ (بیہقی) حضرت ابن جریجؒ فرماتے ہیں اہل جہنم دوزخ کے داروغوں کو پکاریں گے کہ تم اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ایک دن کے لئے ہمارے عذاب میں کمی کردیا کرے،تو وہ انہیں جب تک اللہ تعالی چاہیں گے،جواب نہ دیں گے،پھر جب ایک زمانہ بعد جواب دیں گے تو انہیں کہیں گے تو خوددعا مانگو لیکن کافروں کی دعا(آخرت میں)بےفائدہ ہے اس کے بعد وہ مالک فرشتہ کو پکاریں گے کہ تمہارا رب ہمیں موت دیدے تو مالک ان کو جواب دینے میں چالیس سال تک خاموش رہے گا اس کے بعد انہیں جواب دے گا کہ تم کو اسی جہنم میں رہنا ہے، اس کے بعد یہ بد بخت رب تعالی کو پکاریں گے اورکہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پر ہماری بد بختی غالب آگئی تھی،پس اللہ تعالی ان کو جواب دینے میں دنیا کی عمر کے برابر خاموش رہیں گے پھرجواب دیں گے اسی میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات تک نہ کرو۔ (تفسیر سنید) اہل دوزخ کو اللہ تعالی کا خطاب (حدیث)ایفع بن عبدالکلامیؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اذادخل اھل الجنۃ الجنۃ واھل النار النار،قال اللہ:یا اھل الجنۃ:کَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ ، قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ" (المومنون:۱۱۲،۱۱۳) قال: نعم ما اتجرتم في يوم أو بعض يوم، رحمتي ورضواني وجنتي، امكثوا فيها خالدين مخلدين. ثم يقول لأهل النار: كم لبثتم في الأرض عدد سنين: قالوا: لبثنا يوم أو بعض يوم، فيقول: بئس ما اتجرتم في يوم أو بعض يوم، سخطي ومعصيتي وناري، امكثوا فيها خالدين مخلدين، فيقولون: ربنا أخرجنا منها فإن عدنا فإنا ظالمون، فيقول: اخسئوا فيها ولا تكلمون، فيكون ذلك آخر عهدهم بكلام ربهم تعال (حلیۃ الاولیاء،باب جبیر بن نفیر:۲/۳۲۲) (ترجمہ)جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالی فرمائیں گے اے جنت والو تم نے زمین پر کتنے سال گذارے؟ وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ (یعنی آخرت میں ان کو دنیا کی زندگی ایک دن یا اس سے بھی کم کی معلوم ہوگی) اللہ تعالی فرمائیں گے تم نے ایک دن یا دن کے کچھ حصہ میں میری رحمت ،رضا اورجنت کی بہتر کار کردگی دکھلائی ہے تم جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھہرے رہو۔ پھر اہل دوزخ سے فرمائیں گے تم لوگ زمین پر کتنی مدت رہے تو وہ کہیں گے ایک دن یا اس کا کچھ حصہ(دوزخ میں ان کو دنیا کی زندگی ایک دن یا اس کا کچھ حصہ معلوم ہوگی)تو اللہ تعالی فرمائیں گے تم نے ایک دن یا اس کے کچھ حصہ میں میری ناراضی ،نافرمانی اورآگ حاصل کر کے بہت برا کیا ہے،اب تم جہنم میں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہو،تو وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہمیں اس سے نکال باہر کریں اب اگر ہم نے دوبارہ یہی کام کئے تو ہم بلاشبہ حد سے گذرنے والے ہوں گے،تواللہ تعالی فرمائیں گے اب جہنم ہی میں ذلیل وخوار ہوکر پڑے رہو اورمیرے ساتھ بات نہ کرو،بس یہ اللہ تعالی کے ساتھ اہل جہنم کا آخری کلام ہوگا۔ دوزخیوں کی شکلیں بگاڑدی جائیں گی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں جب اللہ تعالی ارادہ فرمائیں گے کہ جہنم سے کسی کو نہ نکالیں تو ان کے چہروں اور رنگوں کو بگاڑدیں گے،پس مؤمنین سے ایک آدمی حاضر ہوگا اور(اللہ تعالی سے)سفارش کرے گا اور کہے گا اے میرے رب!توحکم ہوگا جو کسی کو پہچان لے وہ اسے (جہنم سے)نکال لے(ابن مسعودؓ)فرماتے ہیں پس مؤ منین میں سےایک آدمی آئے اوروہ اہل دوزخ کو دیکھے گا تو کسی کو نہ پہچان سکے گا، لیکن ایک آدمی اسے پکارے گا اورکہے گا اے فلاں میں فلاں آدمی ہوں ،تو وہ جواب دے گا کہ میں تو تمہیں نہیں پہچانتا،تو اس وقت وہ لوگ جہنم میں (جلتے ہوئے)فریاد کریں گے اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال لیجئے اگر اب ہم ایسا کریں گے تو بلا شبہ ہم ظالم ہوں گے، تو اس وقت جواب دیا جائے گا کہ اسی میں مردود ہوکر پڑے رہو اور میرے ساتھ بات نہ کرو،جب اللہ تعالی یہ جواب دیں گے تو ان پر جہنم کے دروازے بند کردیئے جائیں گے پھر ان میں سے کوئی نہ نکلے گا۔ دوزخیوں کے مردود کردینے کے بعد کوئی نہیں نکلے گا ایک روایت میں حضرت ابن مسعودؓ سے یہ منقول ہے کہ اس آیت کے بعد نکلنا نہیں ہوگا:"اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُکَلِّمُونِ" حضرت زیاد خراسانی کسی اہل علم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا جب انہیں کہا جائے گا"اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُکَلِّمُونِ" تو وہ گرجائیں گے پس ان کی آہٹ بھی نہیں سنی جائے گی مگر تانبے کے تھال کی آواز جیسی۔ (تفسیر امام عبدالرزاق) موت کے ذبح ہونے سے پہلے تک اہل دوزخ جہنم سے نکلنے کی امید میں رہیں گے اہل جہنم آزاد ہونے کی امید میں رہیں گے یہاں تک کہ موت کو ذبح کردیا جائے گا اس کے بعد ان میں نا امیدی طاری ہوجائے گی اور حسرت اورغم بڑھ جائے گا۔ جنتیوں اوردوزخیوں کے سامنے موت کی موت (حدیث)حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: يُجَاءُ بِالْمَوْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُ کَبْشٌ أَمْلَحُ زَادَ أَبُو كُرَيْبٍ فَيُوقَفُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَاتَّفَقَا فِي بَاقِي الْحَدِيثِ فَيُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ قَالَ وَيُقَالُ يَا أَهْلَ النَّارِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا قَالَ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ قَالَ فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُذْبَحُ قَالَ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ قَالَ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (مسلم،باب النار یدخلھا الجبارون والجنۃ،حدیث نمبر:۵۰۸۷) (ترجمہ)روز قیامت موت کو پیش کیا جائے گا گویا کہ وہ سیاہ اور سفید مینڈھا ہے پس اسے جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کردیاجائے گا اور کہا جائے گا اے اہل جنت کیا تم اسے پہچانتے ہو؟تو وہ گردنوں کو لمبا کرکے دیکھیں گے ہاں !یہ موت ہے اور اہل جہنم کو بھی کہا جائے گا،کیا تم اسے جانتے ہو؟تو وہ (بھی) گردنیں لمبی کرکے دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں!یہ موت ہے،آپ ﷺ فرماتے ہیں اس کے بعد اسے ذبح کردینے کا حکم دیا جائے گا،پھر اعلان ہوگا اے اہل جنت (اب تم کو بھی یہاں پر) ہمیشہ رہنا ہے(تم پر بھی)موت نہیں آئے گی اوراے اہل جہنم تم کو بھی یہاں پر ہمیشہ رہنا ہے (تم پر بھی)موت نہیں آئے گی، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: (ترجمہ آیت)اورآپ ﷺ ان لوگوں کو حسرت کے دن سے ڈرائیے جبکہ (جنت دوزخ کا)اخیر فیصلہ کردیاجائےگا ا،اوروہ لوگ(آج دنیا میں)غفلت میں (پڑے)ہیں اور وہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (بخاری شریف،مسلم شریف) موت کی موت پر اہل جنت اوراہل جہنم کی حالت (فائدہ)امام ترمذی نےمذکورہ حدیث میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ اگر اللہ تعالی نے اہل جنت کے لئے زندگی اوربقاء کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو وہ خوشی سے مرجاتے اوراگراللہ تعالی نے اہل جہنم کے لئے زندگی اور بقاء کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو وہ غم سے مرجاتے۔ (منہ) (حدیث)حضرت ابو ہریرہؓ نے(جو)حدیث (ذبح موت کے متعلق)حضورﷺ سے نقل کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اہل جنت خوف اورپریشانی سے جھانکتےہوں گے کہ انہیں اس مقام(جنت)سے نکال نہ دیا جائے جہاں پر وہ موجود ہیں، اسی طرح اہل جہنم بھی(شفاعت کی امید میں)خوشی اور مسرت سے جھانکتے ہوں گے کہ انہیں وہاں سے نکال لیا جائے گا جہاں پر وہ موجود ہیں۔ (مسند احمد،ترمذی،ابن ماجہ) (فائدہ)بخاری اور مسلم میں حضرت ابن عمرؓ کی حدیث میں حضورﷺ سے مذکورہ حدیث کے ہم معنی ایک روایت ہےاور اس میں یہ بھی ہے کہ (موت کے ذبح ہو جانے کے بعد) اہل جنت کے لئے پہلی خوشی کے ساتھ مزید خوشی کا اضافہ ہوجائے گا اور اہل جہنم کا غم پہلے غم کے ساتھ مزید بڑھ جائے گا اور امام ترمذی نے ابو سعیدؓ سے حضورﷺ کافرمان مختصر نقل کیا ہے اور اس میں ہے کہ اگر کوئی خوشی سے مرتا تو اہل جنت ہی خوشی سے مرجاتے اوراگر کوئی غم سے مرتا تو اہل جہنم بھی مرجاتے۔ اس طرح کا ایک قول حضرت ابن مسعودؓ سے بھی منقول ہے جس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اہل جنت اوراہل جہنم میں اعلان کردیا جائے گا کہ اب (تم نے یہاں پر) ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا ہے(ابن مسعودؓ)فرماتے ہیں کہ اہل جنت اتنا زیادہ خوش ہوں گے کہ اگر کوئی خوشی سے مرتا ہوتا تو یہ بھی مرجاتے،اسی کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: "وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ کَاظِمِينَ" (غافر:۱۸) اور یہ فرمان بھی :" وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ" (مریم:۳۹) (ابن ابی حاتم) (ترجمہ)اورآپ ایک قریب آنے والی مصیبت کے دن سے ڈرائیے جس وقت کلیجے منہ کو آجائیں گے(غم سے)گھٹ گھٹ جائیں گے اوران لوگوں کو حسرت کے دن سے ڈرائیں جب فیصلہ کردیا جائےگا۔(موت کو ذبح کردینے کا) حضرت عمر بن خطاب ریت کے ٹیلہ کے پاس سے گذرے اورروپڑے،تو ان سے کہا گیا اے امیر المومنین آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا میں نے اہل جہنم کو یاد کرلیا تھا اور وہ اس ریت کے ذرات کے برابر بھی آگ میں رہتے تو وہ ان کے لئے معین ہوتا اور یہ لوگ اس کی طرف گردنیں تان تان کر دیکھتے لیکن ان کو تو اس میں ہمیشہ رہنا ہے،اسی طرح پر حضرت ابن مسعودؓ سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً مروی ہے۔