انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ہر مسئلہ میں ایک ہی صحابی کی طرف رجوع کرنا نقل روایت میں تو ایک صحابی کے بعد کسی دوسرے صحابی سے مزید تحقیق کی ضرورت نہیں رہتی اس لیے کہ صحابہ سب کے سب عادل اور ثقہ ہیں؛ لیکن اخذ مسائل میں مجتہدین صحابہ کو عام صحابہ پر تفوق اور امتیاز ضرور حاصل تھا، ایک کے بعد دوسرے سے مسئلہ پوچھا جاسکتا تھا لیکن اکابراہل علم میں سے کسی ایک بزرگ کو مرکز علم بنانا اور ہر مسئلہ میں ان کی طرف رجوع کرنا بھی بالکل درست سمجھا جاتا تھا، حضرت ابو موسی اشعریؓ(۵۲ھ)سے وراثت کا ایک مسئلہ پوچھاگیا اور پھر وہی مسئلہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا جواب حضرت ابو موسی اشعریؓ کے جواب سے مختلف تھا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس اس باب میں صریح حدیث نبوی موجودتھی،حضرت ابو موسی اشعری کا جواب ان کے اجتہاد پر مبنی تھا،مجتہد کبھی مخطی ہوتا ہے اور کبھی مصیب،تاہم یہ صحیح ہے کہ نص کے مقابلے میں اجتہاد کی اجازت نہیں، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو حضرت ابو موسی اشعریؓ کا جواب بتلایا گیا تو آپ نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ گمراہ ہوئے اپنے بارے میں فرمایا: اگر میں بھی یہی جواب دوں تو بےشک میں گمراہ ہوں گا(کیونکہ میرے پاس تو اس باب میں نص حدیث موجود ہے، نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کو کیا راہ)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ جواب جب حضرت ابو موسی اشعریؓ کو بتلایا گیا تو آپ نے فرمایا: "لَاتَسْأَلُونِي مَادَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُم"۔ (بخاری،بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ،حدیث نمبر:۶۲۳۹،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جب تک یہ بڑے عالم تم میں موجود ہیں تو مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھا کرو۔ سبحان اللہ کیا شانِ عقیدت تھی، حضرت ابو موسی اشعریؓ نے یہاں "ھذا لحبر" کہا ہے "ھذا الصحابی" نہیں کہا معلوم ہوا کہ ہر مسئلہ میں کسی ایک مرکز کی طرف رجوع کرنا ان کی منزلت علمی کی وجہ سے تھا، منزلت صحابیت کی وجہ سے نہیں، صحابی کے علاوہ سبھی اگر کوئی بزرگ اپنے علم وتفقہ میں ممتاز ہوں تو ہر مسئلے میں ان کی طرف رجوع ہوسکتا ہے اور علمی امتیاز میں تو صحابی بھی بے شک ایک دوسرے سے مختلف تھے، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ہر صحابی اپنی ذات میں علم کی اتنی روشنی اور دل میں اتنی پاکیزگی پاچکا تھا کہ ان کا کوئی دینی مسئلہ اور کوئی علمی موقف ہوائے نفسانی پر مبنی نہ ہوسکتا تھا اور عام افراد امت ان میں سے کسی کی پیروی بھی کرلیں تو یہ اتباع منیبین ہی تھی کہ سب انابت الی اللہ، حسن نیت اور تزکیہ قلب کی دولت سے مالا مال تھے، حضورﷺ سے ان کی نسبت اتنی گہری تھی کہ اور سب نسبتیں اس پر قربان ہوچکی تھیں۔