انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عمربن سعد کے سامنے رے کے حکومت کا پیش کیا جانا ادھر اہلبیت نبویﷺ کا غریب الوطن قافلہ نینویٰ کے میدان میں پڑا تھا، دوسری طرف کوفہ میں ان چند نفوس کے لئے بڑی زبردست تیاریاں ہورہی تھیں، اسی زمانہ میں دیلمیوں نے دستبی پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تھا، اس لئے عمر بن سعد رے کا حاکم بناکر دیالمہ کی سرکوبی پر مامور کیا گیا تھا اور وہ فوجیں لیکر حرام اعین تک پہنچ گیا تھا کہ اسی دوران حضرت حسینؓ کے مقابلہ کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت پیش آئی جو ان کا مقابلہ کرسکے،ابن زیاد نے اس کام کے لئے ابن سعد کو بلا بھیجا اورکہا حسینؓ کا مقابلہ سب سے مقدم ہے، پہلے ان سے نپٹ لو پھر عہدہ پر واپس جانا، عمربن سعد نے کہا خدا امیر پر رحم کرے مجھ کو اس خدمت سے معاف رکھا جائے، ابن زیاد نے کہا اگر تم کو اس سے عذر ہے تو رے کی حکومت نہ ملے گی،اس دھمکی پر ابن سعد نے اس مئلہ پر غور کرنے کی مہلت مانگی ،ابن زیاد نے مہلت دی اورابن سعد نے اپنے ہواخواہوں سے اس بارہ میں مشورہ لینا شروع کیا،ظاہر ہے کہ حسینؓ کے خون کا بار اٹھانے کی تائید کون کرسکتا تھا؛چنانچہ سب نے اس کی مخالفت کی ان کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے آکر کہا،ماموں! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ حسینؓ کے مقابلہ میں جاکر خدا کا گناہ اپنے سر نہ لیجئے، اورقطع رحم نہ کیجئے، (عمر کے والد حضرت سعد بن وقاص آنحضرتﷺ کے رشتہ کے ماموں تھے اس لحاظ سے عمر حضرت حسینؓ کا عزیز تھا) خدا کی قسم اگر آپ کی دنیا آپ کا مال آپ کی حکومت سب ہاتھوں سے نکل جائے تو وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ خدا سے ملئے اورآپ کے ہاتھ حسینؓ کے خون بے گناہی سے آلودہ ہوں، ابن سعد نے کہا انشاء اللہ تمہارے مشورہ پر عمل کروں گا۔ عمار بن عبداللہ بن یسار اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتےہیں کہ ابن سعد کو حسینؓ کے مقابلہ کے لئے جانے کا حکم ملنے کے بعد میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا کہ امیر نے مجھے حسینؓ کے مقابلہ میں جانے کا حکم دیا تھا، مگر میں نے انکار کردیا، عبداللہ نے کہا خدا تم کو نیک ہدایت دے، تم کبھی بھی ایسا نہ کرنا اورہرگز نہ جانا، یہ کہہ کر عبداللہ چلے آئے، اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ابن سعد جانے کی تیاریاں کررہا ہے تو یہ دوبارہ گئے مگر اس مرتبہ ابن سعد نے ان کو دیکھ کر منہ پھیر لیا ،عبداللہ اس کا عندیہ سمجھ کر واپس چلے آئے، اس فیصلہ کے بعد ابن سعد ابن زیاد کے پاس گیا اورکہا کہ آپ نے یہ خدمت میرے سپرد کی ہے ،اورحکومت کا فرمان بھی لکھ چکے ہیں، اس لئے اس کا انتظام بھی کردیجئے اورحسینؓ کے مقابلہ میں میرے ساتھ کوفہ کے فلاں فلاں اشراف کو بھیجئے، ابن زیاد نے کہا تم کو مجھے اشراف کوفہ کے نام بتانے کی ضرورت نہیں میں اپنے ارادہ میں تمہارے احکام کا پابند نہیں ہوسکتا کہ تمہاری رائے سے فوج کا انتخاب کروں اگر تم کو جانا ہے تو میری فوج کے ساتھ جاؤ ورنہ حکومت کا فرمان واپس کردو، جب ابن سعد نے دیکھا کہ ابن زیاد اس کا یہ کہنا بھی نہیں مانتا تو چار وناچار اسی فوج کے ساتھ جانے پر آمادہ ہوگیا۔ (طبری:۷/۳۰۸،۳۰۹)