انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان محمد غنی باللہ یوسف کے بعد اُس کا بیٹا محمد تخت نشین ہوا اور غنی باللہ کا لقب اختیار کیا،تخت نشینی کے چند روز بعد سلطان محمد نے لسان الدین ابن الخطیب کو ابو سالم بن ابوالحسن مرینی شاہ مراقش کے پاس بھیجا کہ اُس کو عیسائیوں کے خلاف امداد پر آمادہ کرے،ابو سالم نے فوج بھیج دی اورعیسائیوں سے معمولی لڑائیاں ہوئیں ،مگر کوئی قابلِ تذکرہ نتیجہ برآمد نہ ہوا، حاجب السلطنت رضوان نامی اس بادشاہ کے مزاج میں دخیل ہوکر سیاہ وسفید کا مالک ہوگیاتھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان محمد کے سوتیلے بھائی اسمعیل نے ۲۸رمضان ۷۶۰ کو جبکہ سلطان محمد شہر سے باہر جنت العریف میں مقیم تھا، قلعہ غرناطہ پر قبضہ کرلیا، ۲۹ رمضان کی صبح کو جب سلطان محمد نے سُنا کہ شہر و قلعہ پر اسمعیل کا قبضہ ہوچکا ہے تو وہ سیدھا وادی آش کی طرف روانہ ہوا اوروہاں پہنچ کر فوج کو فراہم کرنے لگا، ساتھ ہی اُس نے شاہ قسطلہ سے خط وکتابت کرکے اس کو اپنی امداد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی،مگر ابھی اس عیسائی بادشاہ کی طرف سے کوئی تسکین بخش جواب نہیں ملا تھا کہ سلطان ابو سالم بن ابوالحسن مرینی بادشاہ مراقش کی طرف سے ۱۰ذی الحجہ ۷۶۰ ھ کو ابو القاسم ابن شریف بطور سفیر پہنچا اورسلطان محمد سے کہا کہ بادشاہ مراقش کے ساتھ چونکہ آپ کے قدیمی دوستانہ تعلقات ہیں،لہذا ان تعلقات کی بنا پر ابو سالم خواہشمند ہے کہ آپ اس کے یہاں بطور مہمان تشریف لے چلیں، وہ آپ کی ہر قسم کی امداد کرنے پر آمادہ ہے،سلطان محمد ۱۱ ذی الحجہ کو وادیٔ آش سے مراقش کی جانب روانہ ہوا، اور مراقش پہنچ کر عزت وحرمت کے ساتھ سلطان ابو سالم کا مہمان ہوا، ادھر غرناطہ میں سلطان اسمعیل کی حکومت شروع ہوگئی۔