انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سلطان اسمعیل سلطان اسمعیل نے بھی تختِ نشین ہونے کے بعد قسطلہ کے عیسائی بادشاہ سے خط وکتابت کرکے دوستی وصلح کی بنیاد قائم کی،شاہ قسطلہ چونکہ ان دنوں شاہ برشلونہ کے ساتھ برسرِ جنگ تھا، اُس نے اس صلح کو بہت غنیمت سمجھا،مگر ۴ شعبان ۷۶۱ھ کو سلطان اسمعیل کے بھائی ابو یحییٰ عبداللہ نے سلطان اسمعیل اوراس کے ساتھیوں کو قتل کرکے خود تختِ سلطنت پر جلوش کیا، ۲۷ شوال ۷۶۲ھ کو اکیس مہینے کی جلاوطنی کے بعد سلطان محمد سلطان مراقش کی امداد سے اندلس میں آیا اورسلطنتِ غرناطہ کے علاقہ پر قبضہ کرنا شروع کیا،ابو یحییٰ عبداللہ نے جب اپنے آپ کو مقابلے میں کمزور پایا تو وہ خود بادشاہ قسطلہ کے پاس امداد طلب کرنے گیا، بادشاہ قسطلہ نے اس اعانت خواہ وپناہ گزیں کو بتاریخ ۲ رجب ۷۶۳ھ مع تمام ہمراہیوں کے اشبیلیہ کے قریب قتل کرادیا اوراُس کے تمام مال واسباب پر قبضہ کرلیا۔ ادھر سلطان محمد مخلوع نے ۲۰ جمادی الآخر ۷۶۳ھ کو غرناطہ پر قبضہ کرکے تختِ سلطنت پر جلوس کیا تھا یہ وہ زمانہ تھا کہ جبل الطارق سلطنتِ مراقش کے مقبوضات میں شامل تھا، اورکئی سال سے سلطنتِ غرناطہ قسطلہ کی عیسائی سلطنت کی باج گذار ہوگئی تھی،سلطان محمد نے اس مرتبہ غرناطہ پر قابض ہوکر نہایت احتیاط وخوبی کے ساتھ اپنی حالت کو سنبھالنے کی کوشش کی،حسنِ اتفاق سے مراقش میں ابو سالم کے فوت ہونے پر اُس کی اولاد میں خانہ جنگی شروع ہوگئی،ادھر شاہ قسطلہ اوراس کے بھائی میں لڑائیاں ہونے لگیں، دونوں طرف کی خانہ جنگیوں سے سلطان محمد نے فائدہ اُٹھایا ایک طرف تو قلعہ جبل الطارق پر قبضہ کرلیا، دوسری طرف سلطنتِ قسطلہ کو خراج دینے سے صاف انکار کردیا،یہ واقعہ ۷۷۲ھ کا ہے ۷۷۲ھ میں جب شاہ قسطلہ کے سفیروں کو کوئی خراج نہیں دیا گیا اور انکاری جواب کے ساتھ واپس لوٹایا گیا تو عیسائیوں سے بجز خاموش رہنے کے اور کچھ نہ ہوسکا غرض اس سلطان کے عہدِ حکومت میں سلطنت غرناطہ کے رعب ووقار نے خوب ترقی کی اور عیسائی اس سے ڈرنے لگے۔