انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابوجعفر مستنصر باللہ مستنصر باللہ بن ظاہر بامراللہ سنہ۵۸۸ھ میں ایک ترکیہ اُم ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا اور اپنے باپ کی وفات کے بعد رجب سنہ۶۲۳ھ میں تخت نشین ہوا، یہ خلیفہ اخلاقِ فاضلہ میں اپنے باپ سے بہت مشابہ تھا، اس نے عدل وانصاف قائم رکھنے میں اپنے باپ کی طرح کوشش کی، دین کی پابندی کا اس کوخاص طور پرشوق تھا، بغداد میں اس نے مدرسہ مستنصریہ بنایا اور بڑے بڑے علماء مدرسہ پرمقرر ہوئے، اس مدرسہ کی تعمیر کا کام سنہ۶۲۵ھ میں شروع ہوکر سنہ۶۳۱ھ میں ختم ہوا، اس مدرسہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا، جس میں ایک سوساٹھ اُونٹوں پرلادکر نہایت نفیس ونایاب کتابیں داخل کی گئیں، حدیث، نحو، طب اور فرائض کے استاد الگ الگ مقرر کیے گئے، ان سب کے کھانے پینے، مٹھائی میوے اور دوسری چیزوں کا انتظام مدرسہ کی طرف سے ہوتا تھا، بہت سے گاؤں اس مدرسہ کے لیے وقف تھے، سنہ۶۲۸ھ میں ملک اشرف نے دارالحدیث اشرفیہ کی بنیاد رکھی۔ سنہ۶۳۰ھ میں اس کی تکمیل ہوئی، سنہ۶۲۹ھ میں محمد بن یوسف بن ہود نے اندلس میں دعوتِ عباسیہ کا اعادہ کیا، سنہ۶۳۴ھ میں علاؤ الدین کیقباد بن قلج ارسلان بن سلیمان بن تتلمش بن اسرائیل بن سلجوق جوایشیائے کوچک کے اکثر حصے پرقابض ومتصرف تھا، فوت ہوا اور اس کا بیٹا غیاث الدین کنیحسر وتخت نشین ہوا، سنہ۶۴۱ھ میں تاتاریوں نے غیاث الدین کنیحسرو پرچڑھائی کرکے شکست دی اور غیاث الدین کنیحسرو نے تاتاریوں کی اطاعت قبول کرکے باج گزاری منظور کی، اس طرح سلاجقہ روم کی دوصدسالہ حکومت کا خاتمہ ایشیائے کوچک میں ہوگیا، غیاث الدین کنیحسرو تاتاریوں کی باجگزاری میں سنہ۶۵۶ھ تک حکومت کرکے فوت ہوا؛ اسی زمانہ میں خاندانِ عثمانیہ کے مورث اعلیٰ نے سلطنتِ عثمانیہ کے ایوان رفیع کی بنیادی اینٹ رکھی تھی، جس کا حال بعد میں مفصل بیان کیا جائےگا۔ خلیفہ مستنصر نے ملک کے انتظام اور عدل وانصاف کے قیام میں بہت کوشش کی؛ مگرچونکہ ترکوں اور تاتاریوں نے یکے بعد دیگرے ولایتوں اور صوبوں پرقبضہ کرنا شروع کیا اور جلد ازجلد ایک کے بعد دوسرا ملک ان کے قبضہ میں آتا گیا؛ لہٰذا خلیفہ کی آمدنی کم ہوگئی، صلاح الدین یوسف کی سلطنت جوشام ومصر پرمشتمل تھی، صلاح الدین کے اولاد کی نااتفاقیوں سے برباد ہورہی تھی، تاتاریوں کے سیلاب نے ماوراءالنہر سے بحرروم اور بحراسود تک کے تمام ملکوں کوتاخت وتاراج کرڈالا تھا؛ تاہم ملکِ عراق پرخلیفہ کا قبضہ تھا اور تاتاریوں (مغلوں) کے دلوں پرخلیفہ بغداد کا اس قدر رعب قائم تھا کہ وہ خلیفہ کے مقبوضہ ملک کی طرف نگاہ نہیں کرسکتے تھے اور جس طرح خراسان، آذربائیجان، موصل، شام وغیرہ کے سلاطین خلیفہ کی ناراضی سے ڈرتے تھے؛ اسی طرح مغل بھی خلیفہ بغداد کی سیادت کوتسلیم کرتے اور کسی قسم کی گستاخی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے، یہ تاتاری (مغل) چونکہ آفتاب پرست تھے اور سلجوقیوں کی طرح مسلمان ہوکر نہیں آئے تھے؛ لہٰذا ان کواس کی پرواہ ہی نہ تھی، کہ کس کے نام کا خطبہ مسجدوں میں پڑھا جاتا ہے؛ لہٰذا ان کے مفتوحہ ممالک میں بہ دستور خلیفہ بغداد کا خطبہ جاری تھا اور اسی لیے خلیفہ کواطمینان تھا، تاتاریوں کے اس سیلاب کودیکھ دیکھ کرخلیفہ مستنصر کا بھائی خفاجی نامی جومستنصر سے زیادہ بہادر اور اولوالعزم تھا، کہا کرتا تھا کہ اگرمیں خلیفہ ہوجاؤژ تودریائے جیحون کے پارتک ان تاتاریوں کا نام ونشان مٹاکر چھوڑوں، سنہ۶۴۱ھ میں خلیفہ مستنصر فوت ہوا تولوگوں نے اس کے بھائی خفاجی کوتخت پرنہ بٹھایا، جوہرطرح قابل اور مستحقِ خلافت تھا؛ بلکہ مستنصر کے بیٹے ابواحمد عبداللہ کواس لیے ترجیح دی کہ ابواحمد عبداللہ نرم مزاج اور سادہ لوح تھا، اراکینِ سلطنت ایسے ہی خلیفہ کوپسند کرتے تھے؛ تاکہ ان کے اقتدار وحکومت میں ترقی ہو؛ چنانچہ ابواحمد عبداللہ نے مستعصم باللہ کے لقب سے تخت خلافت پرجلوس کیا۔