انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پہلے مہاجر علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قریشی صحابہ میں سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے سب سے پہلے مہاجر ابوسلمہ عبداﷲؓ بن عبدالاسعد بن ہلال بن عبداﷲ بن عمر بن مخزوم ہیں، ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد جب ان کو قریش نے اذیت پہنچائی تو انھوں نے حبشہ جانے کا دوبارہ عزم کرلیا، پھر ان کو معلوم ہوا کہ مدینہ میں اسلامی بھائی موجود ہیں تو انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کا عزم کرلیا ، ان کی یہ مدینہ کی طرف ہجرت بیعت عقبہ ثانی سے ایک سال قبل ہوئی تھی،ان کے بعد حضرت عامرؓ بن ربیعہ اور ان کی بیوی لیلیٰ ؓبنت ابی حشمہ کا نام مہاجرین کی فہرست میں اول ہے، اس کے بعد حضرت عمارؓ بن یاسر، حضرت بلالؓ ابن رباح اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے نام ہیں، حضرت عثمانؓ اپنی زوجہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ چھپ کر مدینہ روانہ ہوئے ، اس کے بعد ہجرت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، بعض صحابہؓ نے راہِ ہجرت میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں جن میں حضرت ابو سلمہؓ عبداللہ اور ان کی زوجہ حضرت اُم سلمہؓ ، حضرت صہیبؓ رومی ، حضرت عباسؓ بن ربیعہ اور حضرت عبداللہ ؓبن سہیل کی داستان بڑی درد ناک ہے، حضرت صہیبؓ بن سنان رومی مکہ چھوڑنے والوں میں آخری مہاجر تھے، حضرت عیاشؓ بن ربیعہ جو ابو جہل کے ماں جائے بھا ئی تھے ، جب وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ان کے دونوں بھائی ابو جہل اور حارث نے راستہ روک کر ان کی مشکیں باندھ لیں، حضور ﷺ کو معلوم ہوا تو حضرت ولیدؓبن مغیرہ کو روانہ کیا جو انھیں چھڑا کر مدینہ لائے۔ حضرت عبداللہ ؓ بن سہیل بن عمرو حبشہ میں تھے، مسلمانوں کی مدینہ کو ہجرت سن کر مکّہ آئے، باپ نے پکڑ کر قید کر دیا اور تکلیفیں دینی شروع کر دیں، آخر تنگ آ کر باپ کو یقین دلایا کہ آبائی دین کی طرف لوٹتا ہوں ، اس طرح قید سے نجات پائی، جنگ بدر میں جب مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مدّ مقابل ہوئیں تو موقع پا کر مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوگئے، ان کے باپ سہیل فتح مکہ کے روز ایمان لائے۔ صحابہ کرام ؓ عموماً کافروں کے شر سے بچنے کے لئے بغیر کسی اعلان و اظہار کے خاموشی کے ساتھ ہجرت کر رہے تھے کیونکہ کفار انھیں ہجرت سے روکتے تھے مگر حضرت عمرؓ ہی وہ واحد صحابی ہیں جنھوں نے علانیہ طور پر ہجرت کی ، انھوں نے اس شان سے ہجرت کی کہ پہلے مسلح ہوئے اور اپنے بدن پر ہتھیار لگا کر کفار کے مجموعہ میں سے گذرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے، طواف کیا، نماز پڑھی ، پھر بلند آواز سے پکار کر کہا کہ میں ہجرت کرکے مدینہ جارہاہوں ، جس کسی کو مقابلہ کرنا ہو وہ حرم سے باہر آکر مجھ سے مقابلہ کرے ، چنانچہ وہ راہی مدینہ ہوئے راستہ میں کچھ مسلمان آپ کے ساتھ ہوگئے، اس طرح بیس افراد کا یہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ حضرت عمرؓ کے سوا دوسرے صحابہ جو ہجرت کے لئے نکلتے تھے وہ فتنہ میں مبتلا ہوجاتے تھے ، کفار کو ان کی ہجرت کا علم ہوتا تو انھیں گرفتار کرلیتے تھے اور اس بات کی بھی کوشش کرتے تھے کہ مدینہ سے ان کو کسی حیلے سے مکہ لاکر قید کر دیں چنانچہ عیاش ؓ بن ربیعہ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا، عیاشؓ بن ربیعہ اور ہشام ؓ بن عاص اور حضرت عمرؓ تینوں نے ایک ساتھ ہجرت کا ارادہ کیا اور ان میں یہ بات قرار پائی کہ بنی غفار کے تالاب کے پاس " مقام تناسب میں جمع ہوجائیں ہم میں سے جو بھی صبح کو وہاں نہیں پہنچے گا تو سمجھ لیا جائے گا کہ وہ گرفتار ہوگیا اس لئے بغیر انتظار کے پہنچ جانے والے روانہ ہوجائیں گے، صبح کو حضرت عمرؓ اور حضرت عیاشؓ پہنچ گئے اور حضرت ہشامؓ کفار کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے جنھیں ایک گھر میں بیڑی پہنا کر قید کردیاگیا، جب یہ دونوں مدینہ پہنچے تو عمرؓ و بن عو ف کے گھر اترے، مکہ سے ابو جہل بن ہشام اور حارث بن ہشام جو عیاشؓ کے چچازاد بھائی تھے عیاشؓ کے پاس مدینہ منورہ پہنچے ، ان دونوں نے عیاشؓ سے کہا کہ تمھاری ماں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک دیکھ نہ لے گی نہ تو اپنے سر میں کنگھی کرے گی اور دھوپ میں سے سایہ میں آئے گی، حضرت عمرؓ نے حضرت عیاشؓ سے کہا کہ ان کی باتوں میں نہ آنا یہ تم کو مرتد بنانا چاہتے ہیں، خدا کی قسم جب تمھاری ماں کو جوئیں تکلیف دیں گی تو ضرور کنگھی کرے گی اور مکہ کی دھوپ جب تیز ہوگی تو ضرور سایہ میں جائے گی، مگر حضرت عیاشؓ چونکہ رقیق القلب تھے وہ مکہ جانے کے لئے تیار ہوگئے، حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا تم میری اونٹنی لے لو ، جہاں تم خطرہ محسوس کرو اس اونٹنی سے بچ نکلنا، جب تینوں روانہ ہوئے تو راستہ میں ابو جہل نے کہا : واﷲ میں نے اپنے اونٹ پر بوجھ بہت لاد دیا ہے، کیا تھوڑی دیر کے لئے اپنی اونٹنی پر نہیں بٹھاؤگے ، حضرت عیاشؓ نے کہا کیوں نہیں، جب تینوں نے اونٹ بٹھائے اور زمین پر اتر آئے تو دونوں نے عیاشؓ پر حملہ کردیا اور رسی میں باندھ لیا، جب یہ لوگ مکہ پہنچے تو کہا : مکہ والو : اپنے بے ہودہ لوگوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرو جس طرح ہم نے اس بے ہودے شخض کے ساتھ کیا ہے، ( ابن ہشام - پیغمبر عالم) بعد میں جب حضور ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ایک دن آپﷺ نے فرمایا، عیاشؓ بن ربیعہ اور ہشامؓ بن عاص کو لانے کے لئے کون میری مدد کرتاہے؟ حضرت ولیدؓ بن ولید نے کہا :یارسول اﷲﷺ میں حاضر ہوں، حضرت ولیدؓ چھپ کر مکہ پہنچے ، ایک عورت کو دیکھا کہ کھانا لئے جارہی ہے،پوچھا اﷲ کی بندی کہاں جارہی ہے ، اس نے کہا میں دو قیدیوں کے پاس جارہی ہوں، یہ بھی اس کے پیچھے ہو لئے اور جس گھر میں وہ قید تھے اس کو پہچان لیا، اس گھر پر چھت نہ تھی ، جب رات ہوئی تو دیوار پھاند کر ان کے پاس پہنچے اور بیڑیوں کو تلوار مار کر کاٹ دیا، پھر ان دونوں کو اپنے اونٹ پر سوار کرکے آ نحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، (ابن ہشام - پیغمبر عالم) ہجرت کی اجازت جس دن ملی اس کے بعد آنے والی رات قریش نے آنحضرت ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایاتھا، اﷲ تعالیٰ کی مصلحت بھی یہی تھی کہ آپﷺ کو مکہ میں اس وقت تک رکھے جب تک مکہ والے دشمنی کی آخری حد تک نہ پہنچ جائی۔ بیعت عقبہ ثانیہ ِذی الحجہ ۱۳ نبوت میں ہوئی، اس کے بعد دو، تین ماہ کی مدت میں تمام مسلمان مکہ سے ہجرت کر گئے اب صرف تین افراد یعنی آنحضر ت صلی اللہ علیہ و سلم ، حضرت ابو بکرؓ اورحضرت ،علیؓ مکہ میں باقی رہ گئے ، حضرت ابو بکرؓنے ہجرت کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورﷺ نے فرمایا : جلدی نہ کرو ، شاید اللہ تمہیں ایک ساتھی عطا فرمائے ، حضرت ابوبکرؓ کو امید ہو گئی وہ ساتھی حضورﷺ خود ہیں ، چنانچہ انھوں نے دو اچھی نسل کی اونٹنیاں خریدیں اور انھیں سفر کے لئے تیار کیا، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا: میرے ساتھ سفر ہجرت میں کون ہوگا؟ انہوں نے بتایا : ابو قحافہ کا بیٹا ابو بکرؓ ، حضور ﷺ نے بوقتِ ہجرت حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑ ا محض اس لئے کہ اہل مکہ کی جو امانتیں ان کے پاس تھیں وہ لوٹا دیں اور پھر ہجرت کریں، امانتیں اُسی وقت لوٹا نے سے راز فاش ہونے کا اندیشہ تھا۔ حضرت جبرئیل ؑنے قریش کے ارادوں سے حضورﷺ کو با خبر کرتے ہوئے کہاکہ آج رات آپﷺ اپنے بستر پر نہ سوئیں ، یہ سن کر حضور اکرمﷺ عین دوپہر کے وقت چہرے پر کپڑا ڈالے ہوئے حضرت ابو بکرؓ کے گھرتشریف لے گئے اور فرمایا : کچھ مشورہ کرناہے سب کو ہٹا دو ، حضرت ابو بکرؓ نے کہاکہ صرف میری بیٹیاں ہیں(حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کی شادی ہو چکی تھی) آپﷺ نے فرمایا : مجھ کو ہجرت کی اجازت ہو گئی ہے، عرض کیا ،یا رسول اللہ ! میرے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا : تم ساتھ چلو گے، عرض کیا : میں نے اس غرض کے لئے دو اونٹنیاں تیاررکھی ہیں، ان میں سے جو پسند ہو وہ حاضر ہے، فرمایا: اچھا مگر قیمت کے ساتھ، واقدی نے اس اونٹنی کانام قصواء اور ابنِ اسحاق نے جدعآ لکھا ہے، حضرت ابو بکرؓ نے پہلے ہی سے ایک راستوں کے ماہر شخص عبداللہ بن اُریقط کا اجرت پر انتظام کر رکھا تھا جو بنی الدّیل سے تعلق رکھتا تھا، اگر چہ مشرک تھا مگر قابل اعتماد تھا، اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اورکہا کہ جس جگہ بلایا جائے پہنچ جانا،اس کے بعد حضورﷺ اپنے مکان تشریف لائے، جب رات ہوئی تو حسب ِ قرار داد بارہ سرداران قریش حضورﷺ کے مکان کے گرد جمع ہوگئے کہ آپﷺ سوجائیں تو یہ لوگ آپﷺ پر ٹوٹ پڑیں ، ابن سعد کے مطابق ان بارہ سرداروں کے نام یہ ہیں،۱- ابو جہل ۲- حکم بن العاص ۳- عقبہ بن ابی معیط ۴- نضر بن حارث ۵- اُمیہ بن خلف ۶- حارث بن قیس بن الغیطلہ ۷- زمعہ بن الاسود ۸- طعیمہ بن عدی ۹- ابو لہب بن عبدالمطلب ۱۰- ابی بن خلف ۱۱- بنیّہ بن حجاج ۱۲- منبّہ بن حجاج-