انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ثقہ راویوں کے زیادہ الفاظ کی قبولیت حافظ ابن صلاح کہتے ہیں کہ ثقہ راوی اگرباقی ثقہ راویوں کی روایت پر کچھ زیادہ الفاظ روایت کرے تووہ زیادہ الفاظ اگردوسروں کی روایت کردہ حدیث سے ٹکراتے ہیں توانہیں قبول نہ کیا جائے؛ اگروہ زیادتی ان کے معارض نہیں تووہ لائق قبول ہے، ثقہ راوی کی روایت رد نہیں کی جاسکتی، محدثین کاتقریباً اس پراتفاق ہے کہ ثقہ کی زیادتی قابلِ قبول ہے، حافظ جمال الدین الزیلعی (۷۶۲ھ) نے نصب الرایہ میں بسم اللہ بالجھر پڑھنے کی بحث میں اس موضوع پر بڑی مفید بحث کی ہے۔ (دیکھئے :۱/۳۶۰) ابوعوانہ نے حضرت قتادہ سے انہوں نے یونس بن جبیر سے انہوں نے حطان بن عبداللہ سے انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت کیا کہ حضورﷺ نے فرمایا: "اذاصلیتم فاقیموا صفوفکم ثم لیؤمکم احدکم فاذا کبرفکبروا واذاقال غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین، فقولوا آمین"۔ جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفوں کو قائم کرو پھر تم میں سے کوئی ایک امام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور وہ جب غیرالمغضوب علیہم ولالضالین کہے تم اٰمین کہو۔ لیکن حضرت سلیمان التیمی نے قتادہ عن یونس بن جبیر عن حطان بن عبداللہ الرقاشی سے اس حدیث کوروایت کرتے ہوئے یہ الفاظ بھی روایت کیئے "وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوْا" (ترجمہ: جب امام قرآن پڑھے توتم چپ رہو) یہ الفاظ سلیمان کے سوا قتادہ کے دوسرے شاگردوں نے روایت نہیں کئے؛ لیکن ان کی روایت سے ٹکراتے بھی نہیں توثقہ راوی کی یہ زیادتی لائق قبول ہوگی، امام مسلم سے ان کے شاگرد ابواسحاق ابراہیم بن سفیان کہتے ہیں کہ ابوبکر بن اخت ابوالنصر نے امام مسلم سے اس زیادتی کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: "تریداحفظ من سلیمان" (تم سلیمان سے زیادہ حافظہ میں کس کو پاتے ہو) (مسلم:۱/۱۷۴) پھرابوبکر بن اخت ابی النصر نے پوچھا کہ اس موضوع میں حدیث ابی ہریرہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؛ انہوں نے کہا کہ وہ بھی صحیح ہے ۔